• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کیا پاکستان سیاسی قیادت کے بحران کی جانب بڑھ رہا ہے ؟ اس سوال پر اگرچہ بہت پہلے سے دانشورانہ مباحثہ جاری ہے لیکن پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہباز شریف کی طرف سے اپنی بعض پارلیمانی ذمہ داریوں سے دستبرداری کے اعلان کے بعد یہ سوال زیادہ مناسب اور متعلقہ ( Relevant ) بن گیا ہے ۔ خاص طور پر بدلتے ہوئے عالمی اور علاقائی حالات میں یہ سوال زیادہ اہم ہو گیا ہے ۔ کافی عرصے سے یہ بات سینہ بہ سینہ چل رہی تھی کہ پاکستان کو پرانی سیاسی قیادت سے جلد نجات حاصل ہو جائے گی اور خاص طور پر پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں پر ’’ مائنس ون ‘‘ یا ’’ مائنس ٹو ‘‘ کے فارمولے کا اطلاق کرکے ان سیاسی جماعتوں کی تطہیر کر دی جائے گی ۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سابق سربراہ اور سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کا سیاسی کیریئر بظاہر ختم ہو گیا ہے ۔ انہیں پاکستان کی سیاست میں اپنا پہلے والا سیاسی کردار بحال کرنے کے لیے طویل قانونی جنگ لڑنا پڑے گی ۔ ان کے ساتھ ان کی صحت کے مسائل بھی ہیں ۔ ان کے بعد مسلم لیگ (ن) جیسی بڑی سیاسی جماعت کے لوگوں نے میاں شہباز شریف سے امیدیں وابستہ کر لی تھیں ۔ میاں شہباز شریف بھی مقدمات کے جال میں پھنس گئے ہیں ۔ علاج کے لیے لندن جانے اور وہاں قیام میں توسیع کرنے کو اس جال سے نکلنے کی کوشش سے تعبیر کیا جا سکتا ہے یا نہیں ؟ مگر یہ حقیقت ہے کہ میاں شہباز شریف نے قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی ( پی اے سی ) کے چیئرمین کے عہدے سے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا ۔ اس عہدے کا حصول ان کی سب سے بڑی سیاسی کامیابی تصور کیا جا رہا تھا ۔ انہوں نے قومی اسمبلی میں اپنی پارٹی کے پارلیمانی لیڈر کی ذمہ داریوں سے بھی دستبردار ہونے کا اعلان کیا ہے ۔ اگرچہ وہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کے عہدے پر تادم تحریر برقرار ہیں لیکن کچھ حلقے یہ پیش گوئی بھی کر رہے ہیں کہ میاں شہباز شریف یہ عہدہ بھی چھوڑ دیں گے ۔ ابھی تک مسلم لیگ (ن) کے صدر کی حیثیت سے بھی وہ اپنی ذمہ داری سے دستبردار نہیں ہوئے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر انہیں طویل عرصے تک لندن قیام نہیں کرنا تو انہوں نے پی اے سی کے چیئرمین اور پارلیمانی لیڈر کے عہدوں سے دستبرداری کا اعلان کیوں کیا ؟ اگر ان دونوں عہدوں کے غیر فعال ہونے کے خدشے کے پیش نظر انہوں نے یہ فیصلہ کیا ہے تو کیا اپوزیشن لیڈر اور پارٹی صدر کے عہدے اہم نہیں ہیں ؟ یوں محسوس ہو رہا ہے کہ مرحلہ وار وہ بھی میاں نواز شریف بننے جا رہے ہیں ۔ ان کے صاحبزادے میاں حمزہ شریف بھی مقدمات میں الجھے ہوئے ہیں ۔ اب مسلم لیگ (ن) کے لوگوں کی ساری امیدیں مریم نواز سے ہیں ۔ دوسری طرف پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز کے صدر اور سابق صدر مملکت آصف علی زرداری کے گرد بھی گھیرا تنگ ہو رہا ہے ۔ ان کا سیاسی کردار بھی بہت حد تک محدود ہو رہا ہے اور بلاول بھٹو زرداری زیادہ تر پارٹی معاملات اپنے ہاتھ میں لے چکے ہیں ۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے بعد پاکستان تحریک انصاف ایک ایسی سیاسی جماعت ہے ، جو ایک وفاقی سطح کی جماعت کہلائی جا سکتی ہے ۔ ملک میں کوئی چوتھی سیاسی جماعت ایسی نہیں ہے ، جو ایک سیاسی ادارے کے طور پر وفاق کو جوڑے رکھے ۔ اس وقت ملک میں وزیر اعظم عمران خان ، مریم نواز اور بلاول بھٹو زرداری ایسے رہنما ہیں ، جن پر پاکستان انحصار کر سکتا ہے اور پاکستان اس وقت اپنی تاریخ کے انتہائی مشکل وقت سے گزر رہا ہے ۔ ہماری سیاسی تاریخ میں دو مرتبہ سیاسی قیادت کا بہت بڑا بحران پیدا ہوا اور اس بحران سے ملک کو زبردست نقصان بھی ہوا ۔ ایک مرتبہ جب قائد اعظم محمد علی جناح کی رحلت ہوئی اور دوسری مرتبہ جب ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی گئی ۔ قائد اعظم کی رحلت کے بعد بھی سیاسی قیادت موجود تھی ، جو تحریک پاکستان سے بنی تھی ۔ پھر دنیا بھر میں قومی آزادی اور جمہوری تحریکوں نے اس قیادت کو مزید پختہ کیا ۔ اگرچہ پاکستان میں اس قیادت کو ابھرنے نہ دیا گیا اور قائد اعظم کے قد کا کوئی لیڈر نہ بننے دیا گیا لیکن اس قیادت نے پاکستان میں سیاسی اور جمہوری تحریکیں چلائیں اور پاکستان کی سیاسی سمت متعین کی ۔ اس کے نتیجے میں پاکستان کو بھٹو کی شکل میں قد آور لیڈر میسر آگیا ۔ بھٹو کے بعد اس خلاکو محترمہ بے نظیر بھٹو نے پر کیا اور جمہوری تحریکوں میں شامل دیگر قد آور سیاسی شخصیات نے ان کی پشت پناہی کی ۔ آج پاکستان میں سیاسی قیادت کا بحران بہت زیادہ سنگین ہے ۔ بلاول بھٹو زرداری اور مریم نواز کو ابھی کچھ وقت درکار ہے کہ سیاسی معاملات ان کی گرفت میں آجائیں ۔ اس عرصے میں پاکستان امکانی طور پر بڑے سیاسی اتار چڑھاؤ کا شکار ہو سکتا ہے ۔ نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں کوئی بڑی سیاسی تحریکیں نہیں ہیں ۔ سوائے اس کے کہ چین کے بڑھتے ہوئے عالمی کردار کی وجہ سے دنیا میں نئی صف بندی ہو رہی ہے اور اس صف بندی میں پاکستان کوئی فیصلہ نہیں کر پایا ہے کہ وہ کہاں کھڑا ہو گا کیونکہ فیصلہ نہ کرنا پاکستان کے کچھ حلقوں کے مفاد میں ہے اور وہ اپنی بارگیننگ پوزیشن کو انجوائے کر رہے ہیں ۔دنیا جانتی ہے کہ وزیر اعظم عمران خان پاکستان کی کسی مزاحمتی تحریک سے نکل کر نہیں آئے۔ ان کی پشت پناہی میں کوئی بڑی سیاسی تحریک بھی نہیں ہے اور نہ ہی بنیادی دھارے کی سیاسی قیادت ان کے ساتھ ہے ۔ وہ پہلے والی ساری سیاست کو کرپٹ کہہ کر مسترد کرتے ہیں اور ان کے اس نعرے نے پاکستان میں سیاست کو نہ صرف کمزور کیا ہے بلکہ سیاسی پولرائزیشن میں اضافہ کیا ہے ۔ دنیا ان حقائق کو مدنظر رکھ کر پاکستان کی سیاسی قیادت کو ڈیل کر رہی ہے ۔ فی الحال پاکستان میں کوئی ایسا بڑا اور قد آور سیاسی لیڈر نہیں ہے ، جس کے بارے میں دنیا کو یہ احساس ہو کہ اپنے ملک میں وہ سیاسی طور پر بہت مضبوط ہے اور اس کا خمیر مزاحمتی تحریکوں سے اٹھا ہے ۔

تازہ ترین