• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دل نہیں چاہتا کہ خواب پیوندِ خاک ہوں، جب امیدیں لحد میں اتارنی پڑ جائیں تو یہ عالم توڑ کر رکھ دیتا ہے۔ اوپر سے ان دنوں زبان کی ’’پھسلا پھسلی‘‘ کسی نفسا نفسی سے کم منظر نامہ نہیں۔ بہرحال حکمرانی ہو کہ لیڈری یہ زبان سے شروع ہوتی ہے اور زبان پر ختم۔ ان دنوں سیاست کے چلن اور زبان کے پھسلنے کا جو حال ہے اگر مزید ایسا ہی رہا تو اور کچھ ہو نہ ہو جمہوریت کی مزید بے توقیری ضرور ہو جائے گی۔ اب یہ عہد حاضر کے سیاستدانوں پر منحصر ہے کہ وہ زبان کی حالیہ ’’پھسلن‘‘ کو تقویت بخش کر اپنی کریڈیبلٹی اور جمہوری ارتقاء کو زنگ آلود کرنا چاہتے ہیں یا جمہوریت کا راستہ ہموار کرنا چاہتے ہیں۔ یاد رہے کہ جو حسن جمہوریت اور پارلیمانی نظام میں ہے وہ کسی اور سسٹم میں نہیں۔ صدارتی نظام پر بحث والے تسلی رکھیں یہ بات بھی سامنے آچکی کہ سپریم کورٹ کے فیصلے صدارتی نظام کی راہ میں رکاوٹ ہیں، گویا پارلیمانی نظام پارلیمنٹ بھی ختم یا تبدیل نہیں کر سکتی! سمجھ میں آجانے والی یا نہ آنے والی درج بالا بات کے اختصار ہی کو سردست تفصیل جانئے، اور آج اس موضوع سے بہر کیف اجتناب ہے کہ زبانوں کے پھسلنے کے اس دور میں بلاول بھٹو زرداری نے اپنے آپ کو باقاعدہ اپوزیشن لیڈر منوا لیا۔

خود پیپلز پارٹی ہی نہیں ن لیگ اور جمعیت علمائے اسلام تک نے بلاول بھٹو زرداری کی اسمبلی تقاریر اور پریس کانفرنسوں کو قابل توجہ اور قابل غور قرار دیا ہے۔ اوپر سے سربراہ حکومت اسمبلی میں آکر جواب دینے کی فرصت رکھیں نہ رکھیں مگر وہ اپنے جلسوں میں جواب اور ’’خراج تحسین‘‘ دیئے بغیر نہیں رہ سکے۔ نیا پاکستان کے ان 9ماہ میں کسی اور نے اپنا لوہا منوایا ہے یا نہیں،بلاول بھٹو زرداری نے ضرور منوایا ہے !لوہا منوانے کی جدوجہد میں ایک رعنائی اور ایک امید نے پھر جنم لیا ہے، حکمرانوں کی جانب سے دو نئی باتیں سامنے آئی ہیں،اول، وزیراعظم عمران خان نے چین جانے سے قبل فرمایا تھا کہ ہم پاکستان کو ریاست مدینہ کے اصولوں پر تشکیل دینے کے حتمی مرحلے میں داخل ہو چکے ہیں۔ دوم، نیب قانون بدلنے پر اتفاق ہوا ہے۔ اس حوالے سے حکومت اور اپوزیشن کی مجوزہ ترامیم سامنے آئی ہیں۔ فریقین میں رابطے کا در وا ہوا ہے، اور نیب اصلاحات کا بل لانے کا اصولی فیصلہ سامنے آیا ہے۔

معیشت کی ہچکولے کھاتی کشتی کو گرداب سے نکالنا بہت ضروری ہوگیا ہے کیونکہ خبریں اور اطلاعات بہت دلخراش ہیں۔ ضروری ہے کہ پارلیمان کے اندر ’’صاحبہ‘‘ اور ’’سلیکٹد وزیراعظم‘‘ جیسی اصطلاحوں کی بازگشت کو روکا جائے تاکہ عوام کے دم توڑتے خوابوں کو تعبیر ملے، ورنہ اپوزیشن اور حکومت کی ان اصطلاحوں سے عوام کو کچھ ملنے والا نہیں اور حکومت وہ مارکیٹنگ ترک کردے جو قبل از انتخابات سر بازار لائی گئی۔ اب کچھ کر کے دکھایا جائے۔ حکومت اپنے وعدوں اور دعوئوں کو عملی جامہ پہنائے ورنہ عوامی تکیہ اور اعتبار مزید نیست و نابود ہوتے چلے جائیں گے۔ ایکسپورٹس وانٹڈ نامی رپورٹ سامنے آئی ہے جو کہتی ہے، اس مالیاتی سال کے دوران پاکستان میں مہنگائی میں 7.1فیصد اضافہ ہوگا، اور اگلے سال تک یہ اضافہ 13.5 فیصد تک پہنچ جائے گا۔

