• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
متحدہ پھر سے زیرِ عتاب دکھائی پڑتی ہے۔ لیکن اس بار پیر تسمہ پا الطاف بھائی کی زبان بندی اور خرابی صحت سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے گھر کے کچھ بھیدی نائن زیرو کی مہاجر گدی ڈھانے نکلے ہیں۔ گدی تو گدی ہوتی ہے اور جس پیر کے نام سے منسوب ہو، اُسی کے گدی نشین ثواب دارین بانٹا کرتے ہیں، پیر صاحب کی بھد اُڑانے والے نہیں۔ یہ جو دو کا ٹولہ غیبی امداد کی اُمید میں میدان میں اُترا ہے، اُس میں تو ویسا دم خم بھی نہیں جو آفاق و عامر کے دو کے ٹولے میں تھا۔ اور جو راگ مصطفی کمال اور انیس قائم خانی الاپ رہے ہیں، وہ بھائی لوگوں کے من بھانے والا نہیں۔ البتہ سیاسی انجینئرنگ کے پرانے شوق پر کفِ افسوس ملنے کا ایک اور منظر اسی طرح کے پرانے ڈراموں کی یاد ضرور تازہ کر دیتا ہے۔ اُردو بولنے والے مہاجر بھائی اپنے اشراف کی روایات پر قائم ہیں۔ متحدہ ہندوستان میں اقلیتی مسلم علاقوں کے مسلم اشراف مساوی استحقاق (Privileges) پر مُصر رہے اور اُنہوں نے یو پی، سی پی اور بہار میں چھوٹی اقلیت ہونے کے باوجود تقریباً ایک تہائی نمائندگی حاصل کی اور اس کے لئے اُنہوں نے ملت کو علاقائی اور نسلیاتی جواز فراہم کیا۔ مہاجر/متحدہ قومی موومنٹ (MQM) نے بھی اُسی طرح خصوصی مراعات اور امتیازی استحقاق کا دعویٰ کیا۔ باوجودیکہ اُردو بولنے والے سندھ کی آبادی کا 22 فیصد (1981ء میں) تھے، اُنہوں نے مساوی استحقاق 50-50) )یا پھر کراچی صوبے کا مطالبہ کیا، اِس اُمید پر کہ کراچی میں دیگر نسلی گروہوں کی منقسم اکثریت کو قابو کیا جا سکتا ہے۔ مہاجر قومی موومنٹ نے کمال یہ کیا کہ علاقائی یا زمینی بنیاد کے بغیر ہی مہاجروں کو ’’قوم‘‘ بنا دیا۔ سندھو دیش کے مقابلے میں اُردو دیش! ارنسٹ گیلنر (Ernest Gellner) نے خوب کہا ہے: ’’قوم پرستی قوموں کو گھڑ لیتی ہے، بھلے اُن کا وجود ہی نہ ہو۔ لیکن اس کے لئے پہلے سے موجود امتیازی نقوش کی ضرورت ہوتی ہے جنہیں کام میں لایا جا سکے۔‘‘
اُردو بولنے والے مہاجروں کے پاس ایسے منفرد لسانی، نسلیاتی، تہذیبی اور نظریاتی و نفسیاتی امتیازی اوصاف تھے کہ وہ خود کو دوسرے نسلیاتی گروہوں یا قومیتوں سے ممیز کر سکتے، جبکہ ہجرت کا تمغۂ بسالت علیحدہ تھا۔ پاکستان کے پہلے وزیراعظم کی قیادت میں کراچی نہ صرف دارالحکومت بنا بلکہ متروکہ املاک و اسامیوں کے بے پناہ مواقع میسر آئے، جن سے ہجرت کے مارے مہاجر بھائیوں کی اشک شوئی کی جا سکی۔ ہندوئوں اور سکھوں کے انخلا سے جو بڑا خلا پیدا ہوا اُسے ہمارے پڑھے لکھے اور کاروباری مہاجر حضرات نے ہی تو پُر کرنا تھا۔ صرف یہی نہیں، اُردو بولنے والی اشرافیہ اور نظریہ دانوں نے نئی مسلم مملکت کی نظریاتی، لسانی اور قومی شناخت کو بھی متعین کیا۔ اُردو قومی زبان ٹھہری اور قومی تعمیر ’’دو قومی نظریہ‘‘ کی ’’یک قومی‘‘ قلب ماہیت سے ’’نظریۂ پاکستان‘‘ کے نام پر کی گئی۔ آئو دیکھا نہ تائو پنجابیوں نے اپنی زبان و قومیتی شناخت چھوڑی اور مہاجروں کے ساتھ مل کر ملّتِ اسلامیہ کی تعمیر میں جُت گئے۔بُرا ہو نظرِ بد کا یہ ہنی مون جلد ہی پھیکا پڑنے لگا۔ حالانکہ ایوب خان کے عشرہ ترقی سے مہاجر کاروباری حضرات نے خوب کھایا کمایا۔ لیکن دارالحکومت کے اسلام آباد منتقل ہونے سے مہاجر پنجابی گٹھ بندھن کے ٹوٹنے کا آغاز ہوا اور اقتدار پنجاب کی جانب منتقل ہونا شروع ہو گیا۔ یہی وجہ ہے کہ کسی بھی فوجی آمریت کے خلاف کراچی میں پہلے اور آخر ہنگامے ہوئے اور مہاجروں نے سیکولر فوجی آمریت کے خلاف اسلامی جماعتوں کا پرچم بلند کیا۔نئے پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں 1973ء کے آئین کی تشکیل، صوبائی خودمختاری کا قیام، تعلیمی اداروں اور ملازمتوں میں کوٹہ سسٹم کا اجراء اور سندھ میں ممتاز بھٹو کی قوم پرست سندھی حکومت نے جیسے جلتی کا کام کیا۔ سندھی زبان کے بل کے خلاف ’’اُردو کا جنازہ ہے، ذرا دھوم سے نکلے‘‘ کی مرثیہ گوئی نے لسانی تقسیم ظاہر کر دی۔ بھٹو کے نئے پاکستان میں سندھیوں سمیت دوسرے صوبوں کے لوگوں کے لئے درسگاہوں اور ملازمتوں کے دروازے کھل گئے اور کراچی کی جانب ایسی دوڑ لگی کہ جلد ہی اُردو بولنے والوں نے کراچی میں گھٹن محسوس کی۔ یوں مہاجر قومی موومنٹ کے لئے لسانی، سماجی، معاشی اور نفسیاتی زمین تیار ہو گئی۔ پال براس (Paul Brass) کے بقول: ’’قوم پرستی، خواص کے ایسے گروہوں کو ایک موافق ذریعہ فراہم کرتی ہے، جن کی بالادستی دوسروں کے اوپر آ جانے سے خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ اس کے لئے وہ زبان اور شناختی نشانیوں کو اپنی کمیونٹی کو متحرک کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔‘‘ بس ایک جارحانہ قومی نعرے اور مسیحا کا انتظار تھا جو شہری و دیہی تقسیم پر مہاجر کارڈ کھیلتا۔آل پاکستان مہاجرا سٹوڈنٹس آرگنائزیشن (APMSO) 1978 میں اُس وقت وجود میں آئی جب ذوالفقار علی بھٹو تختۂ دار پر تھے اور سندھ سسکیاں لے رہا تھا۔ اس کی مقبولیت فقط کوٹہ سسٹم کی مخالفت پر بڑھی۔ لیکن اسلامی جمعیت طلبا سے پٹ پٹا کر، ان مہاجر طلبا نے گلیوں محلوں کا رُخ کیا جہاں اشراف نے کم اور گلی محلے کے اجلاف نے اُنہیں گلے لگایا۔ کراچی صوبے اور کوٹہ سسٹم کے خاتمے کے نعروں نے سندھ کے مہاجروں کو رفتہ رفتہ اکٹھا کر دیا۔
