• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیر خزانہ کی آئی ایم ایف کے سالانہ اجلاس میں شرکت اور مذاکرات سے توقّع بندھی ہے کہ شاید بیل آئوٹ پیکیج کے معاملات حتمی شکل اختیار کر لیں گے۔ اسد عُمر نے امریکا روانگی سے قبل ایک انتہائی اُمید افزا بیان میں قوم کو نوید سُنائی کہ’’ معیشت کو انتہائی نگہہ داشت یونٹ سے استحکام وارڈ میں منتقل کر دیا گیا ہے۔‘‘ یعنی معیشت بحرانی کیفیت سے نکل کر اب استحکام کے مرحلے میں داخل ہوچُکی ہے۔تاہم، اُنہوں نے معاشی بہتری کے ٹائم فریم میں مزید اضافہ کرتے ہوئے بتایا کہ یہ بہتری ڈیڑھ سال میں نظر آنی شروع ہو گی۔ تاریخوں کا یہ میوزکل چیئر تو گزشتہ سات ماہ سے جاری ہے، البتہ وزیرِ موصوف کا یہ بیان کم ازکم مُلک کے دیوالیہ ہونے اور آئی ایم ایف سے قرضے کے محدود آپشن کے بیان سے تو بہتر ہے۔بلاشبہ اس سے عوام کو ذرا سا سُکھ کا سانس لینے کا حوصلہ ملا ہے۔ آئی ایم ایف سے نئے قرضے کے حصول میں تاخیر کی وجوہ جو بھی بتائی جاتی رہی ہوں، لیکن اب اس معاملے میں بھی پیچیدگیاں نظر آرہی ہیں۔ خاص طور پر امریکی سینیٹرز اور دیگر حکّام کی طرف سے مخالفت کی خبریں خوش کُن نہیں۔ ان سے کئی طرح کے خدشات جنم لیتے ہیں، تو دوسری جانب، خارجہ اُمور پر بھی سوالات اٹھتے ہیں کہ کیا حکومت کو اندازہ نہیں تھا کہ آج کے زمانے میں معیشت اور خارجہ پالیسی اصل میں ایک دوسرے کا ایکس ٹینشن ہے۔

پاکستان کی معاشی صُورتِ حال ہے کیا؟ اس پر بھی ایک نظر ڈال لی جائے۔ اِس وقت ضروری حکومتی اُمور نمٹانے، دفاعی معاملات اور ترقّیاتی کاموں کے لیے تو دُور کی بات، قرضوں پر سود کی ادائی کے لیے بھی پیسے نہیں ہیں۔ حکومت سود ادا کرنے کے لیے مسلسل قرضے لے رہی ہے، جو800 ارب روپے سے زائد ہو چُکے ہیں۔ اِس وقت ترقّی کے لحاظ سے خطّے کے بیش تر ممالک ہم سے آگے ہیں،یہاں تک کہ بنگلا دیش بھی ہم سے آگے چکا ہے۔ اُدھر افریقا کے بھی بہت سے ممالک اس میدان میں ہمیں پیچھے چھوڑ گئے ہیں۔ بنگلا دیش کی برآمدات مُلکی معیشت کا 15 فی صد، یعنی ہم سے دُگنی ہیں۔بھارت ڈھائی گُنا اور تُرکی برآمدات کے لحاظ سے ہم سے 3 گُنا آگے ہے۔پاکستان کے مقابلے میں چین، ویت نام، بھارت اور دوسرے ممالک کی بچّت کی شرح 30 فی صد سے بھی زیادہ ہے۔2013 ء میں مُلکی برآمدات مجموعی معیشت کا 13.5 فی صد تھیں، جو اب گھٹ کر 8 فی صد تک گر چُکی ہیں۔نیز، کرنٹ اکائونٹ خسارہ19 فی صد ہوگیا ہے، اسی لیے آئی ایم ایف اور دوست مُمالک سے مدد مانگی جا رہی ہے۔ یہ کسی اپوزیشن لیڈر یا کسی نقّاد کا تجزیہ نہیں، بلکہ خود وزیرِ خزانہ کی ایک تقریر کا حصّہ ہے، جو اُنہوں نے آئی ایم ایف کے اجلاس میں جانے سے قبل اسلام آباد میں پانچ سالہ وسط مدّتی فریم ورک کا اجرا کرتے ہوئے کی تھی۔

