• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج کی دنیا میں ہم مسلمانوں کے متعلق مجموعی تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ ہم ’حقائق‘ کو اتنا اہم خیال نہیں کرتے جتنی اہمیت ’جذبات‘ کو دیتے ہیں۔ محض جذبے کے بل بوتے پر ہم ممولے کو شہباز سے لڑا دیتے ہیں اور فتح یقینی خیال کرتے ہیں۔ ہمارے کئی مفکرین اپنی معصوم اور تکنیکی وسائل کے لحاظ سے بے دست وپا قوم کو اِس بات کا برسوں درس دیتے رہے ہیں کہ دین کی دعوت کو لے کر اٹھو اور پوری دنیا پر چھا جائو۔ اِس ’’چھا جانے‘‘ کی خواہش سے کیا کیا اثرات مرتب ہوں گے، وسائل اور ٹیکنالوجی سے مالا مال دنیا جواباً ہمارے ساتھ کیا سلوک کرے گی؟ اِس سے اُنہیں کوئی غرض نہیں۔ وہ تو مغربی تہذیب کو نیویارک، واشنگٹن اور لندن میں لرزہ براندام کر کے اِس کے تباہ و برباد ہونے کے خواب دیکھتے اور دکھاتے رہے ہیں۔ اب اُس خواب کی تعبیر اگر ہم عامۃ المسلمین پر شاق گزر رہی ہے تو اُنہیں کیا۔ اِس سوچ کے زیرِ اثر اپنے جس بھائی سے بھی بات کریں، وہ جھٹ سے یہ شعر سنانے لگتا ہے

کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ

مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی

دراصل شاعری میں اُلجھن یہ ہوتی ہے کہ اُس میں اگر مبالغہ آرائی کو نہ بھی لیا جائے پھر بھی بہت سی باتیں تمثیل یا استعارہ کی زبان میں کہی جاتی ہیں مگر عامۃ الناس اُس کو ہو بہو لفظاً لے لیتے ہیں، جس سے کئی مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔ ظاہر ہے اِس شعر سے حضرت علامہؒ کا واضح مقصد تو یہ تھا کہ مومن کو سچے عزم سے کام لے کر جدوجہد کرنا چاہئے اور وسائل کی کمیابی کو اپنے راستے کی رکاوٹ نہیں بننے دینا چاہئے لیکن اگر کوئی مومن فی الواقع کسی شمشیر زن کافر سے لڑنے کیلئے نہتا چلا جائے اور اس لڑائی میں اپنی گردن تڑوا لے تو یوں گردن تڑوانا اقبال کا مقصد نہیں ہے۔ اگر لفظی لحاظ سے دیکھا جائے تو ایسی صورت میں کافر سمجھدار اور مومن بیوقوف لگتا ہے لیکن اِس کے باوجود ہمارے روایت پسند تقاریر میں فرماتے چلے جا رہے ہیں کہ ’’مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی‘‘۔

سوال یہ ہے کہ آخر کب تک؟ جواب ملتا ہے ’’جب تک جان میں جان ہے‘‘ اور اُس کے بعد؟ اُس کے بعد ’’شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن‘‘ لیکن شہادت کیلئے بھی تو مومن کو شہرت و جاہ پسندی کی جگہ بے غرضی و بے نفسی کو اپنے عمل سے ثابت کرنا شرط لازم ہے۔ جو دین برگزیدہ ہستی بننے کے شوقین نمازی کے سجدے، رکوع یا قیام کے دکھاوے والے طول کو بھی سراسر رد کرتا ہو اور بحوالہ بخاری و مسلم ایسے ریاکار کے حق میں جہنم کا فیصلہ صادر کرتا ہو جس کی شہادت میں دنیاوی شہرت کی غرض و خواہش موجود ہو، وہ ایسی ’’خدمات‘‘ کو کیسے قبول کر سکتا ہے جن میں دین کا استعمال کیا گیا ہو؟ دین کے نام پر اپنی شخصیت، ناموری اور شہرت کی نمائش کی جاتی ہو؟ اگر شہادت فی نفسہٖ مطلوب و مقصود ہوتی تو میدانِ بدر میں یہ مقصد فوری حاصل کیا جا سکتا تھا لیکن آنحضرتﷺ نے فتح کیلئے کوشش کی اور اِس آرزو میں آپﷺ اتنے بے چین تھے کہ ردائے مبارک گر جاتی تھی۔

دیکھا یہ گیا ہے کہ کسی بھی چیز کا تھوڑا علم اکثر کئی خرابیوں کو جنم دیتا ہے۔ ہم اقبالؒ ہی کو پڑھیں اگر ایک جگہ کسی مسئلے میں اُلجھن پیش آتی ہے تو دیگر کئی مقامات پر اُس کی وضاحت مل جاتی ہے۔ یہ اقبالؒ ہی ہیں جو اپنی قوم کے جوانوں کو یہ سبق پڑھاتے بھی نظر آتے ہیں کہ اگر آپ کے دل میں اچھائی کیلئے جان دینے کی تڑپ ہے تو پہلے اپنے پیکر خاکی میں جان پیدا کرو۔ جان ہو گی تو جان دو گے۔ اگر آپ کے پلّے ہی کچھ نہیں ہے تو آپ نے کسی کو کیا دینا ہے۔ یہ اقبالؒ ہی ہیں جو کہتے ہیں کہ

عصا نہ ہو تو کلیمی ہے کارِ بے بنیاد

کئی حضرات اقبالؒ کے مختلف اشعار کو اٹھا کر جذباتیت کو پروموٹ کرنے کیلئے جس طرح استعمال کرتے ہیں، ہم پورے یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ آج اگر اقبالؒ ہمارے درمیان موجود ہوتے تو اِن اثرات کو دیکھ کر توبہ کر اٹھتے اور جنوں کی بجائے خرد کی دعا مانگتے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین