• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تحقیق و تحریر: طارق شہزاد چوہدری

حضرت ِعلاّمہ محمداقبال کے صابزادے جسٹس (ر) جاوید اقبال مرحوم نے اپنی کتاب "ذندہ رود"میں اقبال کے سفرِ آخرت پر بھی ایک مضمون باندھا ہے ۔ جس سے اقتباس پیش کیا جاتا ہے ۔

"رات سے ہی اقبال کی طبعیت شدید شکستگی اور اضمحلال کا شکار تھی۔ اقبال بے چینی سے کروٹیں بدل رہے تھے، تقریباً پونے پانچ بجے انہوں فروٹ سالٹ کے چند گھونٹ پیئے ،یہ ہی وہی وقت تھا،جب اقبال نے پچھلے نومبر کو لکھے گئے، اپنے کلام کا قطعہ اپنی زبان سے ادا کیا ۔انکی ذبانی یہ انکا آخری شعری کلام تھا ۔

سرودِ رفتہ باز آید کہ ناید

نسمیے از حجاز آید کہ نا ید؟

سر آمد روزگار ایں فقیر ے

دگر دانا ئے راز آید کہ ناید؟

(عہد مسلماںکی سرود ِ رفتہ والی پر نغمہ بہار شائد، پھر آئے کہ نہ آئے،مسلمانوں کی زبوں حالی ختم ہونہ ہو؟ مدینہ سے باد ِ نسیم پھر کہ آئے نہ آئے ، اس روزگارفقیر کے دن تو اب پورے ہوئے ، اب کوئی اور دانائے راز شاید کہ آئے یا نہ آئے۔

اقبال کے دوست محمد حسین اور راجہ احسن اختر بھانپ گئے تھے ، کہ اقبال رختِ سفر باندھنے کو ہیں ۔ راجہ احسن اخترکو حکیم محمد حسن قریشی صاحب کو بلانے کا ادھر حکم ملا، صبح کے پانچ بجنے میں ابھی کچھ منٹ باقی تھے اور ادھرا ذان ِ فجر ہو رہی تھی۔ میاں شفیع اور عبدلقیوم نماز پڑھنے قریبی مسجد چلے گئے ۔ صرف علی بخش اُن کے پاس اکیلے رہ گئے تھے ۔ اسی اثناء میں

اقبال نے اپنے دونوں ہاتھ دل پر رکھے اور ـ"اللہ ــ"کہا ۔ اُن کا سر ایک طرف ڈھل گیا۔علی بخش نے اُن کو دونوں شانوں سے اپنے بازوں پر تھام لیا، 21اپریل 1938؁ء بروز جمعرات،بمطابق ۱۹ صفر ۱۳۵۷؁ ھ صبح پانچ بج کر چودہ منٹ پر ادھر مولانا غلام مرشد کی بادشاہی مسجد سے گلو گرفتہ صدا ئے اذاں بلند ہورہی تھی ، اور اقبال اپنے دیرینہ خادم کی گود میں اپنی جان بارگاہ ِ یزداں میں پیش کر دی۔"

چوںمرگ آید کے محقق و مصنف ڈاکٹر سید تقی عابدی نے اس موضوع پر خاصہ استغراق کرکے اقبال کی زندگی کے آخری دوسال پر بڑا سیر حاصل تحقیقی کام کیا ہے۔وہ صفحہ ۱۸۲پر کچھ یوں رقمطراز ہیں۔

