مہنگائی کے اس پرآشوب دور میں بھی سب سے سستی شے صرف ’’موت‘‘ ہے، جو انتہائی فراخ دلی کے ساتھ بانٹی جارہی ہے۔ ویسے تو زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے لیکن چند مفاد پرست افراد ، انسان کو موت سے قریب کرنے کے لیے ہمہ وقت مصروف رہتے ہیں۔ ان میں خودساختہ مسیحا یعنی اتائی ڈاکٹر اور جعلی ادویات بنانے والے بھی شامل ہیں۔ جعلی و غیر معیاری ادویات کی فروخت ہو یا اتائی ڈاکٹرز کی جانب سے سادہ لوح شہریوں کو علاج و معالجے کے نام پر ان کی زندگیوں سے کھیلنا ہو، یہ تمام چیزیں سنگین جرائم کے زمرے میں آتی ہیںہے۔ اتائی ڈاکٹرز، غیر معیاری جعلی ادویات، اسمگل شدہ اور غیر رجسٹرڈ کمپنیوں کی دوائیوں کی فروخت سمیت غیر قانونی میڈیکل اسٹوروں کے خلاف کارروائی کرنا حکومت اور محکمہ صحت کی ذمہ داری ہے لیکن حیران کن طور پر محکمہ صحت، ڈویژنل اور ڈسٹرکٹ ڈرگ انسپکٹر زنے اس سنگین جرم سے چشم پوشی اختیار کی ہوئی ہے۔ یہ جرم کرنے والے دولت کی ہوس میں قیمتی انسانی جانوں سے کھیل رہے ہیں مگر متعلقہ انتظامیہ کی جانب سے اس کا کوئی نوٹس نہیں لیا جارہا ہے اور نہ ہی اس ہلاکت خیز کاروبار میں ملوث افراد کے خلاف کوئی کارروائی کی جارہی ہے۔
کچھ عرصے قبل چیف ڈرگ انسپکٹر سندھ کی جانب سے صوبے بھر میں بغیر لائسنس میڈیکل اسٹور اور جعلی ادویات فروخت کرنے والوں کے خلاف کارروائی کے احکامات دئیےگئے تھے مگر افسوس کہ ضلع سکھر میں ان احکامات پر عمل درآمد نہیں ہوسکا۔ ضلع بھر میں بڑی تعداد میں ایسے میڈیکل اسٹورز موجود ہیں جو بغیر لائسنس کے غیر قانونی طور پر کام کررہے ہیں جب کہ ایک ہی مالک کے نام کے لائسنس کی فوٹواسٹیٹ کاپی درجنوں میڈیکل اسٹوروں پر آویزاں ہیں اور بڑی تعداد میں ایسے بھی میڈیکل اسٹور ہیں جو میڈیکل پریکٹشنرز کی کلینک کے باہر کھلے ہیں اور ان کے پاس لائسنس نہیں ہیں۔ حیرت انگیز طور پر چیف ڈرگ انسپکٹر سندھ کی جانب سے دیئے جانے والے احکامات کو سکھر اور گھوٹکی اضلاع کے افسران نے ہوا میں اڑا دیا اور کوئی خاطر خواہ کارروائی سامنے نہیں آئی۔ سکھر کے ڈرگ انسپکٹر بلال آرائیں نے جن کے پاس ضلع گھوٹکی کا بھی چارج ہے ،’’جنگ‘‘ کو بتایا کہ چیف ڈرگ انسپکٹر کے احکامات پر ٹیم تشکیل دی گئی ہے اور تین، چار میڈیکل اسٹوروں کے خلاف کارروائی بھی کی ہے، مزید کارروائیاں کی جارہی ہیں۔۔سکھر، روہڑی، صالح پٹ، کندھرا، باگڑجی سمیت شہری ودیہی علاقوں میںسیکڑوں کی تعداد میں میڈیکل اسٹورز موجود ہیں جن میں میڈیکل اسٹور مالکان کی اکثریت ڈرگ ایکٹ کے مطابق کام نہیں کررہی اور جعلی ادویات ، دیسی یا یونانی دویات جو مقامی سطح پر تیار ہوتی ہیں وہ وافر مقدار میں فروخت ہورہی ہیں اور سرکاری اسپتالوں میں غریب مریضوں کے لئے حکومت کی جانب سے فراہم کی جانے والی ادویات بھی بعض اسٹوروں پر فروخت کی جارہی ہیں۔اس سلسلے میں محکمہ صحت ،ڈرگ انسپکٹراور دیگر متعلقہ حکام نے مکمل طور پر چشم پوشی اختیار کررکھی ہے۔ 15لاکھ سے زائد آبادی کے ضلع میںسیکڑوں میڈیکل اسٹورجن میں ہول سیل مارکیٹ بھی شامل ہے۔ ان میں صرف تین سے چار میڈیکل اسٹوروں کے خلاف ایک ماہ کے دوران کارروائی اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے۔ واضح رہے کہ کمشنر سکھر کی زیر صدارت منعقدہ ایک اجلاس کے دوران بھی ضلع سکھر کے ڈرگ انسپکٹر کی کارکردگی کو دیگر محکموں کے افسران نے کڑی تنقید کا نشانہ بنایا تھا او رکمشنر سکھر نے یہاں تک کہاتھا کہ آپ کو اس عہدے پر تعینات ہوئے اتنے سال ہوگئے ہیں، اب آپ کچھ کام بھی کرکے دکھائیں مگر میٹنگ کی روداد کے باوجود جعلی ادویات فروخت کرنے والوں اور بغیر لائسنس چلنے والے میڈیکل اسٹورز کیخلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی ہے۔
