خواجہ اظہر حسین شاد،تلہار
گزشتہ دس ماہ سے ضلع بدین کے مختلف علاقوں میں نہری پانی کی قلت اور آبی چوری کے خلاف ضلع بچاؤ کمیٹی اور کاشتکاروں کی اپیل پر 3اپریل کو ضلع بھر میں شٹر ڈاؤن اور پہہ جام ہڑتال کی گئی اور ،احتجاجی مظاہرے و دھرنے دئیے گئے ۔ ہڑتال کے باعث بدین، تلہار ٹنڈوباگو گولارچی پنگریو کڑیو گھنور، سیرانی، کڈھن اور دیگر شہروں اور قصبوں میں کاروباری مراکز اور دکانیں بند رہیں۔ آبادگاروں اور شہریوں کی جانب سے اس موقع پر احتجاجی مظاہرے کیے گئے اور دھرنا دے کر روڈ بلاک اور احتجاج بھی کیا گیا جس کے باعث سڑکوں سے ٹریفک غائب رہی جبکہ تھرپارکر، کراچی، حیدرآباد کے روٹس پر چلنے والی مسافر گاڑیوں کی عدم دستیابی کے باعث مسافروں کو پریشانی کا سامنا بھی کرنا پڑ۔ادوسری جانب پانی کی عدم دستیابی پر تحریک اور احتجاجی مہم کو شروع ہوئے تین ماہ سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے۔ آبادگار اور شہری سراپا احتجاج ہیں جبکہ حکومت سندھ کی جانب سے پانی کی قلت اور چوری کے خاتمے کے لیے آب پاشی کے ماہر ادریس راجپوت کی سربراہی میں کمیٹی کی تشکیل کے علاوہ کوئی عملی اقدام نہیں اٹھایا گیا ہے۔
سندھ حکومت کی جانب سے ادریس راجپوت کی سربراہی میں تشکیل کر دہ کمیٹی کا اجلاس دربار ہال بدین میں منعقدہواجس میںبدین کے ڈپٹی کمشنر ،محکمہ انہار اور سیڈا کے افسران کے علاوہ پروفیسر مشتاق میرانی ، آبادگار رہنماں عزیز اللہ ڈیرو میر نور احمد ٹالپور خلیل بھرگڑی خدا ڈنو شاہ اور دیگر نے شرکت کی۔ اجلاس میں آبادگار نمائندوں نے پانی کی مسلسل قلت ،پانی چوری پا،نی کی غلط تقسیم ،سیڈا کے وسپ پروجیکٹ کے خلاف شکایات، تحفظات، خدشات سے آگاہ کرتے ہوئے ساحلی اور ٹیل کے علاقوں میں زرعی معیشت کے نقصانات پینے کے پانی کی تلاش میں متاثرہ افراد اور مال مویشیوں کی نقل مکانی کی تفصیلات بتائیں۔آبادگاروں کی جانب سے قلت آب، نہری پانی کی چوری اور غلط تقسیم کے خاتمے سیڈا کے وسپ پروجیکٹ میں موجود خامیوں اور ریگولیٹر کے کراس کے غلط ڈیزائن کو درست کرکے پانی کی بلا تعطل فراہمی کو یقینی بنانے کا پرزور مطالبہ گیا اور کہا گیاکہ 6 ماہ چلنے والی نہروں میں وارہ بندی کے تحت پینے کے پانی کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے قانونی شکل دی جائے کیونکہ ریاست اور حکومت ہر شہری کو پینے کا صاف پانی فراہم کرنے کی پابند ہے ۔ ساحلی اور ٹیل کے علاقوں میں زیرزمین پانی کھارا نمکین اور مضر صحت ہے ۔علاقے کی سو فیصد انسانی آبادی مال مویشی چرند پرند کا انحصار نہری پانی پر ہے۔
واضح رہے کہ ضلع بدین کے بعض علاقے قحط آب کا شکار ہیں جب کہ بعض قصبات اور تحصیلوں میں مضر صحت پانی فراہم کیا جارہا ہے۔ پانی کے اس بحران کو سماجی حلقوں کی جانب سے محکمہ فراہمی آب کے حکام کی ’’آبی کرپشن‘‘ کا نتیجہ قرار دیا جارہا ہے۔تلہار تحصیل کے سیکڑوں دیہات یا تو قلت آب کا شکار ہیں یا وہاں مضر صحت پانی فراہم کیا جارہا ہے جس سے تشنگی بجھانے کی صورت میں انسانوں اور حیوانوں کی زندگیوں پر جان لیوا اثرات مرتب ہورہےہیں جب کہ دوسری جانب فصلوں کی سیرابی کے لیے دیا جانے والا پانی ان کی تباہی کا سبب بن رہا ہےاورہزاروں ایکڑ ز رعی اراضی بھی زہریلے پانی کی وجہ سے تباہ ہوکرناقابل کاشت بن گئی ہے۔ اس ضمن میں حکومتی سطح پر فوری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
