• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فرات کے ساحل سے بہت دور، اسلام آباد کے ایوان اقتدار کے سائے میں، انقلاب کے ایک قافلے نے پڑاؤ ڈالا، عزم اور استقامت کا پرچم لہرایا۔ پھر مفاہمت کے سونامی نے سارے منظر کو تبدیل کر دیا اور جمعہ کی صبح، جب میں یہ لفظ لکھ رہا ہوں جناح ایونیو کا وہ منظر ٹیلیویژن پر دکھایا جا رہا ہے کہ جب قافلہ کوچ کر چکا ہے اور دور تک کچرا پھیلا ہوا ہے۔ بارش نے اسے کیچڑ بنادیا ہے۔ میر کارواں ڈاکٹر طاہر القادری بھی اپنے خیمے میں بلکہ ایک قلعہ نما بنکر سے نکل کر کہیں روانہ ہو چکے ہیں ابھی ابھی میں نے خبروں میں یہ دیکھا کہ کیسے انہوں نے بلٹ پروف جیکٹ پہنی اور ان کی عالیشان گاڑی نے محافظوں کے جلو میں، ایک نئے سفر کا آغاز کیا۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ سب کیا تھا۔ حکومت اور ڈاکٹر طاہر القادری کے درمیان جو معاہدے طے پایا اور جسے اسلام آباد لانگ مارچ کے اعلامئے کا عنوان دیا گیا اس سے ہماری سیاست کتنی بدلے گی اور اگر آپ کو سوچنے کی عادت ہے تو شاید آپ یہ بھی سمجھنے کی کوشش کر رہے ہونگے کہ پاکستان کے عوام اور پاکستان کے معاشرے کی تقدیر پر اس احتجاج کا کیا اثر پڑے گا۔ ظاہر ہے کہ اس لانگ مارچ سے دنیا کے بدلنے کی توقع کسی کو نہیں کرنا چاہئے تھی۔ البتہ یہ ماننا پڑے گا کہ یہ لانگ مارچ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایک اہم واقعہ تھا۔ ہم نے ڈاکٹر طاہر القادری اور ان کی تنظیم مہناج القرآن کی غیرمعمولی صلاحیتوں کو آنکھوں سے دیکھا۔ جوش خطابت میں ہر مذہب کے واعظ اپنا ثانی نہیں رکھتے اور ڈاکٹر طاہر القادری تو اس شعبے میں واقعی کمال کرتے ہیں۔ یقین نہیں آتا کہ کیسے خواتین نے، اپنے ننھے بچوں کے ساتھ، اس مارچ کی، جسم میں تھرتھری پیدا کرنے والی صعوبتیں برداشت کیں اور اپنے قائد سے وفاداری کے عہد کو نبھایا۔ اس نوعیت کا سیاسی اجتماع ہم نے پہلے نہیں دیکھا تھا۔
پانچ دن کا یہ لانگ مارچ ایک سنسنی خیز فلم کی مانند ہمارے احساسات اور جذبات سے کھیلتا رہا۔ جمعرات کی شام ایک ایسا کلائمکس تیار تھا کہ لوگ اپنی اپنی نشستوں پر آگے سرک کر بیٹھ گئے تھے کہ اب کیا ہو گا۔ خون خرابے اور تشدد کا خوف طاری تھا۔ موسم کی وجہ سے صورتحال نازک سے نازک تر ہوتی جا رہی تھی۔ ان حالات میں جب مذاکرات شروع ہوئے اور دھرنے کی پرامن اور قابل قبول اختتام کے امکانات پیدا ہوئے تو تنے ہوئے اعصاب ڈھیلے پڑگئے پورے ملک نے اطمینان کا سانس لیا۔ کئی مبصر ایسے تھے جنہوں نے فوراً فتح کا نعرہ لگایا کہ جیسے کوئی منزل سر کر لی گئی اور یہ تو ہونا ہی تھا کہ پورے لشکر نے جشن منایا لیکن یہ کسی کو کیا معلوم کہ نشے کا خمار بیشتر شرکاء کیلئے کیسا ہو گا ڈاکٹر طاہر لقادری نے جو باتیں منوالیں کیا ان سے ہماری جمہوریت اور انتخابات کے عمل میں بہتری آئے گی؟ کیا عوام کے مسائل کے حل ہونے کے امکانات پیدا ہو رہے ہیں؟ یہ سب سوچنے کی باتیں ہیں۔ میں ذاتی طور پر پرامید نہیں ہوں۔ حالات بہتر ہونے سے پہلے بگڑ بھی سکتے ہیں۔ اب یہ دیکھئے کہ جب اسلام آباد میں مذاکرات کی میز سج رہی تھی تو کراچی میں کیا ہوا۔ متحدہ کے رکن سندھ اسمبلی منظر امام اپنے ڈرائیور اور دو محافظوں سمیت ایک ایسے حملے میں جاں بحق ہو گئے جس کی ذمہ داری طالبان نے قبول کر لی۔ فوراً ہی شہر کی زندگی مفلوج ہو گئی۔ بازار بند ہو گئے۔ جمعہ کی ہڑتال کا فیصلہ کر لیا گیا تین دن کے سوگ کا اعلان ہوا۔ آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ کراچی کے سانحے نے ہمیں خبردار کر دیا کہ جمہوریت اور انتخابات کے مسائل سے آگے مقامات آہ وفغاں اور بھی ہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ کن مسائل کا شکار ہے۔ ”دی اکانومسٹ“ کے خصوصی لائسنس کے تحت ”جنگ“ نے کیسا ہو گا 2013ء شائع کیا ہے اور اس کے پاکستانی سیکشن کیلئے میں نے اپنے معاشرے کے بارے میں مضمون لکھا ہے۔ گویا یہ سمجھنے کی کوشش کی ہے کہ اس سال ہمارے معاشرے کی صورتحال کیا ہو سکتی ہے اس مضمون کی سرخی کیلئے میں نے فیض کا یہ مصرع ادھار لیا ہے کہ ”ہاں تلخی ایام ابھی اور بڑھے گی۔“ نئے سال کے شروع ہونے کے بعد اس مہینے کے پہلے اٹھارہ دنوں میں جو واقعات ہوئے ہیں ان سے میرے خدشات میں کوئی کمی واقع نہیں ہو ئی اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جو کچھ ہو رہا ہے اس کی واضح پیش بینی کی جا سکتی تھی ایسے لوگ ہوتے ہوں شاید جو دیواروں پر لکھی تحریریں پڑھ لیتے ہیں لیکن ہمارا معاشرہ کس طرح تبدیل ہو رہا ہے اس کا جاننا اس لئے مشکل ہے کہ انتخابی سیاست ضرور عام لوگوں کی خواہشات اور مطالبات کو ہوا دے گی اور جن تضادات نے ہمیں ذہنی طور پر بے اختیاری کی کیفیت سے دوچار کر دیا ہے وہ گہرے ہوتے جائیں گے۔ دہشت گردی اور انتہا پسندی کی قوتیں اپنا کھیل کھیلتی رہیں گی۔ ہماری فکری، تعلیمی اور اخلاقی پسماندگی کا اثر ہمارے اجتماعی عمل اور کردار پر پڑتا رہے گا۔
کیونکہ ہمارا ذہن تازہ سرخیوں کی گرفت میں رہتا ہے اس لئے لانگ مارچ کو اس سال کا اب تک کا سب سے اہم واقعہ سمجھا جائے گا۔ میرا خیال ہے کہ کوئٹہ کا واقعہ کہیں زیادہ حیرت انگیز اور معنی خیز تھا جس طرح ہزارہ برادری کے افراد نے اپنی 80 سے زیادہ میتوں کے ساتھ احتجاج کیا اور اس احتجاج نے جس طرح پورے ملک کے حساس لوگوں کو تڑپا دیا اس کی کوئی اور مثال میرے علم میں نہیں ہے۔ لانگ مارچ کے شرکاء نے اسلام آباد کی سردی جھیلی اور بارش بھی برسی۔ لیکن اس کا کوئٹہ کے جان لیوا موسم سے کیا مقابلہ۔ میری تو یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ اس احتجاج کے پہلے ہی دن ابتدائی چند گھنٹوں ہی میں اس ملک کی حکومت ہل کیوں نہیں گئی۔ اس ملک کا ضمیر کیوں جاگ نہ اٹھا۔ آپ چاہیں تو اسے میری جذباتی اور اعصابی کمزوری سمجھیں لیکن میں اس بات کا اقرار کرتا ہوں کہ میرے آنسو نکل آئے۔ میں سو نہ سکا۔ حکومت نے ضرورت سے زیادہ وقت لگایا مگر وزیراعظم کو کوئٹہ جانا پڑا۔ یہ تب ہوا جب پورے ملک میں جگہ جگہ احتجاج کا آغاز ہوا اور دھرنوں نے معمول کی زندگی کو مفلوج کر دیا ان دھرنوں میں شیعہ فرقے کے افراد کے علاوہ کئی سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی کے جاگے ہوئے لوگوں نے شرکت کی۔ جسے ہم سوشل میڈیا کہتے ہیں اس کا اس عوامی ردعمل میں ایک اہم کردار تھا۔ ہم سب بجا طور پر یہ شکایت کرتے رہے ہیں کہ ہمارا معاشرہ بے حس ہو گیا ہے کسی ظلم پر آواز بلند نہیں کرتا۔ دہشت گردی اور فرقہ وارانہ دہشت گردی کے واقعات تواتر سے ہوتے رہتے ہیں اور لوگ خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں۔ کوئٹہ میں گزشتہ ہفتے کی جمعرات کو بم کے دھماکے ہوئے وہ بھی ہمارا خوابیدہ ضمیر کو جگا نہ پاتے اگر ہزارہ برادری کا اتنا پرعزم اور بے مثل احتجاج ظہور میں نہ آتا۔ اب بھی جب ان بچوں اور خواتین کے چہرے یاد آتے ہیں جو اپنے پیاروں کی میتوں کے ساتھ نقطہ انجماد سے کئی ڈگری نیچے کے درجہ حرارت میں سڑک پر خاموشی سے بیٹھے تھے تو دل ڈوبنے لگتا ہے وقت کی نظروں میں ایسے مناظر کتنے کم آئے ہوں گے بہرحال پورے ملک میں بیداری کی ایک شمع ضرور روشن ہوئی کیا یہ کسی اہم تبدیلی کا آغاز ہے؟ مجھے نہیں معلوم البتہ اس واقعے کا لانگ مارچ سے موازنہ غور کے قابل ہے۔ لانگ مارچ میں جو لوگ آئے وہ ڈاکٹر طاہر القادری کی کرشمہ ساز قیادت کے اسیر تھے۔ منہاج القرآن کی تنظیمی مشینری حرکت میں تھی اس لانگ مارچ کی کامیابی کا اگر کوئی پیمانہ ہو سکتا تھا تو یہ کہ عام لوگ کثیر تعداد میں اس میں شامل ہو جاتے اور ڈاکٹر طاہر القادری کی یہ کمزوری عیاں نہ ہوتی کہ انہیں ہزاروں اور لاکھوں کے فرق کا کوئی علم نہیں۔ انقلابات کی جو تاریخ ہم نے پڑھی ہے اس میں سماجی تبدیلی کا عمل عوام کی بغاوت سے شروع ہوتا ہے جیسے آسمانوں سے آواز آئے کہ اٹھو وگرنہ حشر نہیں ہو گا پھر کبھی ایسا نہیں ہوا۔ مذہبی استعاروں سے آراستہ شعلہ بیانی نے بھی کوئی کمال نہیں دکھایا تو اس سے ہم کیا نتیجہ نکالیں؟ کوئٹہ کے سانحے نے جس جگن کا اشارہ دیا تھا وہ کسی تحریک کا حصہ بن سکتی ہے؟ کچھ بھی ہو۔ اس حقیقت سے تو کسی کو انکار نہیں ہو سکتا کہ لوگ پریشان ہیں۔ ایک ہیجان میں مبتلا ہیں۔ امن وامان کی صورتحال انتہائی تشویشناک ہے۔ جمہوریت کے بارے میں عوام کے خیالات الجھتے جا رہے ہیں۔ ممکن ہے کہ تازہ ترین واقعات کی روشنی میں، شفاف اور منصفانہ انتخابات کی امیدیں بڑھ گئی ہوں۔ مگر دل پھر بھی ڈرتا ہے جہاں تک مجھے یاد ہے یہ احمد ندیم قاسمی کا شعر ہے کہ
تری محبت پہ بھی یقین ہے، تری وفا کو بھی مانتا ہوں
مگر مرا دل دھڑک رہا ہے میں اپنی قسمت کو جانتا ہوں
تازہ ترین