چوں کہ معاملہ آئی ایم ایف کے بیل آئوٹ پیکیج کا ہے، تو اس پر عالمی مالیاتی اداروں کے اُن تجزیوں کی بھی خاصی اہمیت ہے، جو پاکستان کی موجودہ معاشی صُورتِ حال اور آئندہ کی پیش گوئیوں پر مشتمل ہیں۔ اس ضمن میں ایشیائی ترقّیاتی بینک، اقوامِ متحدہ کے مالیاتی ادارے اور ورلڈ بینک کی رپورٹس چونکا دینے والی ہی نہیں، تشویش ناک بھی ہیں۔ایشیائی ترقّیاتی بینک نے موجودہ مالی سال کی شرحِ نمو کو 3.9 فی صد بتایا، لیکن 2020 ء کا فگر3.6 پر گرا دیا، جو حوصلہ شکن بات ہے۔نیز، اُس نے مالیاتی گورنینس،اسٹرکچرل ریفارمز کی فوری ضرورت پر زور دینے کے ساتھ، کرنٹ اکائونٹ خسارے کو تشویش ناک قرار دیا۔عالمی بینک کی رپورٹ نے تو اور بھی بُری خبر دی، جس میں کہا گیا کہ آیندہ دو سال تک معیشت خراب ہی رہے گی۔ اُس نے موجودہ مالی سال اور اس کے بعد والے برسوں کی شرحِ ترقّی کو 3.6 اور 3.2 فی صد تک گرا دیا۔ آئی ایم ایف نے، جس سے ہم قرضہ لے رہے ہیں، 2019 ء کے اقتصادی آئوٹ لُک میں کہا کہ پاکستان کی معیشت مزید خراب ہوگی، روزگار کے مواقع گھٹیں گے اور ترقّی کی رفتار کم ہوگی۔ یہ رپورٹس مایوس کُن ہیں، لیکن دیکھا جائے، تو تقریباً یہی بات وزیرِ خزانہ نے بھی کہی ہے، گو اُنہوں نے اس کے بعد معیشت کی بحالی کی خُوش خبری بھی سُنائی۔ حوصلہ شکن اقتصادی ماحول میں یہ بھی غنیمت ہے، لیکن اگر حکومت کے منشور کے پس منظر میں وزیرِ خزانہ اور اُن مالیاتی اداروں کے تجزیوں کو پرکھا جائے، تو پھر پچاس لاکھ مکانات کی تعمیر اور ایک کروڑ ملازمتیں سراب بن جاتی ہیں۔ کیوں کہ اب بڑے منصوبے تو ایک طرف رہے، چھوٹی سرمایہ کاری کی ترغیب دینا بھی آسان نہیں۔

لگتا ہے، حکومت نے عوام کو حقیقی معاشی صُورتِ حال سے آگاہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے، اس کی ایک بڑی وجہ آنے والا بجٹ ہے۔وزیرِ خزانہ نے خود اس بات کا ذکر کیا کہ عام آدمی کے لیے مہنگائی، بے روزگاری اور افراطِ زر دردِ سَر بن گئے ہیں۔ عوام وزیرِ خزانہ کی اس بات سے ایک سو فی صد اتفاق کرتے ہیں، کیوں کہ وہ اشیائے صَرف اور کھانے پینے کی چیزوں کی قیمتوں میں اضافے سے شدید پریشان ہیں۔ دال، چاول، تیل، گھی،چینی، چائے کی پتّی سب ہی چیزیں مہنگی ہوگئی ہیں۔ پھر ادویہ کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافے نے تو خود حکومت کو ہلا کر رکھ دیا اور اب ادویہ کی قیمتوں کو کنٹرول میں لانے کے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ پرائس کنٹرول کمیٹیز جیسے پُرانے اور فرسودہ نسخے پھر سے آزمائے جارہے ہیں، تو ادویہ کی ریگولیٹری اتھارٹی کو فعال کیا جارہاہے۔ پہلے بھی اس طرح کے عارضی اور نمائشی اقدامات کیے جاتے رہے ہیں، جو کبھی کام یاب نہیں ہوسکے۔اُدھر بجلی، گیس اور دیگر یوٹیلٹی بلز بھی تکلیف دہ حد تک بڑھ گئے ہیں۔ یاد رہے، ان سروسز پر سبسڈی ختم کرنا آئی ایم ایف کے پیکیج کا بنیادی نقطہ ہے، اس لیے قرضے کے لیے قیمتوں میں اضافے ناگزیر ہیں۔ اسٹیل ملز اور پی آئی اے جیسے ادارے سفید ہاتھی تو تھے ہی، اب تو انھیں سہارا دے کر اٹھانا بھی مشکل ہوگیا ہے۔ ان اداروں کے نااہل ملازمین اور مینجمنٹ نے ان خالص کمرشل اداروں پر سیاسی نعرے بازی اور جھوٹے لیبلز لگا کر پوری قوم کو یرغمال بن رکھا ہے۔ ان اداروں کا ہر مہینے کروڑوں روپے کا نقصان، قوم اپنا پیٹ کاٹ کر پورا کر رہی ہے۔ مشکل یہ ہے کہ عام آدمی کو ان معاشی اسرار و رموز کا بہت کم علم ہے۔ حکومت صحیح بات بتانے کو تیار نہیں، اوپر سے مقبولیت میں کمی کے خوف سے ان اداروں کی نج کاری جیسے فیصلہ کُن اقدامات سے بھی گریزاں ہے اور عارضی نوعیت کی اصلاحات پر اکتفاکر رہی ہے۔ ماہرین کے مطابق، اس طرح کے عارضی اقدامات سے ایک طرف تو اخراجات بڑھیں گے اور معاملہ خوا مخواہ ٹلتا رہے گا۔ بہتر حل یہی ہے کہ حکومت ،اپوزیشن کے ساتھ بیٹھ کر مُلک پر بوجھ بنے اداروں سے نجات کے لیے ٹھوس فیصلے کرے۔ عمران خان کرپشن کے خاتمے کے لیے پُرعزم ہیں، اسی لیے قوم اُن سے توقّع کرتی ہے کہ وہ اِن سفید ہاتھیوں کا بھی کوئی سدّ ِباب کریں گے۔ واضح رہے، قومی ائیر لائن اور اسٹیل ملز کا قرضہ750 ارب روپے سے تجاوز کر چُکا ہے۔

عالمی اداروں کی رپورٹس اور آئی ایم ایف کا بیل آوٹ پیکیج بہت سے سنجیدہ اُمور کی طرف ہماری توجّہ چاہتا ہے۔عوام کی توقّعات اور سوچ کیا ہے، اس پر غور کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ پڑھے لکھے لوگ آئی ایم ایف، عالمی بینک اور اے ڈی پی جیسے مالیاتی اداروں کو سرِعام تنقید نہیں، بلکہ تحقیر کا نشانہ بناتے ہیں۔ عام لوگوں کو مسلسل یہ باور کروایا گیا ہے کہ’’ حکومت یا ادارے نااہل نہیں، یہ تو دنیا کے بہترین اقتصادی دماغ ہیں۔ساری دنیا اِن کے آگے پانی بھرتی ہے۔ قوم میں ٹیکس نہ دینا اور بچت نہ کرنا خرابیوں کی جڑ نہیں، ایکسپورٹس کا گھٹنا اور امپورٹس کا بڑھنا کوئی برائی نہیں، اقتصادی پالیسی میں تسلسل نہ ہونا کوئی قصور نہیں، بلکہ ساری خرابیوں کی جڑ صرف یہ عالمی ادارے ہیں، جو ہر وقت ہمارے خلاف سازشیں کرتے رہتے ہیں۔