حکومت سندھ کی جانب سے صحت کے شعبے کی بہتری کے لئے سندھ میں صحت ایمرجنسی بھی نافذ کی گئی تھی جس کا مقصد سرکاری سطح پر صحت کے شعبے میں بہتری لانا تھی مگرہیلتھ ایمرجنسی کے نفاذ کے باوجود اس سنگین جرم کی روک تھام کے لئے کوئی بڑی پیش رفت سامنے نہیں آئی۔ یہی وجہ ہے کہ اس گھنائونے کاروبار کی روک تھام دکھائی نہیں دہوسکی ہے بلکہ اس میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے اور آئے روز اتائی ڈاکٹروں کی غفلت و لاپروائی کے باعث مریضوں کی حالت بگڑنے یا ان کے جاں بحق ہونے کی اطلاعات بھی سامنے آتی رہتی ہیں۔ سندھ کے تیسرے بڑے شہر سکھر سمیت گردونواح کے علاقوں میںصورت حال اس قدر خراب ہے کہ بڑی تعداد میں غیر قانونی طور پر میڈیکل اسٹور چلائے جارہے ہیں جبکہ اسپتالوں میں غریب مریضوں کے لئے آنے والی سرکاری ادویات بھی نجی یڈیکل اسٹوروں پر فروخت کردی جاتی ہیں۔
ضلع سکھرصوبہ بلوچستان ، پنجاب اور سندھ کے درمیان ایک حب کی صورت رکھتا ہے، سندھ کا تیسرا بڑا شہر ہونے کی وجہ سے یہاں بڑے سرکاری اور نجی اسپتال بھی قائم ہیں جہاں نہ صرف ضلع سکھر بلکہ گھوٹکی، شکارپور، جیکب آباد اور بلوچستان کے مختلف اضلاع سے مریضوں کو علاج و معالجے کے لئے لایا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ضلع سکھر میں میڈیکل اسٹوروں کی تعداد زیادہ ہے مگر میڈیکل اسٹور مالکان کی اکثریت قوانین پر عملدرآمد نہیں کرتی۔ زیادہ ترمیڈیکل اسٹورز کے پاس ریفریجریٹر تک موجود نہیں ہے، اور ایسی ادویات جو ریفریجریٹر میں رکھی جانی چاہئیں وہ باہر رکھی ہوتی ہیں جس سے ان کی افادیت ختم ہوجاتی ہے۔ میڈیکل اسٹور کے لائسنس کیلئے ضروری ہے کہ جو لوگ ادویات کی فروخت کا کام انجام دینا چاہتے ہیں ،انہیں ادویات کے بارے میں مکمل معلومات ہوں اور وہ فارمیسی کے شعبے میں گریجویشن کی ڈگری کے حامل ہوں۔ سکھر شہر اور گرد و نواح ، خاص طور پر دیہی علاقوں میں ایسے میڈیکل اسٹور ہیں جن کے پاس دوائوں کی فروخت کاسرکاری اجازت نامہ موجود نہیں ہے جبکہ درجنوں ایسے میڈیکل اسٹور بھی ہیں جن کے لائسنس کی معیاد ختم ہوچکی ہے اور انہوں نے اس کی تجدید نہیں کرائی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان میڈیکل اسٹور مالکان کو مبینہ طور پر ڈویژنل ڈرگ انسپکٹر ،ڈسٹرکٹ ڈرگ انسپکٹر نے من مانی کی اجازت دے رکھی ہے ۔ سکھر ضلع کے دیہی علاقوں میں قائم بعض میڈیکل اسٹور زائد المیعاد ادویات بھی فروخت کررہے ہیں جس کے استعمال سے عام طور پر مریضوں کو سخت نقصان سے دوچا ر ہونا پڑتا ہے۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ صحت کے شعبے میں اس سنگین صورتحال پر صوبائی حکومت نے کبھی کوئی خاطر خواہ نوٹس نہیں لیا یہی وجہ ہے کہ انسانی جانوں سے کھیلنے والا یہ غیر قانونی کاروبار بڑھتا جارہا ہے اور عام لوگ بری طرح متاثر ہورہے ہیں۔ متعلقہ محکموں کے افسران کی عدم توجہی کے باعث غیر قانونی طور پر انسانی جانوں سے کھیلنے والے اتائی ڈاکٹروں، غیر معیاری، جعلی ادویات فروخت کرنے والوں کے حوصلے بلند ہوتے جارہے ہیں۔