• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تسخیرِ کائنات کے مراحل نہایت تیزی سے طے ہورہے ہیں، پر اسراریت میں تہہ درتہہ اُلجھی پہیلیاں سلجھتی چلی جا رہی ہیں اور وہ سربستہ راز جو کل تک محض دیوانوں کا خواب محسوس ہوتے تھے، حقیقت کا روپ دھار کر ششدر کئے جاتے ہیں۔ کنویں کے مینڈک مگر اب بھی حالتِ انکار میں مست نظر آتے ہیں۔ دنیا بھر میں بلیک ہول کی نادر و نایاب اور اِکلوتی تصویر زیر بحث ہے۔ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ بلیک ہول کی تصویر کشی نوعِ انسانی کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ جس بلیک ہول کے دہانے کی تصویر اُتاری گئی ہے، اُسے بہت بڑا عفریت (Monster)کہا جا رہا ہے کیونکہ یہ بلیک ہول زمین کے مجموعی حجم سے 30لاکھ گنا بڑا ہے، ہمارے نظام شمسی میں جتنے سیارے اور ستارے ہیں، یہ سب اس میں سما سکتے ہیں۔ اگر اس عفریت کا سورج سے موازنہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ بلیک ہول 6.5ارب گنا بڑا ہے چونکہ بلیک ہول ہر اس چیز کو ہڑپ کر سکتا ہے، جو اس کے قریب جاتی ہے، اس لئے اس کی منظر کشی کرنا تقریباً ناممکن تھا۔ مگر اس منصوبے سے جڑے سائنسدانوں نے دنیا کے مختلف حصوں میں 8مختلف دیوہیکل دوربینیں نصب کیں، جنہوں نے مختلف زاویوں سے اس بلیک ہول کے دہانے کی تصویر بنانے کی کوشش کی۔ اُن دوربینوں، جنہیں ہوریزن ٹیلی اسکوپ کہا گیا، سے موصول ہونے والا مواد اس قدر زیادہ تھا کہ اسے انٹرنیٹ کے ذریعے منتقل نہیں کیا جا سکتا تھا۔ لہٰذا محولا بالا مواد کو ایک بہت بڑی ہارڈ ڈسک میں جمع کر کے امریکی شہر بوسٹن اور جرمنی کے شہر بون بھیجا گیا تاکہ اس کا تجزیہ کر کے اور پھر مختلف زاویوں سے لئے گئے مناظر کی تجسیم کر کے مکمل تصویر حاصل کی جا سکے۔ اس چیلنج کو آئی ٹی ماہرین نے قبول کیا اور ایک ایسا الگورتھم بنایا جس سے اس ڈیٹا کو پراسیس کر کے مطلوبہ تصویر حاصل کی جا سکے۔ جب مختلف دوربینوں سے لی گئی الگ الگ تصویروں کو رینڈر کر کے ایک تصویر حاصل کی گئی اور اس منصوبے سے جڑے سائنسدانوں نے تصدیق کی تو اس تصویرکو جاری کر دیا گیا۔ بتایا جا رہا ہے کہ یہ تصویر 50کروڑ کھرب کلومیٹر کی دوری سے لی گئی ہے۔

بلیک ہول سے متعلق جاری تحقیق کو اسٹیفن ہاکنگ نے آگے بڑھایا مگر افسوس کہ وہ یہ تصویر دیکھنے سے پہلے ہی دنیا سے رخصت ہو گئے۔ اسٹیفن ہاکنگ سے پہلے سائنسدانوں کا یہ خیال تھا کہ بلیک ہول حجم کم جبکہ کثافت زیادہ ہونے کے باعث جس چیز کو ہڑپ کر لیتا ہے، اس کی زندگی ختم ہو جاتی ہے اور پھر وہ اس تنگ و تاریک سوراخ میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئےقید ہو کر رہ جاتا ہے۔ مگر اسٹیفن ہاکنگ نے اس نظریے کو غلط ثابت کیا اور بتایا کہ زندگی کبھی ختم نہیں ہوتی یہاں تک کہ بلیک ہول کی خوراک بننے کے بعد بھی زندگی کی کہانی آگے بڑھتی رہتی ہے البتہ اس زندگی کا انداز بدل جاتا ہے۔ اسٹیفن ہاکنگ کے مطابق بلیک ہول کے گڑھے میں گرنے والی اشیا لامحدودیت کی طرف چل نکلتی ہیں۔ یعنی بلیک ہول ایسے تاریک قید خانے بھی نہیں، جن سے کبھی چھٹکارا نہ پایا جا سکے۔ ان بلیک ہولز میں گرنے والی اشیا روشنی کی صورت میں نمودار ہو سکتی ہیں یا پھر دوسرے راستے سے کسی اور کائنات کا رُخ کر کے اس کی تشکیل میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔ بالفاظ دیگر بلیک ہولز میں بھی سرنگ کے دوسرے کونے میں روشنی تلاش کی جا سکتی ہے یعنی ان بلیک ہولز کو ایسے دروازے یا سرنگوں کی مانند خفیہ راستے قرار دیا جا سکتا ہے جن میں ایک طرف سے داخل ہونے والی اشیا دوسری طرف سے کسی اور کائنات کی طرف جا سکتی ہیں۔ اسی تناظر میں اسٹیفن ہاکنگ نے کہا تھا کہ اگر آپ بھی زندگی میں کبھی کسی بلیک ہول میں گر جائیں اور فرار کے تمام راستے مسدود پائیں تو ہمت نہ ہاریں کیونکہ سرنگ کے دوسرے کونے پر ضرور روشنی ہو گی۔

جب بلیک ہول کی تصویر جاری ہوئی تو مجھے ایک اور تاریخی تصویر یاد آئی، جس نے 29برس قبل نوع انسانی کو اس کی حیثیت یاد دلائی۔ 1977میں ناسا نے Voyger 1کے نام سے ایک خلائی مشن روانہ کیا، جس کا مقصد زمین کے نظام شمسی سے باہر نکل کر مختلف سیاروں کا مشاہدہ کرنا تھا۔ 1980میں جب یہ خلائی مشن اپنا بنیادی ہدف حاصل کر چکا تو ایک امریکی خلا باز کارل ساگن نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ خلائی مشن کو واپس مُڑنے کا سگنل دیا جائے تاکہ سورج کے قریب سے زمین کی ایک تصویر لی جا سکے۔ کارل ساگن کا کہنا تھا کہ سائنس کی دنیا میں اس تصویر کی اہمیت بیشک نہ ہو مگر سماجی اعتبار سے یہ تصویر بہت ناگزیر ہے۔ آخر کار ناسا حکام تصویر لینے پر رضامند ہو گئے، 14فروری 1990کو اس خلائی مشن نے 6ارب کلومیٹر کی دوری سے زمین کی تصویر لی تو ایک چھوٹے سے نیلگوں نقطے کے علاوہ کچھ دکھائی نہ دیا، اس لئے اس تصویر کو pale blue dotکا نام دیا گیا۔ یہ تصویر محض 0.12پکسل کا ایک چھوٹا سا نقطہ تھا، جس سے معلوم ہوا کہ وہ کرہ ارض جس پر ہم مذہب، مسلک، قومیت، علاقائیت، رنگت، لسانیت، سیاست اور نہ جانے کس کس تعصب کی بنیاد پر ایک دوسرے کی گردنیں مارتے پھرتے ہیں،خون کی ندیاں بہاتے ہیں، یہ ہے اس کی حقیقت، یہ ہے بڑے بڑے فاتحین کی چھوٹی سی دنیا۔

ایک طرف دنیا بھر میں جاری تحقیق و تصنیف، دریافتوں اور سائنسی ترقی پر احساس تفاخر ہوتا ہے کہ اس دور میں جنم لیا، جو انسانی معراج کا زمانہ ہے تو دوسری طرف یہ کڑھن ختم ہونے میں نہیں آتی کہ ہمارا معاشرہ ایک ایسے بلیک ہول میں دھنسا ہوا ہے جس سے نکلنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ پہلی فرصت میں ہم ہر نئی سائنسی تحقیق کا مذاق اڑاتے ہیں، جہالت پر ڈٹ جاتے ہیں بلکہ یہ موقف اپناتے ہیں کہ جس نتیجے پر یہ کافر آج پہنچے ہیں، اس کے بارے میں تو ہمیں بہت پہلے بتا دیا گیا تھا اور پھر اس بات کو ثابت کرنے کے لئے حوالے ڈھونڈنے میں لگ جاتے ہیں۔ کوئی یہ خود کلامی نہیں کرتا کہ بہت پہلے بتا دیا گیا تھا تو ان کے بجائے تم نے کیوں نہ پالیا یہ راز؟ یا پھر تمہارا کام دوسروں کی دریافتو ں پر اپنا ٹھپہ لگانا ہی رہ گیا ہے؟ زوال اور انحطاط تو لامحدود ہے اور سرنگ کے کونے میں روشنی بھی دکھائی نہیں دیتی مگر پھر اسٹیفن ہاکنگ کے الفاظ ڈھارس بندھاتے ہیں کہ بلیک ہول کتنا ہی گہرا کیوں نہ ہو، زندگی کبھی ختم نہیں ہوتی۔

تازہ ترین