(لیکن قرض بھی دیتے ہیں اور منصوبوں میں سرمایہ کاری بھی کرتے ہیں)۔ ہم نااہل نہیں، بلکہ ان اداروں کے ماہرین احمق، سازشی اور ہمارے دشمن ہیں۔ان کے پیکیجزہمارے لیے تباہی کا باعث، ہماری خود مختاری کے خلاف اور عالمی لابیز کی کارستانیاں ہیں، جن کا صرف ایک مقصد ہے اور وہ ہے، ہمیں برباد کرنا۔‘‘ یعنی ان عالمی اداروں کو کوئی اور کام نہیں، سوائے ہمارے غم کے۔ اس میںتو کوئی دو رائے نہیں کہ عالمی اداروں سے بھی غلطیاں ہوتی ہیں، اُن کی تجاویز میں سقم ہوسکتا ہے، لیکن اسے سازش قرار دینا کہاں کی عقل مندی ہے؟ یہ بڑے ٹیکنیکل اقتصادی معاملات ہیں، ان پر قوم کو گم راہ کر کے اُس کی ایسی ذہن سازی کرنا کہ وہ ساری دنیا کو اپنا دشمن سمجھنے لگے، عوام سے دشمنی کے مترادف ہے۔ خود ہمارے ماہرین، عالمی اداروں کے اہم عُہدوں پر پہنچے، تو کیا وہ دوسرے مُلکوں کو ڈبونے کی سازشیں کرتے رہے؟ اگر کسی امریکی یا یورپی یونی ورسٹی میں ہمارا کوئی فرد اعلیٰ عُہدے پر پہنچے، تو ہم فخر سے اُس کا ذکر کرتے نہیں تھکتے، برسوں اُس کی مثالیں دیتے ہیں، لیکن جب ان اداروں کے تجزیوں کا ذکر ہو اور وہ حکومت کے خلاف جائیں یا ہماری نااہلی کی تصویر کھینچیں، تو پھر فوراً سازش کا ٹھپّا لگا کر عوام کی توجّہ دوسری طرف پھیر دی جاتی ہے۔ دنیا کو تو شاید اس سے فرق نہیں پڑتا، لیکن اس کے دُور رَس نقصانات عوام کے رویّوں اور سوچ میں ظاہر ہوتے ہیں۔عام لوگوں میں بچت اور ٹیکس دینا بیکار سمجھا جاتا ہے،وہ عالمی ادراروں کے قرضوں کو اپنا حق جاننے لگتے ہیں، انھیں’’قرضے کی مَے پینے کی لَت پڑ جاتی ہے‘‘ جس کا نتیجہ سامنے ہے۔وہ محنت کرنے کی بجائے لاٹری، جادو کی چَھڑی یا راتوں رات امیر بننے کے خواب دیکھنے لگتے ہیں۔ اس طرح کے رویّے کسی بھی قوم کے لیے زہرِ قاتل سے کم نہیں۔

حکومت کے لیے لمحۂ فکریہ یہ ہے کہ کیا اس کے منشور میں کیے گئے وعدے پورے ہوسکیں گے۔وزیرِ اعظم اور اُن کے رفقاء کرپشن کا بہت ذکر کرتے ہیں۔ گرجتے، برستے، دھمکیاں دیتے ہیں۔ سزائیں اور نیب کیسز عام بات اور عوامی گفتگو کا موضوع بن چُکے ہیں۔ کرپشن کے خاتمے کے لیے سخت سے سخت نسخے تجویز کیے جا رہے ہیں، کچھ پر عمل بھی ہوا۔ حد تو یہ ہے کہ قانون اور عدالتوں کی موجودگی کے باوجود لوگوں کے جذبات سے کھیلنے کے لیے کرپٹ افراد کو سرِ عام لٹکانے کی باتیں کی جارہی ہیں۔ کرپشن الزامات پر وزیرِ اعظم سمیت چوٹی کے سیاست دان عوامی عُہدوں کے لیے نااہل قرار پائے، اُنھیں جیلوں میں ڈالا گیا، لیکن کرپشن ختم ہوئی اور نہ ہی مبیّنہ طور پر لوٹی گئی رقم واپس ملی۔ ناقدین کہتے ہیں کہ عمران خان کا عزم اپنی جگہ، لیکن قوم کو تو فوری سرمایہ چاہیے، جو صرف بیانات سے نہیں آ سکے گا اور نہ ہی دھمکیوں سے خزانہ بھرے گا۔ آخر کار قانون ہی سے مدد لینا پڑے گی،لیکن اس حوالے سے قوانین تبدیل کرنے کے ووٹ حکومت کے پاس نہیں کہ وہ ایک کم زور اتحادی حکومت ہے، مرکز میں بھی اور سب سے بڑے صوبے پنجاب میں بھی۔ تو پھر کیا طریقہ اختیار کیا جائے۔ صدارتی نظام کی باتیں بھی کی جا رہی ہیں، تاہم خود صدرِ مملکت اس تجویز کو مسترد کرچُکے ہیں۔ اعلیٰ ویژن کے حامل حکم رانوں کے متعلق خود وزیرِ اعظم، عمران خان کہہ چُکے ہیں کہ وہ حالات کے مطابق پالیسی بدلتے ہیں، جسے وہ یوٹرن کے جواز کے طور پر بھی پیش کرتے ہیں۔ تو پھر قوم کو آج سے زیادہ کب اُن کے ویژن کی ضرورت ہوگی۔کسی طویل المیعاد قومی اقتصادی پالیسی کی تشکیل پر غور کرنا لازمی ہوتا جارہا ہے۔کیا ہم صرف آئی ایم ایف اور دوست ممالک کی امداد ہی لیتے رہیں گے یا اُن کے صائب مشوروں پر عمل بھی کریں گے۔ اَنا اچھی چیز ہے اور عزم ضروری، لیکن قومی مفاد کے لیے لچک بھی ضروری ہے۔قوم نے مُلک کو اس معاشی بحران سے نکالنے کی ذمّے داری عمران خان کو سونپی ہے، اب اُنہیں ہی یہ سب کچھ کرنا ہوگا۔ورلڈ کپ کی جیت کا ذکر بہت خوش کُن، کینسر اسپتال قابلِ تحسین، مگر اب ان سے کہیں بڑا امتحان درپیش ہے۔

خارجہ پالیسی سے اقتصادی فوائد کیوں حاصل نہیں ہو پارہے؟ یہ بڑا اہم سوال ہے، جو ہمیں اپنے سربراہان، وزراء اور سفراء سے کرنا چاہیے۔ یہ بھارتی اور یہودی لابیز اُسی وقت کیوں کام یاب ہوتی ہیں، جب ہمارے معاملات درپیش ہوتے ہیں۔ ہمارے دوسرے دوست مسلم ممالک ان کے اثر سے کیوں آزاد رہتے ہیں؟ پھر یہ بار بار اور ہر حکومت میں کیوں ہوتا ہے، جب کہ ہمارے سفارت کار، ماہرین اور وزراء دنیا کے سب سے قابل اور منہ توڑ جواب دینے والے بتائے جاتے ہیں۔ ان کی قابلیت صرف قوم کو رام کرنے کے کام کیوں آتی ہے، سفارت کے میدان میں ،مخالفین یا دوستوں کو سمجھانے میں کیوں کام یاب نہیں ہوتی۔اُن کے دعوے وقت آنے پر جھاگ کی طرح کیوں بیٹھ جاتے ہیں؟ یہ دوست بنانے کی بجائے دشمن اور مخالفین میں کیوں اضافہ کرتے ہیں۔ خوش حالی کے خواب، خواب ہی کیوں رہتے ہیں، تعبیر کیوں نہیں ملتی۔ اگر ہم سچّے اور بالکل صحیح ہیں، تو ہمیں فوائد کیوں حاصل نہیں ہوتے، صرف نقصان ہی کیوں حصّے آتا ہے؟کون کس کو بے وقوف بنا رہا ہے، اس کی بھی تحقیق ہونی چاہیے۔

تازہ ترین