تفصیلات کے مطابق ، بدین، تلہار اور دیگر شہروں میں آلودہ پانی اور مضر صحت پانی کے استعمال سے گیسٹرو، ہیضہ، گلے کے عارضے سمیت دیگر بیماریوں میں ہرگزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہوتا جا رہا ہے، روزانہ 20 سے 30 مریضوں کو سول اسپتال بدین اور تعلقہ اسپتال تلہار لایا جا رہا ہے، تاہم اسپتالوں میں علاج معالجے کے مناسب انتظامات نہ ہونے اور ادویہ کی عدم فراہمی کے باعث دور دراز کے علاقوں سے آنے والے مریضوں کو شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے
محکمہ ہیلتھ انجینئرنگ کے ذرائع نے بتایا کہ صوبہ سندھ میں فراہمی و نکاسیٔ آب کی تباہی کی بنیادی وجہ شہری اداروں کی نااہلی ہے۔ سندھ کے زیادہ تر شہروں میں نکاسی آب کا نظام انتہائی ناکارہ ہے ، اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک طرف محکمہ اری گیشن اور پبلک ہیلتھ انجینئرنگ کی غلط منصوبہ بندیاں اورناقص مٹیریل کا استعمال ہے جس کی وجہ سے مذکورہ اسکیمیں تباہی و بربادی کا شکار ہوجاتی ہیں ،دوسری جانب سرکاری خزانے کا کروڑوں روپیہ ان اسکیموں کے نام پر خورد برد کیا جاتا ہے۔اس ’’آبی کرپشن‘‘ کے خلاف ایف آئی اے اور نیب سمیت ذمہ داراداروں کی طرف سے فوری کارروائی کی ضرورت ہے۔باوثوق ذرائع کے مطابق شہریوں کو جوپینے اور زرعی اراضی کی سیرابی کے لیے جو پانی فراہم کیا جارہا ہے ، وہ اس ذخیرہ آب کا ہے جو6 ماہ قبل سےجھیل میں جمع تھا،اور آلودہ ہوکرانتہائی زہریلا ہوگیا ہے۔وہی پانی آب پاشی کے اہل کار نہروں میں پینے کیلئے اور فصلوں کو سیراب کرنے کے لیے چھوڑتےہیں۔ دوسری طرف کاشتکاروں کا کہنا ہے کہ اس پانی سےفصلوں میں فنگس سمیت متعدد بیماریاں ہو جاتی ہیں جب کہ زرعی اراضی سیم وتھورکا شکار ہوکر بنجر ہورہی ہے۔تلہار50 ہزارسے زیادہ آبادی کا شہر ہے، جس کی واٹر سپلائی اور ڈرینج کی زیر زمین لائنیں 42 سال پرانی ہیں جواس وقت بوسیدہ اور ناکارہ ہوکر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ اس کے علاوہ مین واہ سے وہ پانی جو تلہارکی واٹرسپلائی تالابوں تک پہنچتا ہے، وہ ہ اس قدر آلودہ ہوجاتا ہے کہ پینا تو بڑی بات ہے، اس میں ہاتھ ڈالنے کو بھی دل نہیں چاہتا اور تلہار کے شہریوں کو عرصہ دراز سے پینے کا صاف پانی فراہم نہیں کیا جاسکا اوروہ مضر صحت پانی پینے پر مجبور ہیں ۔
گزشتہ برس جوڈیشل واٹر کمیشن کے سربراہ اور سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جسٹس، مسٹر جسٹس امیرہانی مسلم نے تلہارکے تالابوں اور فلٹر پلانٹ کے متعدد بار دورےکئے۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے فلٹر شدہ پانی میں کلورین کی مقدار کم ہونے پر سخت برہمی کا اظہار کیاتھا۔ انہوں نے پبلک ہیلتھ انجینئرنگ کے حکام سے کہاتھا کہ فلٹر پلانٹ چلانا آپ کے فرائض میں شامل ہے ۔ اپنی ذمہ داریاں درست طریقے سےادا کریں اور شہریوں کوپینے کے لیے حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق صاف و شفاف پانی فراہم کیا جائے جب کہ فصلوں کی آبیاری کے لیے بھی اقدامات کیے جائیں ۔
اس سے قبل پبلک ہیلتھ انجینئرنگ کے حکام آلودہ اور مضر صحت پانی کی فراہمی پر دوسرے محکموں کو مؤرد الزام ٹھہراتے ہوئے عوام کو غلط تاثر دیتے رہے ہیں۔جسٹس امیر ہانی مسلم کے ہنگامی دوروں کے بعد ٹائون کمیٹی تلہار اور محکمہ پبلک ہیلتھ کے افسران اور اہلکار چندماہ فعال ہوگئے اور واٹر سپلائی کے پانی میں کچھ بہتری آئی لیکناب کئی ماہ سے تلہار کےشہریوں کو سابقہ صورت حال کا سامنا ہے اور وہ پیاس سے بدحال ہوکر صاف پانی کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے ہیں۔