• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایسے عالم میں، کہ ملک سنگین معاشی مسائل کا شکار ہے، ایک طرف حکومتی نظم و نسق چلانے کے لئے ٹیکس وصولی کا نظام بہتر بنانے سمیت سرمائے کی فراہمی کی مختلف تدابیر زیر غور ہیں، دوسری جانب بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے بیل آئوٹ پیکیج کے لئے کئی ماہ سے جاری مکالمہ سہل محسوس نہیں ہو رہا ہے، تیسری جانب تجارت و صنعت سے وابستہ حلقے کسی ایسی رعایت کی منطقی ضرورت اجاگر کر رہے ہیں جس کی موجودگی میں بیرونِ ملک سے سرمائے کی آمد کے معاملات ایمنسٹی یا کسی اور عنوان سے ایک مخصوص رقم کی ادائیگی کے بعد سہولت سے نمٹ جائیں، چوتھی جانب عالمی ادارے کی فنانشیل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی گرے لسٹ میں شامل ملک کو بلیک لسٹ کی طرف جانے سے بچانے اور منی لانڈرنگ کے حوالے سے سخت اقدامات پر عمل درآمد یقینی بنانے کے تقاضے ہیں۔ مسائل اور چیلنجوں کی فہرست اگرچہ خاصی طویل ہے، ان کے بارے میں بہت کچھ کیا جانا ضروری بھی ہے اور کافی کچھ کرنے کی کوششیں کی بھی جارہی ہیں مگر موجودہ حکومت کو پوری دانش مندی سے فیصلے اور اقدامات کرنا ہیں۔ عالمی تاریخ میں ایسی مثالوں کی کمی نہیں کہ جس ریاست کے بیشتر اداروں کی کارکردگی کو اصلاح طلب سمجھا گیا اسے درست منصوبہ بندی اور ٹائم فریم کے ساتھ محنتِ شاقہ کے ذریعے دوسروں کے لئے قابلِ تقلید مثال بنا دیا گیا جبکہ ایسی نظیریں بھی موجود ہیں جب لمحوں کی غلطیوں کا ازالہ کرنے میں طویل وقت صرف ہو گیا۔ منی لانڈرنگ کے حوالے سے وفاقی کابینہ کو اپنے منگل کے اجلاس میں غور و خوض ایک دن مزید جاری رکھنے کا فیصلہ کرنا پڑا تو اس کی وجہ بھی یہی بتائی گئی کہ وزیراعظم عمران خان زیادہ سے زیادہ ارکانِ کابینہ کی آراء و استدلال پیش نظر رکھنا چاہتے ہیں۔ اس باب میں جو بھی فیصلہ کیا جا رہا ہے توقع یہی ہے کہ اس میں ملکی اقتصادی صورت حال، بین الاقوامی فضا اور قانون کے ان تقاضوں کو پوری طرح مدنظر رکھا جائے گا جو موجودہ حالات کی ناگزیر ضرورت ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق پولیس کے انسدادِ دہشت گردی کے ڈپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ منی لانڈرنگ کے معاملات پر تفتیش کرے گا۔ اس کا مفہوم تجزیہ کار یہ اخذ کر رہے ہیں کہ کالا دھن سفید کرنے کے طریقوں کو دہشت گردی کا حصہ تصور کیا جائے گا۔ ایف بی آر کی تجویز کردہ ٹیکس ایمنسٹی سے سیاست دانوں سمیت عوامی عہدوں کے حامل افراد اور بیورو کریٹس کو باہر رکھا گیا ہے جبکہ ایک اطلاع کے مطابق موجودہ حکومت پروٹیکشن آف اکنامک ریفارمز (پی ای آر اے) 1992ایکٹ ختم کرنے پر غور کر رہی ہے۔ اس قانون کے تحت پاکستان کے تمام شہریوں کو بیرونِ ملک سے بینکاری چینلز کے ذریعے غیرملکی کرنسی میں حاصل ہونے والی رقم (جس کی مالیت کچھ بھی ہو) پر انکم ٹیکس ادارے کی تحقیقات سے استثنا حاصل ہے۔ مبصرین کے مطابق اس قانون کے خاتمے کو ٹیکس ایمنسٹی اسکیم سے جوڑا جا سکتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ دہشت گردی کے واقعات کو دہشت گردی کے زمرے میں اور دیگر جرائم کو ان کے اپنے زمرے میں رکھتے ہوئے قانون بنائے جائیں۔ چین میں کرپشن پر اور سعودی عرب میں منشیات اسمگل کرنے پر موت کی سزا مقرر ہے۔ دیگر ممالک میں مختلف جرائم کی سزائوں کے الگ الگ قوانین ہیں۔ وطنِ عزیز میں ایک وقت میں زرمبادلہ کی کمی پر قابو پانے کو جواز بناکر باہر سے بلا پوچھ گچھ رقم لانے کی قانونی اجازت دی گئی۔ اب اس میں تبدیلی کی ضرورت ہے تو اس مخصوص جرم کے لئے علیحدہ سے قانون سازی کرنا ہی مناسب ہوگا۔ قوانین مختلف ضروریات کے تحت وقتاً فوقتاً بدلتے رہتے ہیں۔ انہیں خلط ملط کئے بغیر سخت یا نرم سزائیں مقرر کی جا سکتی ہیں۔ ان کے لیے دہشت گردی کی دفعہ یا کسی اور قانون کی دفعہ لگانے کی نئی الجھن نہ پیدا کی جائے۔ منی لانڈرنگ کی روک تھام کے لئے جو بھی قانون بنایا جائے اس میں منی لانڈرنگ کے تمام طریقوں کے راستے بند کرنے کی تدابیر کی جائیں۔ اس کے لئے دہشت گردی یا کسی اور جرم سے مماثلث کا قانونی تصور ابھارنا نئی پیچیدگیاں پیدا کر سکتا ہے۔

تازہ ترین