• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کلینکس اور ڈسپنسریوں میں انجکشن لگانے پرپابندی کا مطالبہ

ملک کے نامور فارماسسٹس نے چھوٹے کلینکس اور ڈسپنسریوں میں انجکشن لگانے پرفوری طور پرپابندی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کلینکس اورڈسپنسریوں میں لگائے جانے والے 99فیصد انجکشن غیر ضروری ہوتے ہیں۔

ملک میں ایڈز ، ہیپاٹائٹس بی اور سی پھیلانے کا ایک اہم سبب سرنجز کا دوبارہ استعمال ہے، حکومت کو فوری طور پر دوبارہ استعمال نہ ہونے والی سرنجز متعارف کروانا چاہئیں۔

سندھ ہیلتھ کیئر کمیشن اور اسپتالوں میں فارماسسٹس بھرتی کیے جانے چاہئیں تاکہ دوائوں کے غلط استعمال سے ہونے والی اموات اورنقصانات سے بچا جا سکے ،بے بی نشوہ جیسی کئی بچیاں اور سینکڑوں مریض روزانہ دوائوں کے غلط استعمال سے جاں بحق ہوجاتے ہیں۔

ان خیالات کا اظہار پاکستان سوسائٹی آف ہیلتھ سسٹم فارماسسٹس کے سی ای او عبدالطیف شیخ نے کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پرپی ایس ایچ پی کی سیکریٹری مالیات عمیمہ مزمل، یاسر ہاشمی،عمر علی خان اور دیگر موجود تھے۔

پی ایس ایچ پی کے سی ای اوعبدالطیف شیخ کاکہنا تھا کہ بے بی نشوہ کی موت کی وجہ ایک جان بچانے والی دوائی کا غلط طریقے سے استعمال تھا، اسے وہ دوا اگر ڈرپ کے ذریعے دی جاتی تو وہ صحتیاب ہو سکتی تھی۔

اس طرح کی غلطیاں روزانہ سینکڑوں مریضوں کی زندگیوں کے چراغ گل کردیتی ہیں، اسپتالوں میں اگر ماہر فارماسسٹس موجود ہوں تو اس طرح کی غلطیوں سے بچا جا سکتا ہے،انہوں نے کہا کہ لاڑکانہ میں پھیلنے والی ایچ آئی وی ایڈز کی وباکے حوالے سے انہوں نے کہا کہ سرنجز کا دوبارہ استعمال ناصرف ایچ آئی وی ایڈز اور ہیپاٹائٹس بی اور سی کا سبب بن رہا ہے۔

حکومت کو چاہیے کہ وہ دوبارہ استعمال نہ کی جانے والی سرنجز متعار ف کرائے تاکہ اس طرح بیماریوں سے بچا جا سکے،شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے تاکہ عوام غیر ضروری طور پر ڈرپ اورانجکشنزلگوانے پر اصرار نہ کریں۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ہر سال ساڑھے پانچ سو سے لے کر چھے سو ارب روپے کی سالانہ ادویات تقسیم ہوتی ہیں،بدقسمتی سے ان دوائوں کی مانیٹرنگ ،سپلائی ، اسٹوریج کا کوئی نظام موجود نہیں ہے۔

پاکستان میں ادویات چاکلیٹ اورٹافیوں کی طرح خریدی اور کھائی جاتی ہیں،اب اس سلسلے کو بند ہوجانا چاہیے اور اس سلسلے میں حکومت کو اپنا کردار دادا کرنا ہوگا، انہوں نے کہا کہ دوائوں کے ازخود استعمال کو ترک کرنا ہوگاکیوں کہ ہماری قوم کو یہ علم ہی نہیں کہ دوائیاں کس طرح، کتنی مقدار اور کن حالات میں استعمال کرنا ہیں۔

پاکستان میں ابھی بھی سینکڑوں ملتے جلتے ناموں اور ایک جیسی دکھنے والی ادویات بنائی اورفروخت کی جا رہی ہیں ۔ جس کی وجہ سے دوائوں کے غلط استعمال اور ناقابل تلافی نقصان کے واقعات کئی گنا بڑھ چکے ہیں، انہوں نے اس امر پر افسوس کا اظہار کیاکہ کوئی فارماسسٹس موجود نہیں جو کمیشن کو دوائوں کے درست استعمال اور اسپتالوں میں دوائوں کی مریضوں کو درست فراہمی کے لیے رہنمائی کر سکے۔

انہوں نے کہا کہ وہ جلد سندھ ہیلتھ کیئرکمیشن سے رابطہ کریں گے ۔ تاکہ کمیشن کی مدد سے ادویات کے غلط استعمال  کو کم سے کم کیا جائے ۔ ان کا کہنا تھاکہ ہر ایسے واقعے کے بعد چند ڈاکٹروں ،نرسوں اور پیرامیڈیکس کو برطرف کردیا جاتا ہے،کچھ کو جیل بھیج دیا جاتا ہے،جوکہ مسئلے کا حل نہیں ۔

ہمیں ایسا نظام بنانا ہوگاتاکہ اس طرح کی غلطیوں سے بچا جا سکے ۔ معروف فارما سسٹس عمیمہ مزمل کا کہنا تھا کہ حکومت کو دوائوں کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں اور اس سلسلے میں ایک آگاہی مہم شروع کرنی چاہیے تاکہ لوگوں کو دوائوں کے غلط استعمال سے متعلق آگہی دی جا کسے ۔

ان کا کہنا تھا کہ ٹیکنالوجی کا استعمال کرکے میڈیکیشن ایررز کو کم کیا جا سکتا ہےاور اس کے نتیجے میں ہونے والی اموات سے بچا جا سکتا ہے، انہوں نے اس موقع پر سندھ ہیلتھ کیئرکمیشن سے درخواست کی کہ وہ اپنا کردار اداکرے پاکستان سوسائٹی آف ہیلتھ سسٹم فارماسسٹس ان کی ہرممکن مدد کو تیار ہے۔

پی ایس ایچ پی کے رکن یاسر ہاشمی کا کہنا تھا کہ پاکستان میں دوائوں سے ہونے والی اموات کا کوئی قابل اعتماد ڈیٹا موجود نہیں اور بغیر درست اعدادوشمار کے کسی بھی طرح کی پالیسی بنانا ممکن نہیں۔ ہمیں فوری طور پر ایک سسٹم بناکر دوائوں کے استعمال سے ہونے والے نقصانات، اموات اور ری ایکشنز کا ڈیٹا جمع کرنا ہوگا،جس کی بدولت دوائوں کے غلط استعمال سے بچا جا سکے گا اور اموات میں کمی لائی جا سکے گی ۔

تازہ ترین