کچھ ہی دیر میں جاوید منزل میں دوست و مصاحب جمع ہو گئے ،ان میں چوہدری محمد حسین،خلیفہ شجاع الدّین،سعادت علی خان ،عبدلمجیدسالک ، مولانا غلام مرشد،راجہ حسن اختر،اور ڈاکٹر جوحسن قریشی کے اسماء قابلِ ذکر ہیں۔جن کے لئے سب سے اہم مسئلہ علامّہ کے دفن کے مقام کا تعین تھا۔ چنانچہ ظاہری واقعہ بتاتے ہیں کہ، چودھری محمد حسین اور راجہ حسن اختر جو تقریباً بارہ سال تک علامّہ سے فیضیاب رہے، ڈاکٹر مظہر الدین قریشی کے ہمراہ سب سے پہلی بار اس خیال کا اظہار کیا کہ اقبال کو شاہی مسجد لاہور کے کسی حجرے میں دفن کیا جائے، مگر جب یہ افراد دوسرے دوستوں کے ساتھ شاہی مسجد گئے ،تو ان کے خیالات بدل گئے اور انہوں نے شاہی مسجد کی سیڑھیوں کی بائیں جانب خالی قطعہ زمین کا انتخاب کی اہم اس مقام پر صرف اس نکتہ کو واضح کرنا چاہتے ہیں کہ علامّہ جیسادوداندیش مرد مومن جو ایک طولانی بیماری کے بعد اس دارِ فانی سے کوچ کرتا ہے جو ایک نہیں بلکہ تین وصیتیں چھوڑتاہے، جس نے اپنے بڑے بھائی کو اس بات کا یقین دلایا ،کہ وہ موت سے نہیں ڈرتا بلکہ موت کا استقبال تبسم کے ساتھ کرے گا۔ وہ اپنے کفن اور دفن کے بارے میں اپنے دوست و احباب سے کچھ نہ کہے ۔ شاید شاہی مسجد کا انتخاب خود بے الفاظ میں علامّہ اقبال کا انتخاب ہو جس پر چوہدری محمد حسین اور راجہ حسن اختر نے پافشاری کی ۔ اس بات کا امکان بھی ہے، کہ علامّہ اپنی حیات میں اس مسئلہ کو اس لئے پیچیدہ مسئلہ بنانا نہیں چاہتے تھے کہ مسجد آثار قدیمہ کے تحت تھی اور زندگی میں اجازت کے لئے بعض افراد کی رضا مندی ضروری تھی جنہیں علامّہ پسند نہیں کرتے تھے اور شاید یہی سوچ کر اقبال نے اس مسئلہ کو اپنے خاص دوستوں پر چھوڑ دیا۔

علامہ اقبالؒ کے انتقال پر ہر شخص سوگوار تھا
اندرون لاہور شہر وہ تاریخی تھڑا جہاں علامہ اقبال شاعری کیا کرتے تھے

تاکہ پس ازمرگ یہ مسئلہ آسان ہو جائے ۔ بہر حال واللہ العلم کہہ کر ہم مضمون کو آگے بڑھاتے ہیں ۔ علامّہ اقبال کی اس خواہش کا اظہار انہوں نے اپنے ایک شعر میں بھی کیا ہے کہ ـــــ"اے خدا میری قبر پر تیری دیوار کا سایا ہو اور میرے نصیب کے ستارے کو بیدار نگاہ نخش دے ۔"ان کی دعا مستجاب ہوئی ۔

شاہی مسجد کے احاطے میں دفن کرنے کے لئے سرکاری اجازرت ضروری تھی ۔ صوبائی حکومت کے سربراہ سکندر خان حیات پنجاب سے باہر کلکتہ دورے پر گئے ہوئے تھے۔ میاںامیر الدین نے ان سے ٹیلگراف کے ذریعہ مذکورہ مقام پر تدفین کی اجازت طلب کی ،لیکن انہوں نے انکار کر دیا اور تجویز پیش کی کہ اسلامیہ کالج کا میدان اس مقصد کے لئے موضوع ہو گا ۔بہت سے مسلمان، ہند ووزاء اور سکھ انجمن کے سربراہ بھی شاہی مسجد میں اقبال کے مدفن کے مخالف تھے اور بعض افراد ایک دوسرے مقام جو گنبد آبی مسجد کے رو برو تھا ۔علامّہ کے مقبرے کے لئے موزوں سمجھ رہے تھے۔ لیکن علامّہ کے دوست اور احباب اپنے فیصلہ پر جمے رہے، انہوں نے براہ راست صوبہ کے گورنر سر ہنری کریک سے رابطہ کر کے دہلی سے اجازت منگوالی اور مسجد شاہی کے بائیں جانب والی قطعہ زمین پر علامّہ کی لحد کی تیاری شروع ہوگئی۔

جناب عبدلمجید سالک نے بھی 'ذکرِ اقبال میں کم وبیش ایسا ہی لکھا ہے۔تاہم سید نظیرنیازی کے مضمون ـآخری علالت سے مختلف ہے۔

