حبیب یونیورسٹی میں نویں یحسن لیکچر کا اہتمام کیا گیا جہاں جنوبی ایشیا میں تعلیمی امور کے ماہر ڈاکٹر تھامس ہینسن نے خصوصی گفتگو کی اور فاشزم اور آمریت کا ذکر کیا۔
اس سلسلے میں جاری اعلامیہ میں کہا گیا کہ اسٹینفرڈ یونیورسٹی میں جنوبی ایشیائی امورکے پروفیسر ڈاکٹر تھامس ہینسن نے ’فسطائیت، آزردگی، اور آمرانہ افکار-غصے کی لہر‘ سے متعلق موضوع پر خطاب کیا اور موجودہ حالات، مقبولیت پسند رہنما، دائیں بازو کی تحریکوں اور دنیا بھر میں نئے انداز میں ابھرتی ہوئی فسطائیت پر روشنی ڈالی۔
ان کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں ماہرین کا خیال ہے کہ گلوبلائزیشن، لبرلزم، جمہوریت اور متنوع معاشروں کے منفی اثرات نے معاشرے میں غم و غصے کو پروان چڑھایا جس کے نتیجے میں آمرانہ ذہنیت پنپنے لگی۔
ڈاکٹر تھامس نے کہا کہ امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کا دوبارہ منتخب ہونا، فرانس میں مارین لے پین اور ہنگری میں وکٹر اوربان کی حکومتوں نے موجودہ دور میں بڑھتی ہوئی فسطائی سوچ پر سوال اٹھادیا ہے۔
ڈاکٹر ہینسن نے اپنی گفتگو میں کہا گزشتہ چند دہائیوں میں دائیں بازو کی طرف ایک واضح رجحان دیکھا گیا ہے۔ 2014 میں بھارت سے لے کر 2016 میں ٹرمپ کے انتخاب تک اور چند ہفتے قبل دوبارہ ایسا ہوا۔
انکا کہنا تھا کہ ہنگری سے فلپائن تک دنیا بھر میں دائیں بازو کے عوامی رہنماؤں نے گلوبلائزیشن کے اثرات، خواتین کی عوامی زندگی میں بڑھتی ہوئی نمایاں موجودگی اور کثیر الثقافتی رجحانات کے خلاف دباؤ ڈال کر مقبولیت حاصل کی۔
ڈاکٹر تھامس نے کہا کہ دنیا بھر میں ماہرین ان رجحانات کو فاشزم کی واپسی قرار دیتے ہیں، لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ فاشزم صرف ایک ردعمل تھا۔
اس موقع پر حبیب یونیورسٹی کے بانی صدر واسع رضوی نے یحسن لیکچر کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا، "جیسے ہارورڈ اور ییل جیسی یونیورسٹیوں کے موٹو ہوتے ہیں، ہمیں یہ سعادت ملی کہ ہم نے یحسن کا قول منتخب کیا۔"
ڈاکٹر ہینسن سیاسی زندگی، مذہبی و نسلی شناختوں، تشدد اور جنوبی ایشیا اور جنوبی افریقہ میں شہری زندگی کے امور کے ماہر ہیں۔
ان کی تحقیقی کاوشوں میں سیاسی نظریہ، براعظمی فلسفہ، نفسیاتی تجزیہ، تقابلی مذہب اور جدید شہری زندگی شامل ہیں۔
یحسن لیکچر سیریز حبیب یونیورسٹی کے موٹو "یحسن" پر مبنی ہے، جو عربی میں اسلامی تصور "احسان" سے ماخوذ ہے۔