ہمارے معاشرے میں خواتین ملکی آبادی کا بڑا حصہ ہیں۔ ان کا تعلیم یافتہ ہوناوقت کی سب سے اہم ضرورت ہے۔ پاکستان کا آئین بھی کسی صنفی امتیاز کے بغیر تعلیم کے یکساں مواقع کی ضمانت دیتا ہے تاہم ملک میں بعض مقامی روایات کی بناپر کچھ لوگ خواتین کو تعلیم کی فراہمی سے ہچکچاتے ہیں۔ہمارے مشاہدہ میں آیا ہے کہ جوشادی شدہ جوڑا غیر تعلیم یافتہ ہو گا وہ اپنی نسل کو بھی غیر تعلیم یافتہ رکھنے اور غیر صحت مندانہ زندگی دینے کا سبب بنتا ہے۔ ایسے میں کم عمری کی شادی معاشی، معاشرتی اور سماجی اعتبار سے لاتعداد مسائل کو جنم دیتی ہے۔ حکومت سندھ کی جانب سے کم عمری میں بچیوں کی شادیوں کے بڑھتے ہوئے واقعات کی روک تھام کے لئے 2013 میںصوبائی اسمبلی میں قانون سازی بھی عمل میں لائی گئی، جسے سندھ چائلڈمیرج ایکٹ کا نام دیا گیا ۔ 29اپریل 2019 کو یہ بل سینیٹ میں پیش ہوا جہاںسے منظوری کے بعد کم عمری کی شادی پر پابندی اور سزاؤں سے متعلق بل یکم مئی کو قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا اور اراکین کی منظوری سے اسےقومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کو بھیج دیا گیا ہے۔ا تاہم قوانین بنانے یا بل پاس کرنے سے یہ مسئلہ حل نہیں ہوسکتاجب تک قوانین کا اطلاق نہ ہو۔سندھ میں کم عمری میں شادی کی ممانعت کا بل پاس ہونے کے باوجود اس پرعمل درآمد نہیں کرایا جاسکا ہے۔
ملک کے مختلف حصوں سمیت سندھ میں بھی کم عمری میں بچیوں کی شادی کرانے کی فرسودہ رسم آج بھی رائج ہے، خاص طور پر دیہی و پسماندہ علاقوں میں کم عمری میں شادیاں کرانے کا رجحان کچھ زیادہ ہی ہے جس کی بنیادی وجہ پسماندہ علاقوں کے لوگوں میں شعور و تعلیم کی اہمیت کو اجاگر نہ کرنا ہے، زیادہ تر واقعات میں یہ دیکھا گیا ہے کہ بڑی عمر کا شخص رقم کے عوض چھوٹی عمر کی لڑکی سے شادی کرتا ہے، غربت کے باعث بچی کے والدین رضامندی سے اس بڑی عمر کے شخص سے اپنی کم عمر بچی کی شادی کرادیتے ہیں۔
ایسا ہی ایک واقعہ چند روز قبل شکارپور کے دیہی علاقے’’ ناپر کوٹ ‘‘میں پیش آیا، جہاں 40 سالہ شخص محمد سومر کی 10سالہ ملوکاں سے شادی کرائی جارہی تھی۔ بچی کے والدین نے ایک شخص سےمبینہ طور سے ڈھائی لاکھ روپے کی رقم قرض کی مد میں لی تھی جس کی ادائیگی نہ کرنے کی صورت میں اسے بڑی عمر کے شخص کے ساتھ اپنی بچی کی شادی کرانی پڑی۔ سوشل میڈیا پر بڑی عمر کے شخص کے ساتھ کم عمر بچی کی شادی کی خبریں گردش کرنے لگیں تو ایڈیشنل آئی جی سکھر ریجن ،ڈاکٹر جمیل احمد نے اس کا سختی سے نوٹس لیا۔ فوری طور پر ایس ایس پی شکارپور کو احکامات دیے گئے اور ایک پولیس پارٹی تشکیل دی گئی، جس نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے دولہا اور اس کے ساتھیوں کو گرفتارکرکے مقدمہ درج کرلیا ۔متاثرہ بچی اور اس کی میڈیکل رپورٹ شکارپور کی تحصیل خانپور کی عدالت میں پیش کی گئی۔ عدالت نے بچی کو دارلامان سکھر منتقل کرنے کے احکامات دیے۔ ذرائع کے مطابق بچی کے طبی معائنے کی رپورٹ میںیہ ہولناک انکشاف ہوا کہ 10 سالہ بچی کے ساتھ 4مرتبہ جنسی زیادتی کی گئی ہے۔ عدالت نے میڈیکل رپورٹ کی بنا پر بچی کو پولیس کی تحویل میں دے کردارلامان سکھر منتقل کردیا اور دولہامحمدسومر کا ڈی این اے ٹیسٹ کرانے کا حکم بھی دیا ہے۔ عدالت کے حکم کے بعدلڑکی کو پولیس نے اپنی تحویل میں لے لیا۔ جسے بعد ازاں دارالامان سکھر منتقل کردیا گیا۔ پولیس کے مطابق ابتدائی معلومات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ 40 سالہ شخص اور 10 سالہ لڑکی کے درمیان نکاح ہوچکا تھا اور ایڈیشنل آئی کے احکامات پر بروقت کارروائی کرتے ہوئے لڑکی کی رخصتی کو ناکام بنادیا گیا ہے نکاح خواں اور لڑکی کے والد موقع سے فرار ہوگئے ، جن کی گرفتاری کے لئے کوششیں کی جارہی ہیں۔
