چند ماہ کے دوران شہر میں مبینہ پولیس مقابلوں کے بڑھتے ہوئے واقعات میں معصوم جانوں کے ضیاع سے شہریوں میںخوف و ہراس کی لہرپھیلی ہوئی ہے۔ شاہراہوں پر تعینات اور گشت پر مامور غیر معیاری پیشہ وارانہ تربیت کے حامل پو یس اہل کاروں کی جانب سے کیے جانے والے مبینہ پولیس مقابلوں کے نتیجے میں 9ماہ کے دوران معصوم بچوں سمیت اب تک نصف درجن سے زائدقیمتی جانیں ضائع ہوچکی ہیں۔
کراچی کے شہریوں کی جان اور مال کے محافظ ایسے ہی غیر تربیت یافتہ پولیس اہل کاروں کے ہاتھوں چند روز قبل یونیورسٹی روڈ پر پولیس کی مبینہ فائرنگ سےرکشے میں والدین کے ساتھ سوار 19ماہ کا بچہ محمد احسن شیخ ولدکاشف شیخ جان سےہاتھ دھو بیٹھا۔ قائد آباد میں مبینہ پولیس مقابلے کے دوران 12 سالہ سجاد فائرنگ کی زد میں آکر موت کی آغوش میں چلا گیا۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ22فروری کوڈاکٹر بننے کا خواب آنکھوں میں سجائے یونیورسٹی سے گھر لوٹنے والی طالبہ نمرہ بیگ بھی انڈا موڑ کے قریب مبینہ پولیس مقابلے میں فائرنگ کی زد میں آکرہلاک ہوگئی تھی ۔
گزشتہ برس اگست میں والدین کے ساتھ گاڑی میں سفر کرنے والی ننھی بچی ایمل عمر کو بھی پولیس کی گولیوں نےبھون کر والدین سے جداکر دیا ۔شارع فیصل پر پولیس اہل کاروں کی جانب سے رکشے پر فائرنگ کے نتیجے میں بے گناہ شہری مقصود جاں بحق ہواجب کہ ڈیفنس میں اے سی ایل سی پولیس کی فائرنگ سے گاڑی میں سوار نوجوان انتظارجاں بحق ہوگیا تھاجس کے والد اب تک انصاف کے حصول کے لیے سرگرداں ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بنیادی طور پر سرکار کی جانب سے عوام کی حفاظت پر مامورکیے جانے والےمحافظ کب تک معصوم لوگوں کا خون بہاتے رہیں گے؟ بعض مبصرین ایسے واقعات کی ذمہ داری سیاسی قیادت پر ڈالتے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ محض سیاسی حمایت حاصل کرنے کیلئے نااہل افراد کو ملازمتیں طشتریوں میں رکھ کر پیش کر دی جاتی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ محکمہ پولیس کی قیادت بھی برابر کی ذمہ دار ہے جو ان سر پھرے نوجوانوں کو شہریوں کے ساتھ حسن سلوک اختیار کرنے کی تعلیم دینے میں ناکام رہی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ محکمہ پولیس میں موجودغیر انسانی رویوں کے حامل اہل کاروں کوشائستگی سکھانے کیلئے اخلاقیات کی کلاسز کا انتظام کیا جائے، اس کےساتھ ہی مذہبی تعلیم بھی ایک لازمی مضمون کے ساتھ شامل کی جائے۔ محض ایسے واقعات پر نوٹس لینے اور تحقیقات کیلئے اعلی افسران پر مشتمل کمیٹیاں قائم کرنا ان مسائل کا حتمی علاج نہیں ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ محکمہ پولیس کی قیادت سیاسی دبائو قبول کئے بغیر صرف اور صرف معصوم شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے کا مقصد سامنے رکھتے ہوئے فورس کی بہتری کیلئے اقدامات کریں ،وگرنہ ایسا نہ ہو کہ متاثرہ لوگوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو جائے اور شہر میں امن و امان کا قیام کبھی بھی ممکن نہ ہو سکے ۔
