زندگی کی عمارت اعتدل و استقلال سے قائم ہے۔ جہاں حد سے گزر گئے، وہیں ذہنی و جسمانی صحت کو خطرے میں ڈال دیا۔ اپنے ہی خطے میں آزاد ممالک کی ترقی و خوشحالی دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ وہ ایجادات کے نئے سفر پر گامزن ہیں۔ دنیا بھر کے علوم کی تحصیل میں مشرق وسطیٰ میں بھی سائنسی کلچر پیدا ہورہا ہے۔ ہمارے ملک میں بھی ذہین اور ہنرمند افراد مختلف شعبوں میں ایجادات کرکے ملک کا نام روشن کررہے ہیں۔ ایسے میں پاکستانی خواتین اپنے حقوق و فرائض کو ذمہ داری سے نبھاتے ہوئے جس طرح اپنی خود اعتمادی اور انفرادی کاوشوں سے پاکستان کی ترقی میں اپنا کردار ادا کررہی ہیں، اس سے ہم سرِ مو انحراف نہیں کرسکتے۔ ان کے انفرادی کارہائے نمایاں کے باعث پاکستان کا روشن چہرہ دنیا پر عیاں ہوا ہے۔
ملازمت پیشہ و ہنرمند خواتین
دنیا بھر میں پاکستان کو باوقار مقام دلانے کے لیے خواتین روز اوّل سے اپنی صلاحیتیں بروئے کار لارہی ہیں۔ تحریکِ پاکستان سے لے کر قیام پاکستان کے بعد تک بہت سی خواتین نے سیاست، کھیل، تعلیم اور سائنس سمیت دیگر شعبوں میں اپنی دیرپا شناخت بنائی ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ حکومت، افواجِ پاکستان، عدلیہ اور صحافت جیسے ریاست کے چار ستونوں میںبھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔ پاکستان میں قائم مقامی اور ملٹی نیشنل کمپنیوں میں کام کرنے والی خواتین نے اپنی قائدانہ صلاحیتوں سے یہ ثابت کردیا ہے کہ پاکستانی خواتین کسی سے کم نہیں۔ پھر چاہے وہ شہرت کی بلندیوں کو چھونے والی پاکستانی اداکارائیں ہوں، ڈائریکٹرز، فیشن کی دنیا میں پاکستان کا روشن چہرہ پیش کرنےوالی ماڈلز، آن لائن کاروبار کرکے ای کامرس کو ترقی دینے والی خواتین انٹرپرینیورز، دور دراز دیہات میں تعلیم کی روشنی پھیلانے والی استانیاں یا پھر ہر سال اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں اعلیٰ اسناد و اعزاز پانے والی طالبات، ان کی طاقت کو اب کوئی روک نہیں سکتا۔ 80ء کے عشرے سے مسلسل اعلیٰ پوزیشنز پر فائز طالبات اور سلائی کڑھائی کرنے والی ہنرمند خواتین کے کارپوریٹ شعور کے سامنے اب کوئی بند نہیں ہے۔ ہماری ہنرمند خواتین کی مصنوعات کے آن لائن پورٹل متعارف ہوچکے ہیں۔ پاکستانی آرٹ اینڈ کرافٹ کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں مقبول کروانے میں خواتین کے کردار کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ آج بنت حوا مجبور نہیں ہے، وہ اپنے خلاف ہونے والے تشدد کو طشت از بام کرنے میں بھی آگے ہے۔ ’می ٹو تحریک‘ نے پاکستان میں بھی اپنے اثرات ڈالے اور خواتین نے سماجی رابطوں کی سائٹس پر اس بارے میں بات بھی کی۔ خواتین کے حقوق پر قانون سازی بھی ہوئی ہے جبکہ میڈیا اب پہلے سے کہیں زیادہ باخبر ہے۔
خوداعتمادی اور حقوق و فرائض کا شعور
پاکستانی معاشرے میں خواتین کی ترقی ان کی اپنی بڑھتی ہوئی خوداعتمادی اور حقوق و فرائض کے شعورکی بدولت ممکن ہوئی ہے، جس کی ایک اہم وجہ ریاست کے چار ستونوں میں عورت کی موجودگی ہے۔ خواتین نے تمام مشکل حالات میں مردوں کے شانہ بشانہ کام کیا ہے۔ ہماری شاعرات و ادیبائوں نےمردوں کی اس دنیا میںانھیں آئینہ دکھایا۔ نسائی تحریروں کی اثر پذیری اور طاقت کے باعث ’غیرت کے نام پر قتل‘ کو غیر اسلامی قرار دیا گیا۔ گزشتہ دہائیوں تک خواتین کی اکثریت گھروں تک محدود تھی، تاہم1990ء کے بعد سے ملازمت پیشہ شادی و غیر شادی شدہ خواتین کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ مرد اور خواتین گھرچلانے اور پاکستان کی معاشی ترقی میں یکساں کردار ادا کررہے ہیں۔ آبادی میں اضافے اور مہنگائی کے طوفان نے متوسط طبقے کے لیے یہ مشکل بنادیا ہے کہ گھر کا خرچہ ایک ہی فرد چلائے، ایسے میں باصلاحیت خواتین آگے آکر بھرپور اعتماد سے اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے پوری کررہی ہیں۔ حقیقی معنوں میں اب میاں بیوی شریکِ حیات کے رُوپ میں ڈھل رہے ہیں، جہاں وہ ایک دوسرے کے دُکھ سُکھ سانجھی ہیں۔ نئے معاشی اشاریے میں بیوی، خاوند کی اکنامک پارٹنر ہے۔