بشریٰ زیدی کیس نے مہاجروں اور پختونوں کے درمیان نفرت کی آگ بھڑکا دی۔ 1985ء میں تحریکِ بحالی جمہوریت (MRD) کے اندرون سندھ ماند پڑنے پر ایم کیو ایم وجود میں آئی۔ سہراب گوٹھ کے خونیں تصادم نے نسلیاتی تقسیم کی آگ پر تیل کا کام کیا۔ جنرل ضیاء الحق کو پیپلز پارٹی کے خلاف سندھ کے رجواڑوں کے ساتھ ساتھ ایک متحرک شہری بنیاد کی ضرورت تھی جسے ایم کیو ایم نے بخوشی فراہم کیا۔ پہلے پہل تو سندھ دیش اور اُردو دیش والے اکٹھے ہوئے اور نعرہ تھا: ’’سندھی مہاجر بھائی بھائی، دھوتی نسوار کہاں سے آئی‘‘۔ لیکن جلد ہی یہ ضرورت کی شادی اُس وقت تمام ہوئی جب حیدر آباد میں مہاجروں کا قتلِ عام ہوا۔ 1988ء میں ایم کیو ایم بڑے انتخابی معرکوں کے لئے تیار تھی اور اس نے سندھ کے شہری حلقوں کے نہ صرف مقامی انتخابات بلکہ عام انتخابات میں بھی جھاڑو پھیر دی۔ اب تک اس نے تمام انتخابات میں مہاجر حلقوں میں اپنی اجارہ داری برقرار رکھی۔
ایم کیو ایم نے سندھ کے نسلیاتی تقسیم کے حالات میں فوجی آمریتوں کے ساتھ الحاق کو اپنی حکمتِ عملی کا مرکزی نکتہ بنایا تاکہ اقتدار اور مراعات میں سندھی اکثریت و دیگر لسانیاتی گروہوں کے مقابلے میں کم نہیں تو مساوی حصے کو یقینی بنایا جا سکے۔ ایم کیو ایم کے لئے بہترین فارمولہ یہ تھا کہ سندھ سے کوئی غیر پی پی پی جاگیرداروں کا گروہ اُس کا جونیئر حصہ دار بنے۔ اس کی بہترین مثالیں چیف منسٹرز جام صادق، مظفر شاہ، لیاقت جتوئی اور ارباب غلام رحیم تھے۔
پیپلز پارٹی کے ادوار میں مخلوط حکومت میں حصہ دار کے طور پر ایم کیو ایم کے تعلقات بنتے بگڑتے رہے۔ آصف زرداری کی مفاہمتی پالیسی کے باوجود سندھ میں بقائے باہم نہ ہو پائی۔ دوسری جانب شہری دہشت گردی کو لگام ڈالنے کے لئے غیرسیاسی خالص فوجی سربراہوں جیسے جنرل آصف نواز، جنرک کاکڑ، جنرل راحیل شریف کے زمانوں میں ایم کیو ایم پر آفتیں ٹوٹتی رہیں اور اندر سے بھی لوگوں کو بغاوت پہ آمادہ کیا جاتا رہا۔ لیکن ایم کیو ایم کے پاس ’’اجلاف‘‘ یا گلیوں کے چھری ماروں کی ایسی فوج تھی جو شہری دہشت گردی کے ماہر تھے۔ اور ’’قائد کا جو غدار ہے، موت کا حقدار ہے‘‘ کے فسطائی نعرے پر مر مٹنے کو تیار۔ مہاجر سے ایم کیو ایم متحدہ تب بنی جب جنرل مشرف نے اسے اپنے پروں تلے لیا۔ لیکن رہی یہ ایک نسلیاتی میونسپل پاور جیسے ممبئی کی شیو سینا۔ پیر الطاف بھائی نے ایم کیو ایم کو اپنے شخصی کرشمہ کے گرد منظم کیا۔ لیڈر کی براہِ راست اپنے مقتدیوں تک کرشماتی پہنچ، نیچے اجلاف کی منظم بنیاد اور اُوپر ہوا میں لٹکتی رابطہ کمیٹی۔ ایم کیو ایم الطاف بھائی کے کلٹ کے گرد گھومتی ہے اور سندھ کی گہری لسانی و نسلیاتی تقسیم پر قائم ہے۔ جب تک یہ خلیج برقرار ہے۔ ایم کیو ایم برقرار رہے گی۔ مصطفی کمال کا بس اتنا ہی کمال ہوگا کہ الطاف بھائی یا تو جانشینوں کی ٹیم بنا دیں یا پھر رابطہ کمیٹی کو بااختیار کر دیں۔ اُن کے بعد گدی نشین کون ہو، وہ پیر جانے اور اُس کے مرید!
تازہ ترین