جناب عاشق حسین بٹالوی اقبال کے قریبی حلقے میں شمار ہوتے تھے، انہوں نے جنازہ کی منظرکشی کرتے ہوئے، لکھا کے جنازہبرانڈرتھ روڈ سے دہلی دروزہ تک پہنچایا گیا ۔ یہاں پہنچنے تک سوگواروان کی تعدا دتقریباً پچاس ہزار کے لگ بھگ رہی ہو گی۔

عاشق حسین بٹالوی اپنی کتاب "چند یادیں اور چند باتیں "جنازے کے مجموعی ماحول کی عکاسی کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

"اقبال کے رحلت کے ساتھ ہی ڈاکٹر ملک نے ریڈیو اسٹیشن فون کر کے اطلاع دے دی۔ریڈیو پربار بار یہ اطلاع دی جارہی تھی۔ اخبارات کے ضمیمے نکل آئے۔ تمام تعلیمی ادارے ، دفتر ، کچہری،بازاربند ہوگے ، ہزاروں افراد شام چار بجے تک اس گول کمرے داخل ہو کر ، آخری دیدار کرتے ، بغلی غسل خانے سے باہر نکلتے چلے جاتے تھے ،اقبال کا پلنگ ان کے کہنے پر رات صحن سے اٹھا کر اس گول کمرے منتقل کیا گیا تھا ۔ جنازے کو لمبے لمبے بانسوں کے ساتھ باندھا گیا تھا ، تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ کندھا دے سکیں ۔ جنازے میںہر مذہب کے پیروکارشریک تھے۔ ہزاروں مسلم چشم ہائے گریاں کلمہ شہادت کا ورد کرتے چلے جا رہے تھے ۔

جنازے پر کئی تنظیموں اور انجمنوں کی طرف سے پھولوں کی چادریں چڑھائیں گئیں پیدل اور سوار نیلی پوش پولیس والنٹیرز،اسکاوٹس، خاکساروں کے جیش ، کامریڈ مسلم جیش ، ہلائی پارٹی،دکنی جیوش اپنی اپنی وردیوں میں اقبال کے جنازے میں شریک تھے ۔عورتیں چھتوں پر سے گل پاشی کرتیں ،"ماتمِ اقبال"کے مصنف نے لکھا کے جنازہ قلعہ گجر سنگھ اور فلیمنگ روڈ سے ہوتا ہوا، اسلامیہ کالج کی وسیع و عریض گرائونڈ میں پہنچا، جہاں نماز جنازہ کی ادائیگی کے لئے بیس ہزار مسلمان اکٹھے تھے۔ کئی غیر مسلم لیگی مقامی سیاسی لیڈربھی اقبال کے اس آخری سفر میں ہم قدم تھے ۔ اتنے میں شہر کے لوگوں کو بھی جنازے میں شرکت دلانے کی غرض سے اسے بادشاہی مسجد کی طرف طرف بڑھایا گیا۔

آٹھ بجے شب بادشاہی مسجد کے صحن میں مولانا غلام مرشد نے نماز جنازہ پڑھائی ۔ بعد ازاںمیت کو مقام تدفین کے پاس لا کر رکھ دیا گیا ۔ کیوں کہ اقبال کے بھائی شیخ عطاء محمد سمیت چند عزہ و اقارب نے ابھی سیالکوٹ سے پہنچنا تھا ، وہ لوگ رات ساڑھے نو بجے پہنچے شیخ عطاء نے بھائی کا آخری دیدار کیا ، یوں رات پونے دس بجے اس عاشق رسول اور داعی ِ احیا ئیاسلام کے جسم کو تابوت میں رکھ کر سپردے خاک کیا گیا ۔

علامہ کی تدفین کے چند مہینوں بعد مقبرہ سازی کے لئے ایک مزار کیمٹی تشکیل دی گئی جس کی سر پرستی چودھری محمد حسین نے کی لیکن موجودہ مقبرہ کی تعمیر کا آغاز ۱۹۴۶؁ء تک نہ ہو سکا ،اس وقت تک اقبال کا مقبرہ معمولی تھا ۔

