مولانا ضیاء المحسن طیب…برمنگھم ’’اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں، جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے، تاکہ تم متقی بن جائو‘‘ روزہ کا مقصد مومنوں کو تقویٰ کی راہ پر ڈالنے کا ایک نسخہ ہے۔ تقویٰ کے معنی یہ بیان کئے گئے ہیں کہ انسان کے اندر نیکی کی رغبت اور برائی سے نفرت پیدا ہو۔ روزہ کیا ہے؟ روزہ یہ ہے کہ انسان ارادہ و نیت کے ساتھ ایک خاص وقت سے لے کر ایک خاص وقت تک کھانے پینے اور عورتوں سے ملاقات سے اجتناب کرے۔ کھانے پینے سے انسان کے اندر حیوانی جذبات پیدا ہوتے ہیں، جبکہ بھوکا پیاسا رہنے سے انسان کے اندر ملکوتی صفات پیدا ہوتی ہیں۔ یہ بھی یاد رہے کہ محض بھوکا پیاسا رہنے سے یہ صفات پیدا نہیں ہوتیں بلکہ اس کیلئے نیت و ارادہ بھی لازمی ہے۔ نیت و ارادہ خدا کی خوشنودی اور رضامندی ہو۔ عام بھوک اور پیاس کی وجہ سے انسان کے اندر غصہ اور فسٹریشن پیدا ہوتی ہے، جبکہ روزہ کی وجہ سے انسان اس سے دور رہتا ہے۔ بھوکا اور پیاسا شخص گناہ اور مصیبت سے دور رہتا ہے۔ گناہ اور مصیبت کا خیال پیٹ بھرے شخص کو تو آسکتا ہے، مگر بھوک اور پیاس سے نڈھال شخص کو گناہ کا خیال نہیں آسکتا، بھوک اور پیاس کی شدت اس کے اندر سے وہ طاقت چھین لیتی ہے جو اسے گناہ پر ابھارتی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایسے نوجوانوں کو جو شادی کی طاقت نہیں رکھتے تھے، گناہ سے بچنے کے لئے روزہ رکھنے کا مشورہ دیتے تھے۔روزہ دار شخص کا روزہ کی وجہ سے دل گناہوں کی طرف نہیں بلکہ عبادت کی طرف مائل ہوگا۔ لوگوں کی مدد ان کے ساتھ حسن سلوک کا جذبہ پیدا ہوگا، یہ روزہ ہی کی برکات ہیں کہ رمضان المبارک میں لوگ جوق در جوق مساجد کا رخ کرتے ہیں، مساجد نمازیوں سے بھر جاتی ہیں، روزہ دار صدقہ و خیرات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا ہے، لڑائی جھگڑے سے حتی الوسع پرہیز کرتا ہے، یہ تمام صفات روزہ ہی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں اور یہی مقصود بھی ہے۔رمضان المبارک کے روزے انسان کے لئے ایک کورس اور ٹریننگ ہیں کہ اگر تم نیک بننا چاہتے ہو خدا کے نزدیک ہونا چاہتے ہو تو اپنے آپ کو کھانے پینے سے دور رکھو، اتنا ہی کھائو جتنا آپ کی زندگی کے لئے ضروری ہو۔ نبی کریم ﷺ نے اس کا اہتمام نبوت ملنے سے قبل ہی کردیا تھا۔ آپؐ مکہ سے دور غار حرا کے اندر قیام کرتے، روزہ رکھتے، خدا کی عبادت میں مشغول رہتے، صرف پانی اور تھوڑے سے ستو آپﷺ کے ساتھ ہوتے، کہا جاتا ہے کہ آپؐ چالیس، چالیس روز اس غار کے اندر قیام فرماتے، اپنے آپ کو بھوکا اور پیاسا رکھتے، بھوکا اور پیاسا کا مطلب ہے کہ آپ انتہائی کم کھاتے، کم پیتے، ایک طرح کا روزہ رکھتے، نبوت ملنے کے بعد ہر پیر اور جمعرات کا روزہ رکھتے، اسی طرح رمضان کے علاوہ شعبان کا بھی پورا مہینہ روزہ رکھتے۔ آپﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ حضرت دائود علیہ السلام ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن افطار کرتے، روزہ کے اندر ایک خاص وصف ہے کہ وہ انسان کی حیوانیت سے نکال کر ملکوتیت کی معراج پر پہنچا دیتا ہے۔