حال ہی میں کملائے جانے والے ننھے پھول ، احسن کے والدین اور اقرباء کوشدت غم سے نڈھال دیکھ کراس کے ردعمل میں ہونے والے عوامی اشتعال نے وزیراعلیٰ سندھ کو واقعہ کا نوٹس لینے پر مجبور کر دیا۔ ابتدائی طبی رپورٹ سے یہ بات سامنے آچکی ہے کہ بچے کو پولیس کی گولی لگی۔پولیس فائرنگ سے جاں بحق ہونے والے کمسن احسن کے خاندان خصوصاً والدین کے لئے یہ واقعہ روح فرسا ہے اوروہ شدت غم کی وجہ سے کرب ناک کیفیت میں ہیں ۔ بچے کےلواحقین نے الزام عائد کیا ہے کہ بچے کو پولیس کی گولیاں لگیں، مقتول کے والد کاشف کا مذکورہ واقعےکے بارے میں کہنا ہے کہ ہم رکشے میں جا رہے تھے کہ پولیس کی فائرنگ سے احسن کے سینے میں گولی لگ گئی، جسے فوری طور پراسپتال منتقل گیا گیا لیکن وہ جانبر نہ ہو سکا۔ شہری حلقوں کااس قسم کے واقعات کے بارے میں کہنا ہے کہ تواتر سے مبینہ پولیس مقابلوں میں معصوم جانوں کا ضیاع صرف لاپروائی نہیں بلکہ پولیس کی مجرمانہ غفلت کا نتیجہ ہے ۔
ننھے احسن کی ہلاکت کےواقعہ کے بعد آئی جی سندھ اور ایڈیشنل آئی جی کراچی نے معافی بھی مانگی ہے ۔ پولیس کے اعلیٰ حکام کی طرف سے پشیمانی کا اظہار اپنی جگہ درست ہے لیکن معافی اس قسم کے واقعات کا حل نہیں ہے ۔ معصوم احسن کے قتل کا مقدمہ تو درج کیا گیا لیکن پولیس کی جانب سےمقدمے کے اندراج کے وقت من مانی دفعات شامل کی گئیں جنہیں کمسن احسن کے اہل خانہ نے مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ پولیس اہل کاروں نے دہشت گردی کی ہے مقدمہ میں دفعہ 302 اور 7ATA انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ شامل ہونی چاہیے تھی۔ ایف آئی آر ہمارے بیان کے مطابق درج نہیں ہوئی پولیس نے غفلت اور لاپروائی کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا ہے،جوہمارے ساتھ نا انصافی ہے۔ مقتول احسن کے والدکا کہنا تھا کہ واقعے کا مقدمہ ہماری مرضی سے درج نہیں کیا گیا، ہمیں سچل تھانے میں طلب کرکے کہاگیا کہ مقدمہ درج کرلیا گیا آپ صرف اس پر دستخط کر دیں۔بچے کے والد کہنا ہے کہ پولیس نےاپنے پیٹی بند بھائیوں کو بچانے کے لیے حقائق تبدیل کر دیئے ہیں ۔
ایڈیشنل آئی جی کراچی ڈاکٹر امیر شیخ نے اپنی اور محکمہ پولیس کی کوتاہی پر پردہ ڈالتے ہوئے روایتی بیان دیتے ہوئےکہا کہ تفتیشی ٹیم تشکیل دے دی گئی ہے جودس دن میں تحقیقاتی رپورٹ پیش کرے گی۔ انہوں نے ڈیڑھ سالہ بچے احسن کی جاں بحق ہونے کے حوالے سےمتاثرہ خاندان سے معذرت بھی کی۔ انہوں نے اس موقع پر کہاکہ جاں بحق ہونے والے بچے کو تو واپس نہیں لاسکتے لیکن یقین دلاتے ہیں کہ اس کے والدین کے ساتھ انصاف ہوگا۔
اس سلسلے میں مقتول بچے کے داداکا ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کے سامنےبیان انتہائی اہمیت کا حامل ہے جس میں کہا گیا ہے کہ مذکورہ مقام پر کوئی مقابلہ نہیں ہورہا تھا بلکہ پولیس اہل کار آپس میں جھگڑا کررہے تھے ۔ اس جھگڑے کے دوران ہی فائرنگ کا واقعہ رونما ہوا،جس کی زد آکر میں میرا پوتا جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ یہاں یہ اُمر بھی قابل ذکر ہے کہ میڈیا کے سامنے ایڈیشنل آئی جی کراچی نے مقتول احسن کے دادا کو حقائق بیان کرنے سے متعدد مرتبہ روکنے کی کوشش کی۔ ڈاکٹر امیر شیخ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ واقعے پر دکھ اور افسوس ہے۔ ایس او پیزیعنی (Standard Operating Procedure) بار بار دیکھی جاتی ہیں۔ فیملی نے جو بھی مطالبہ کیاہے اس کو پورا کریں گے۔ایڈیشنل آئی جی نے کہا کہ چاروں اہل کاروں کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جہاں جہاں ایسے واقعات ہوئے ان میں یقینا ًپولیس کی کوتاہی ہے۔ متاثرہ خاندان نے ایف آئی آر اپنی مرضی سے درج کروائی ہے۔پولیس کی تر بیت سے متعلق بھی خصوصی اقدامات کیے جا رہے ہیں، تربیتی معیار کو بہتر کرنا ہوگا۔ تحقیقاتی ٹیم بنائی گئی ہے، تفتیش مکمل ہونے دیں۔ تفتیشی ٹیم کی سفارشات پر عمل کیا جائے گا ۔اگر پولیس والوں نے غلط کیا ہے تو انہیں سزا ضرور ملے گی۔واضح رہے کہ پولیس میں بھرتی ہونے والے نوجوان اہل کار وردی اور اسلحے کے زورپر گلیوں میں دنددناتے نظر آتے ہیں اور وہ جب چاہیں جس کو چاہیں ڈاکو قرار دے کر فائرنگ کردیتے ہیں اور واقعہ کو پولیس مقابلہ قرار دے کر بری الذمہ ہوجاتے ہیں کیوں کہ ان سے باز پرس کر نے والا کوئی نہیں۔ گولیوں کی زد میں آکر اب تک نصف درجن سے زائد معصوم شہری اپنی جان سے ہاتھ دھو چکے ہیں ،لیکن آئی جی سندھ ،ایڈیشنل آئی جی کراچی صرف و اقعہ کا ’’فوری نوٹس‘‘ لے کر اپنی ذمہ داریوں سے سبک دوش ہوجاتے ہیں۔
معصوم احسن کی ہلاکت کے واقعہ کی تحقیقات کے لئےروایتی طور پر تفتیشی ٹیم تشکیل دی گئی ہے۔شہری حلقوں کاکہنا ہے کہ قبل ازیں بھی پولیس کی گولیوں کا نشانہ بننے والے شہریوں کی ہلاکتوں پر تحقیقاتی کمیٹیا ں تشکیل دی گئی تھیں ۔ لیکن نتیجہ تاحال صفر ہے ۔شہری حلقے سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ کیا اے سی ایل سی پولیس اہل کاروںکی فائرنگ سے جاں بحق ہو نے والے نوجوان انتظار کے والد سمیت کسی بھی متاثر ہ خاندان کوانصاف ملا ۔
دوسری جانب شہر میں ڈاکو راج برقرار ہے ۔اسٹریٹ کرائمز کے بڑھتی ہوئی وارداتوں میں ذراسی مزاحمت پر جان لینا معمول بن گیا ہے۔پولیس کےاعلی حکام ان واقعات کے رونما ہونے کے بعدان پر فوری نوٹس لے کر اپنی جان چھڑالیتے ہیں کیوں کہ ان کی جانب سے لیے جانے والے نوٹسزمحض کاغذی حد تک ہوتے ہیں۔ حال ہی میں بنائی گئی جدید آلات، اسلحہ اور اور ہیوی اورتیز رفتار موٹر سائیکلوں سے لیس اینٹی اسٹریٹ کرائمزفورس کے قیام کے باوجود اسٹریٹ کرائمز کی وارداتوں میں کمی ہونے کی بجائے اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔ مہنگی ترین موٹر سائیکلوں پر سوارجدید اسلحہ سے لیس یہ جوان صرف اور صرف تفریح کر تے اور سرکار ی ایندھن کا ضیاع کرتےہوئے روایتی پو لیس کا کردار ادا کرتے نظر آتے ہیں۔17ا پریل کو اتحادٹاون تھانےکی حدودبلدیہ اتحاد ٹائون خیبر چوک کے قریب ملزمان نے ڈکیتی مزاحمت پرفائرنگ کر کے35 سالہ طالب جان ولد مولانا نور الحق پٹھان کو قتل کر دیا اور فرار ہو گئے ۔17اپریل کو ہی گلبرگ میں آئل کی دکان میں ڈکیتی کے دوران ملزمان کی فائرنگ سے 35سالہ حسین ولدحاجی منشئ زخمی ہو گیا ۔ پیر آباد کےتھانے کی حدود میانوالی کالونی اسٹریٹ نمبر 2 میں ملزمان نے لوٹ مار کے دوران مزاحمت پر فائرنگ کرکے 28سالہ بلال خان ولد عالم اور 30سالہ یونس ولد محمد خاں کو زخمی کردیا اور فرار ہو گئے۔