علامہ اقبال کے مقبرے کی چھت خاص اشاریت کی حامل ہے۔ چھت کے وسط میں اسم ’’محمدﷺ‘‘ کندہ ہے۔مزار کے چاروں کونوں میں اقبال کا نام ہے اور اقبال کے نام سے نام ـ"محمدﷺ"ایک لہر کے زریعہ جڑا ہوا ہے ۔ اس تمشیلی اشاریت سے یہ اظہار مقصور ہے کہ اقبال نے جس مرکز نور سے اقتباسِ نور حاصل کیا ہے۔ وہ ذات حتمی مرتبت ہے ۔ کہتے ہیں کہ چودھری صاحب نے مقبرہ کے لیے قرآنی آیات اور اقبال کے اشعار کا انتخاب کیا ۔ مقبرے میں تین آیات قرآنی خط کو فی میں نہایت خوبصورت تحریر مین سنگ موسیٰ سے کندہ کی ہوئی ہیں ۔

مزار کی چار دیواری پر سنگ موسیٰ سے کندہ خط نستعلیق میں وہ اشعار ہیں ،جو علامہ کے کلام کے خلاصہ ہو سکتے ہیں وہ تمام اشعار فارسی میں ہیں ۔ مزار کا تعویذ حکومت افغانستان کا عطیہ ہے۔ اس وقت اس کی قیمت تین لاکھ افغانی تھی۔تعویذ ایک قیمتی پتھر سنگ لاجوادی Laphiazali سے بنا ہوہے ۔ یہ پتھر اتنا سفید اور حسین ہے کہ روشنی کو ایک طرف سے دوسرے طرف منعکس کرتا ہے ۔ کہتے ہیں کہ کابل میں شہنشاہ بابر کے زمانے میں بھی اس پتھر سے استفادہ کیا گیا ہے ۔ تعویذ مزار ایک کشادہ سنگ مر مر کے چبوترے پر واقع ہے ۔ مزار کے سرہانے ایک سنگ مر مر کی تختی نصب ہے ۔ اس تختی پر بہ جانب تعویذ فارسی اور عربی کے اشعار لکھے گئے ہیں ۔ کہتے ہیں کہ تعویذ کے دونوں جانب بلند شمع داں بھی تھے َلیکن افغانستان سے حمل و نقل کے دوران ٹوٹ گئے اور اب تعویذ میں شامل نہیں۔

مقبرے کے آیات کو حافظ محمد یوسف سدیدی نے خطاطی کے روپ میں ڈھالا انہوں نے کلام اقبال کے کئی نادر نمونے بھی تخلیق کئے تھے ۔

اشعار کی خطاطی ماہر فن استاد عبدلمجید پروین رقم نے کی یہی نہیں بلکہ مقبرے کی بیرونی دیوار جو شاہی مسجد کی سیڑھیوں کی جانب ہے ایک تختی پر دو اشعار فارسی میں کندہ ہیں جس میں ہماری بے روح مردہ قیادت پر سخت تنقید کی گئی ہے ۔

قائد اعظم 22نومبر 1942؁ء کو علامہ اقبال کے مزارزیارت گاہ اہل عزم و ہمت پر تشریف لے گئے ، انقلاب اخبار نے 25نومبر 1942؁ء کوصفحہء ِ آخر میںاسی کی منظر کشی کچھ ان الفاظ میں کی ۔

"شاعر اسلام کے پیغام کو عملی جامہ پہنانے والا تدبرآج حکیم الا مّت کی قبر پر حاضر ہو ا۔آج انہوں نے اس مرد ِ قلندر کی بارگاہ میں خراجِ عقیدت پیش کیا، جس نے قوم کو پاکستان کا تخیل دیا ۔ قائد اعظم شام کے وقت میاں بشیر احمداور مسلم لیگ سٹوڈنٹس فیڈریشن کے کارکنوں کے ہمراہ مزار ِ اقبال پر پہنچے کے بعد فاتحہ پڑھی ۔ حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے بابا قوم نے فرمایا !1935؁ء کے اقبال کے خطوط کا حوالہ دے کر فرمایا کہ اس کے بعد میں تین دفعہ پنجاب آیا لیکن،جو تسکین مجھے اس مرد قلندر کے بارگاہ میں ملی وہ کہیں نہ ملی ۔ قائد اعظم کو ذوق و شوق کے چند اشعار سنائے گئے ۔ جس کو سن کر آ پ نے فرمایا "روح مسلماں واقعی اضطراب ہے، اورہم انشا ء اللہ ایک عظیم الشان اور پاکیزہ انقلاب پیدا کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے "

تازہ ترین