شادی کرنے والے شخص محمد سومرکا یہ کہنا تھا کہ اس نے شادی کے عوض ڈھائی لاکھ روپے کی رقم کی ادائیگی کی ہے، اس کا نکاح ہوچکا تھا، رخصتی ہورہی تھی کہ پولیس پہنچ گئی اور معاملہ رک گیا۔ بعد ازاں ایڈیشنل آئی جی سکھر ریجن ڈاکٹر جمیل احمد نے اس سلسلے میں اپنے دفتر میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ ابتدائی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ متاثرہ بچی کی دادی نے ڈھائی لاکھ روپے کا قرضہ لیا تھا، قرضے کی رقم ادا نہ کرنے کی وجہ سے بچی کا نکاح 4سال قبل ہی کرادیا گیا تھا۔ اس حوالے سے مزید تحقیقات کی جارہی ہے۔ پولیس کے علم میں یہ معاملہ آیا تو کم عمر بچی کی رخصتی کے وقت کارروائی کرکے شادی کی کوشش ناکام بنادی گئی ، دولہا اور اس کے ساتھیوں کو گرفتار کرلیاگیا۔ ابتدائی تحقیقات میں بچی سے 4بار زیادتی کا انکشاف ہوا ہے، بچی کی حتمی میڈیکل رپورٹ ابھی نہیں آئی، اگر ایسا ہوا ہے تو ملزم کو ضرور سزا ملے گی۔ سندھ میں کم عمری کی شادی کے لئے 2013 میں قانون پاس کیا گیا تھا جس کے تحت یہ شادی رکوائی گئی ہے۔ بچی سے شادی کی کوشش کرنے والا سومر عرف شمن بچی سے عمر میں چار پانچ گنا بڑا ہے۔ شادی کرنے والے مرکزی ملزم سومر عرف شمن کو اسی دن گرفتار کرلیا گیا تھا جبکہ بچی کا نکاح کرانے میں ملوث گواہ اور نکاح خواں بھی جلد گرفتار ہوجائیں گے۔ ایڈیشنل آی جی کے مطابق ،سول جج کے حکم پر متاثرہ بچی کو دارالامان سکھر منتقل کیا گیا۔ آئی جی سندھ کی جانب سے بچی کو بازیاب کرانے والی پولیس پارٹی کے لئے انعام کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ کم عمر میں شادی ہو جانے سے لڑکیاں اس بڑی ذمہ داری کی ادائیگی احسن طریقے سے نہیں کر پاتیں جس سے گھر، بچے اور سسرال انتہائی تکلیف دہ حالات سے دوچار ہو جاتا ہے کم عمری کی شادیوں کی روک تھام کو یقینی بنانے کے لئے صرف قانون سازی کرانے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا بلکہ اس کے لئے ضروری ہے کہ جن علاقوں میں کم عمری کی شادی کے واقعات زیادہ رونما ہوتے ہیں ان علاقوں کے لوگوں میں کم عمری کی شادی کے نقصانات اور تعلیم کی اہمیت کے حوالے سے شعور اجاگر کرنا انتہائی ضروری ہے کیونکہ اس طرح کے واقعات ان ہی علاقوں میں زیادہ رونما ہوتے ہیں جن علاقوں میں لوگوں میں شعور و تعلیم کی کمی ہوتی ہے۔ حکومت کی جانب سے کم عمری کی شادی کو روکنے کے لئے قانون سازی ایک اچھا اقدام ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ معاشرے کے تمام مکاتب فکرکے دانشوروں اور علماء حضرات کو اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا، دیہی و پسماندہ علاقوں کے لوگوں کو اپنے بچوں و بچیوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرانے کی جانب مائل کرنا ہوگا، کیونکہ ایک پڑھی لکھی ماں اپنی اولاد کی بہتر تعلیم و پرورش کرسکتی ہے، تب ہی جاکر اس فرسودہ رسم کا خاتمہ ممکن ہوسکتا ہے۔
عالمی ادارے صحت کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ’ ’ڈیمو گرافکس آف چائلڈ میرجز ان پاکستان‘ ‘میںنشان دہی کی گئی ہے کہ پاکستان ، خاص کر دیہی علاقوں میں کم عمری کی شادیوں کا رجحان بہت زیادہ ہے اور ملک کی 21فیصد بچیاں کم سنی میں ہی اس قبیح رسم کی بھینٹ چڑھا دی جاتی ہیں۔۔