• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پتا نہیں کیا گناہ ہو گیا ہے، کیسی پستیاں مقدر بنا دی گئی ہیں۔ روز بے حسی کا کوئی ایسا المیہ رونما ہو جاتا ہے کہ روح تک کانپ اٹھتی ہے۔ زندگی ایک تعزیتی خاموشی میں بدلتی جا رہی ہے، لوگ اپنی اپنی لاش اپنے اپنے کاندھے پر اٹھائے پھرتے ہیں۔ اجتماعی شعور کو حرص و ہوس نے چیر پھاڑ پھینکا ہے، ضمیر مردہ ہو چکے ہیں، شاید ہمارے خمیر میں ہی کوئی کجی ہے۔

ضبط لازم ہے مگر دکھ ہے قیامت کا فرازؔ

ظالم اب کے بھی نہ روئے گا تو مرجائے گا

مجھے جب نکولس کک کا فون آیا تو میں بہت پُریقین تھا کہ نئے پاکستان میں پامال شدہ انسانی اقدار پھر سے چلنے پھرنے کے قابل ہونے والی ہیں، ہم ہر سطح پر ایک ترقی یافتہ قوم بننے والے ہیں۔ اُس نے کہا ’’فیصل آباد کے ایک مشنری اسکول سے ملحقہ اراضی پر گندگی ٹھکانے لگانے والی مشینیں لگائی جا رہی ہیں، وہاں کنویں بنائے جا رہے ہیں، جہاں شہر بھر کے گٹروں کا فضلہ جمع ہونا ہے‘‘ اور ساتھ طنزاً یہ بھی کہا کہ ’’بے شک پاکستان میں انسانی گندگی اُٹھانے پر اکیسویں صدی میں بھی اقلیتوں کے انسانی سر معمور ہیں مگر اسکول کے بچوں پر تو رحم کریں۔ بچے تو پھولوں کی مثال ہوتے ہیں، مہکتے ہیں اور میٹھی میٹھی باتوں کی خوشبوئیں بکھیرتے ہیں، قوموں کامستقبل ہوتے ہیں۔ یہ بات کم از کم تم اچھی طرح جانتے ہو کہ بدبو اور مشینی شور میں تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کی سائیکی کیسے ترتیب پاتی ہے۔ یہ اسکول ہمارے ایک عظیم مذہبی اسکالر بشپ افتخار کی محنتوں کا ثمر ہے۔ اُس کے ساتھ وہاں جو سلوک ہوا سو ہوا، خیر وہ خود تو اس وقت یورپ کی آزاد فضائوں میں محفوظ ہے مگر اُس کے اسکولوں کی ذمہ داری اب ہم پر آپڑی ہے۔ میں نے دنیا بھر کے میڈیا کو آواز دینے سے پہلے تمہیں فون کرنا مناسب سمجھا ہے کہ تم ایک سچے مسلمان ہو، مجھے یقین ہے کہ تم اقلیتی بچوں کےساتھ یہ زیادتی نہیں ہونے دو گے‘‘۔