زیادہ کھانا کسی بھی مذہب اور سوسائٹی میں اچھا نہیں سمجھا گیا، ہمیشہ کم کھانے کو ہی تحسین کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے، کم کھانے سے انسان کی صحت ٹھیک رہتی ہے جبکہ بسیار خوری سے انسان طرح طرح کی بیماریوں کا شکار ہوجاتا ہے۔آج دنیا میں زیادہ کھانے سے لوگ بیمار پڑ گئے ہیں، وزن بڑھ گئے ہیں، شوگر اور دل کے امراض لاحق ہوگئے ہیں، آج طرح طرح کے ڈائٹ پلان بتائے جارہے ہیں کہ کس طرح آپ اپنا وزن کم کرسکتے ہیں اور کس طرح بیماریوں سے بچ سکتے ہیں جبکہ خدا تعالیٰ نے انسانیت کو صحت و تندرست رہنے کیلئے آج سے چودہ سو سال پہلے روزہ کی شکل میں ایک ایسا نسخہ بتا دیا ہے جو انسان کو بیماریوں سے محفوظ رکھتا ہے۔روزہ ہی امیروں اور پیٹ بھروں کو بتاتا ہے کہ فاقہ کیسی اذیت اور بھوک، پیاس کی تکلیف ہوتی ہے، اس وقت اس کو اپنے غریب اور فاقہ سے نڈھال لوگوں کی تکلیف کا احساس ہوتا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ چند نعمتوں سے ان کی تکلیف کو دور کرنا کتنا بڑا ثواب ہے جو خود بھوکا نہ ہو، اس کو بھوک اور جو خود پیاسا نہ ہو، اسے پیاس کی تکلیف کا احساس کیونکر ہوگا، روزہ اسی احساس کو زندہ اور ایثار، رحم اور ہمدردی کے جذبہ کو پیدا کرتا ہے ۔تمام انبیا کرام کے حالات اور زندگیوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان میں سے ہر ایک نے نبوت اور شریعت ملنے سے قبل ایک مدت متعینہ تک ملکوتی زندگی بسر کی، کھانے، پینے اور دیگر بشری ضرورتوں سے حتیٰ الوسع پرہیز کیا، اس طرح انہوں نے اپنی روح کو عالم بالا سے اتصال کے لائق بنایا، یہاں تک کہ وہ خدا سے ہمکلامی سے سرفراز ہوئے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے چالیس روز اسی طرح بسر کئے، تب تورات کی لوحیں ان کے سپرد ہوئیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے بھی چالیس روز اسی طرح گزارے تب حکمت کا سرچشمہ ان کی زبان اور سینہ سے ابلا، حضرت محمد مصطفیﷺ بھی تقریباً چالیس روز غار حرا میں مصروف عبادت رہے، اس کے بعد فیضان الٰہی کا نور اسی غار کے دہانہ سے طلوع ہوا۔روزہ کی فرضیت میں خاص نکتہ! روزہ کی فرضیت میں ایک خاص نکتہ یہ ہے کہ اس میں اس بات کا خاص اشارہ ہے کہ بارہ مہینوں میں ایک مہینہ ہر مسلمان کو اس طرح بسر کرنا چاہئے کہ دن رات میں ایک وقت کھانا کھائے اور ہوسکے تو ایک وقت کا کھانا اپنے فاقہ زدہ بھائیوں کو کھلا دے، ان تمام احکام پر نظر ڈالئے جو فدیہ اور کفارہ سے متعلق ہیں تو معلوم ہوگا ان سب مواقع میں روزہ کا بدل غریبوں کو کھانا کھلانا قرار دیا گیا ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ روزہ اور غریبوں کو کھانا کھلانا یہ دونوں باہم ایک دوسرے کے قائم مقام ہیں۔ ایسے لوگ جو بوڑھے ہوں یا بیمار ہوں، ان کو حکم ہے کہ اس کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلا دیں، حج میں اگر کسی عذر یا بیماری کی وجہ سے احرام کھولنا پڑے تو اس کے بدلے میں بھی صدقہ کرنے کا حکم ہے۔ اگر کوئی شخص اپنی قسم توڑ دے تو اس کے بدلے ہمیں بھی دس مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے، اس طرح بے شمار جگہ محتاجوں اور غربا کو روزہ کے بدلے کھانا کھلانے کا حکم ہے یعنی روزہ کا قائم مقام غریبوں کی دادرسی ہے۔