ورلڈ بینک کی حالیہ رپورٹ روشنی ڈالتی ہے کہ پاکستان کا قومی قرضہ 2018 کے آخر تک مجموعی ملکی پیداوار کا 73.2 فیصد بن چکا تھا۔ جو2019 میں 17 سالہ اونچے ترین 82.3 فیصد تک تجاوز کرتا دکھائی دے رہا ہے۔ اسی طرح آئی ایم ایف سے بھی بہت خوف آرہا ہے تاہم وزیر اعظم عمران خان ان دنوں بیجنگ کے دورہ پر ہیں۔ جہاں انہوں نے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو فورم میں دنیا کے 40 ممالک کے سربراہوں کے سامنے اپنی گفتگو بھی رکھی، عمران خان کی ورلڈ بینک کی سربراہ اور آئی ایم ایف کی ایم ڈی سے ملاقات کس قدر نتیجہ خیز رہی اس کا پوری طرح سامنے آنا ابھی باقی ہے، تاہم اس موقع پر کرپشن کے خاتمہ پر پاک چین اتفاق قابل تعریف ہے، اب دیکھنا یہ ہے اس موقع کے عمرانی پانچ نکات کتنے سود مند ہوتے ہیں لیکن آئی ایم ایف شرائط رکھ کر پاکستان کو اپنی کرنسی کی قدر میں کمی کرنے پر مجبور کرتی ہے تو روز مرہ کی اشیا کی قیمتیں مزید بڑھ جائیں گی اور یہ بھی کہ اگر یہ حکومت سے شرح سود بھی زیادہ کروا نے میں کامیاب ہوگئی (یہ پہلےہی10.75 فیصد ہے)تو سرمایہ کاری رک جائے گی۔

المختصر، سیاسی زبان اور معاشی زبان کو ملا کر دیکھیں تو دونوں زبانوں کے حالیہ حالات بہت پتلے ہیں۔ سیاستدان اپنی سیاسی زبان کی ’’خطرناکی‘‘ تو خیر خود دیکھیں کیونکہ سبھی قائدین کہلانا پسند کرتے ہیں سو ہم کچھ کہیں گے تو شکایت ہوگی۔ رہی بات معاشی زبان کی ’’ہولناکی‘‘ کی تو اسے دیکھنا ڈاکٹر حفیظ شیخ کا فرض ہوچکا۔ اور جس ریاست مدینہ کے حوالے سے عمران خان نے پھر نوید سنائی ہے کہ ہم پاکستان کو ریاست مدینہ کے اصولوں پر تشکیل دینے کے حتمی مرحلے میں داخل ہو چکے ہیں۔ اس منزل کے قریب پہنچنے کیلئے معاشی و سیاسی زبانوں کی ہموار گزرگاہ بہرحال درکار ہے، اور جو زبان دی جاچکی ہے اس کی پاسداری بھی ضروری ہے ، محض ہوا میں تیر چلانا کافی نہیں۔ اسی طرح وہ جو معاملہ نیب قانون میں ترمیم والا ہے اس میں بھی حکومتی دیانت داری اور اپوزیشن کی ریاستی وفاداری جب تک ایک صفحہ پر نہیں ہوں گے تب تک بات بنے گی نہیں۔

احتساب سب کا ہونا اور غیر سیاسی ہونا ضروری ہے بصورت دیگر سب بےکار۔ پس نیب کو جدتیں لانی چاہئیں، روایتی پولیس والا کردار ادا کیا تو کیا کیا ؟ علاوہ بریں پارلیمنٹ کا قد بھی اسی طرح ہی اونچا ہوگا کہ زبان و بیان درست ہو اور جو زبان دی جائے پھر اس پر پہرہ دیا جائے۔ ریاست مدینہ اور نیب کے غیر سیاسی کردار کی زبان جو جو بھی دے وہ یاد رکھے کہ عمل سے زندگی بنتی ہے۔۔۔ ! خیر

کون دل کی زباں سمجھتا ہے

دل مگر یہ کہاں سمجھتا ہے

تازہ ترین