میں نے پہلا فون قومی اسمبلی کے اعلیٰ عہدہ دار سے فیصل آباد کے کمشنر کو کرایا۔ جواب ملا کہ کنویں یہیں بنیں گے، ہمارے خلاف برطانوی نشریاتی ادارہ جو کر سکتا ہے کر لے، مجھے حیرت بھری پریشانی ہوئی، میں سوچنے لگا کوئی پڑھا لکھا آدمی ایسی بات بھی کر سکتا ہے۔ خیال آیا ممکن ہے صاحب گھر سے لڑ کر دفتر آئے ہوں، رات کو میری ملاقات ایک صاحبِ طرز نثر نگار اور تجزیہ کار سے ہوئی، انہیں قصہ سنایا تو انہوں نے اپنے کسی دوست کو فون کیا، جواباً تھوڑی دیر میں انہیں کمشنر فیصل آباد کا فون آگیا، اُس نے اُن کے ساتھ بڑی محبت بھری لجاجت سے گفتگو کی اور انہیں سمجھانے کی کوشش کی کہ اسکول سے ملحقہ گندگی کے کنویں انتہائی ضروری ہیں۔ اگر یہ وہاں نہ بنائے گئے تو سارا فیصل آباد گندے پانی میں ڈوب جائے گا، گندگی کا سیلاب روکنے کا واحد حل یہی ہے۔ انہوں نے مایوس ہو کر مجھےکہا ’’وہ تو بضد ہے، چیف سیکرٹری پنجاب بڑے اچھے آدمی ہیں، انہیں جا کر ملتے ہیں‘‘۔ ہم دونوں چیف سیکرٹری سے ملے، اُنہوں نے کمال محبت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کمشنر صاحب کو فون کیا کہ اِس معاملے کا کوئی اور حل تلاش کیا جائے، اسکول کے ساتھ گندگی کے کنویں بنانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اسپیشل ایجوکیشن کے وزیر چوہدری اخلاق بڑے انسان دوست آدمی ہیں، اُنہیں بتایا تو اُنہوں نے واسا کے ایم ڈی کو فون کرکے اِس غلط کام سے روکا۔ میں نے اپنے شاعر دوست مہر شفقت کو فون کیا، وہ فیصل آباد اینٹی کرپشن کے سربراہ ہیں، ان سے درخواست کی تو پتا چلا کہ ابھی تک کنویں بنانے کے پروگرام میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ معروف کالم نگار مظہر برلاس سے بات کی، وہ اتفاقاً اس وقت وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے ساتھ تھے، وزیراعلیٰ کا پیغام بھی کمشنر صاحب کو چلا گیا مگر اس کے باوجود اگلے روز وہاں گندگی کے کنویں بنانے کا کام شروع کر دیا گیا۔ میں نے سوچا کہ مجھے خود کمشنر صاحب سے بات کرنا چاہئے، ممکن ہے گفتگو سے کوئی حل نکل آئے مگر اُنہوں نے فرمایا ’’کنویں یہیں بننا ہیں، یہ لوگ اپنا اسکول یہاں سے اٹھا کر کہیں اور لے جائیں‘‘۔ مجھے ایسے لگا کہ یہ اسکول نہیں گندگی کا کوئی ٹوکرہ ہے، جسے سر پر اٹھا کر کہیں رکھنے کا مشورہ دیا جا رہا ہے۔ میں نے واسا کے ایم ڈی سے بات کی، اس کے پاس میری کسی بات کا کوئی جواب نہ تھا، ہر بات کے جواب میں یہی کہتا تھا کہ ہم پبلک کی بہتری کے لئے کنویں بنا رہے ہیں۔ میں نے اپنے شہر میانوالی سے ایم پی اے احمد خان بھچر کو سارا واقعہ سنایا، وہ ایک دردِ دل رکھنے والے انسان ہیں، جنہوں نے اپنی زندگی انسانیت کے لئے وقف کر رکھی ہے۔ اُنہوں نے فوراً واسا کے وزیر محمود الرشید سے بات کی، اُنہیں شاید اِس بات پر یقین ہی نہ آیا کہ واسا والے ایسا بھی کر سکتے ہیں۔ اُنہوں نے اُنہیں کہا کہ منصور کو کہو کہ خود مجھ سے بات کرے، میں نےفون پر محمود الرشید کو ساری تفصیلات سے آگاہ کیا تو اُنہوں نے کہا ’’میں ابھی کام رکوا دیتا ہوں‘‘ مگر یہ سطور لکھنے تک کام نہیں رکا۔ اب صرف عدالت رہ گئی ہے، سوموار کی صبح اُس کی زنجیر ہلائوں گا۔

خدانخواستہ یہ کنویں بن جاتے ہیں تو کیا ہو گا۔ وہ پندرہ سو بچے جو اسکول میں پڑھتے ہیں، اُن کی نفسیاتی کیفیت کیا ہو گی، بچے شور میں اونچا بولیں گے اور پھر مرتے دم تک یہی اونچا بولنے کی عادت اُن کی ذات کا حصہ بن جائے گی، بدبو کا طوفان حسِ شامہ کو بری طرح مجروح کر دے گا، اُنہیں خوشبو سے الرجی کا مرض لاحق ہو جائے گا اور وہ جو تین سو یتیم بچے ہوسٹل رہتے ہیں، اُنہیں مشینری کے شور میں نیند کیسے آئے گی۔ وہ کیا سوچیں گے، اپنے ملک کے بارے میں، ہم مسلمانوں کے بارے میں۔ اُنہیں کون یہ سمجھائے گا کہ ان کا مستقبل ایک کمشنر کی ضد پر قربان ہو گیا ہے، اس میں ساری پاکستانی قوم کا کوئی قصور نہیں۔

قلم کے ٹکڑے سڑک پر بکھیر دینے ہیں

کسی زباں میں مجھے احتجاج کرنا ہے

تازہ ترین