میں اس وقت ترکی کے شہر استنبول کے ہوائی اڈے پر وطن واپسی کیلئے اپنی فلائٹ کا انتظار کررہا ہوں، استنبول میں واقع نیا تعمیر کردہ ایئرپورٹ بلاشبہ جدید فن تعمیر کا ایک عظیم شاہکار ہے، میں نے دنیا بھر کے ممالک کے ایئر پورٹس دیکھے ہیںلیکن ترکی کے اس ایئرپورٹ نے سفری سہولتوں کی فراہمی کیلئے نیویارک، ہیتھرو سمیت سب ہوائی اڈوںکو مات دیدی ہے، بالخصوص مسافروں کیلئے تعمیر کردہ اسٹیٹ آف دی آرٹ ہوٹل رومزاپنی مثال آپ ہیں۔ ترکی ہمارا وہی برادر دوست ملک ہے جہاں کے باسیوں نے ایک صدی قبل دنیا کے تین براعظموں پر حکومت کی ہے، جنگ عظیم اول کے بعد جدید ترکی کا ظہور ہوا توترک عوام کو کبھی جمہوریت اور کبھی آمریت کا سامنا کرناپڑا، کبھی ترک حکومت امریکہ کی حامی نظر آئی تو کبھی امریکہ کی مخالفت کی گئی لیکن ایک امر جس کا اعتراف کرنا ضروری ہے، وہ ترکی کا اپنے قومی مفاد کاکبھی سمجھوتہ نہ کرنا ہے، ملکی و عالمی صورتحال کے تناظر میں ہمیشہ ترکی نے اپنے عوام کی ترقی و خوشحالی کو مقدم رکھا جس کی عکاسی اس وقت میرے سامنے موجود استنبول کا ایئرپورٹ بھی کررہا ہے۔ ترکی میں میری آمد کا مقصد آذربائیجان کے دارالحکومت باکو میں منعقدہ ایک عالمی کانفرنس میں شرکت کیلئے پڑاؤ کرنا تھا۔ ففتھ ورلڈ فورم آن انٹرکلچرل ڈائیلاگ کے عنوان سے اقوام متحدہ کے زیراہتمام اس عالمی کانفرنس کا مقصد مختلف ممالک کے مابین ثقافتی تعاون کی راہ ہموار کرنا تھا، پاکستان کے پارلیمانی وفد کی سربراہی ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم خان سوری نے کی جبکہ ہمارے وفد میں ممبر قومی اسمبلی ملک عامر ڈوگر، سپیشل اسسٹنٹ ٹو ڈپٹی اسپیکر بایزید کانسی اور اسسٹنٹ ڈائریکٹر پی آر تنویر حسین ملک بھی شامل تھے۔ آذربائیجان کی حکومت بالخصوص صدر ِ مملکت الہام علیوف مبارکباد کے مستحق ہیں جنہوں نے اقوام متحدہ ،یونیسکو، یو این ورلڈ ٹورازم آرگنائزیشن، کونسل آف یورپ، اسلامک ایجوکیشنل سائنٹیفک اینڈ کلچرل آرگنائزیشن جیسے عالمی مستند اداروں کے اشتراک سے بین الثقافتی مکالمے کے سلسلے کے پانچویں عالمی اجلاس کا انعقاد کامیابی سے کرایا، آذربائیجانی صدر کا خیرمقدمی خطاب میں کہنا تھا کہ آج کے دور میں ایک امن پسند انسانی معاشرے کی تشکیل یقینی بنانے کیلئے موثر قابلِ عمل حکمت عملی بنانا اشد ضروری ہے، اس کارِ خیر میںتمام ممالک کو آگے بڑھ کراپنا بھرپورکردار ادا کرنا ہوگا اورمقامی سطح پر نفرتوں،تشدد اور تعصبات کے پھیلاؤ کی روک تھام کرنی چاہئے۔دوران کانفرنس مختلف ممالک کے مندوبین نے شدت پسندی کا زورتوڑنے کیلئے متعدد تجاویز بھی پیش کیں، کچھ شرکاکا کہنا تھا کہ آج معاشرے میںپُرتشدد رویوں میں اضافے کی بڑی وجہ نوجوانوں کو فیصلہ سازی کے امور سے الگ کرنا ہے۔ عالمی کانفرنس کے بعد ہمیں دارالحکومت باکو کے مختلف عوامی اور تاریخی مقامات کی سیاحت کا بھی موقع ملا، مجھے کوہ قاف میں بسنے والے حسین باشندوں کے اعلیٰ اخلاق اور سادہ طبیعت نے بے حد متاثر کیا، بطور پاکستانی ہمیں آذر بائیجان کے عوام نے اپنی خصوصی محبت و عقیدت سے نوازا۔ مشرقی یورپ اور مغربی ایشیا کی سرحد پرواقع آذربائیجان یوریشیا کے جنوبی قفقاز(کوہِ قاف) کا سب سے بڑا اور سب سے زیادہ آبادی رکھنے والا ملک ہے، حسین پریوں کی آماجگاہ کہلانے والا کوہ ِ قاف کا پہاڑی سلسلہ براعظم ایشیا اور یورپ کے درمیان قدرتی سرحد کا درجہ رکھتا ہے، ماضی میں آذربائیجان کا قدرتی حسن سے مالامال علاقہ بے شمار علاقائی تنازعات کا اکھاڑہ بنا رہا،آذربائیجان کے باسیوں نے سکندراعظم، ساسانی ،عرب، منگول، ایرانی اور ترک حملہ آوروں کا بھی سامنا کیا، پہلی جنگ عظیم کے بعد آذربائیجان کی قائم کردہ جمہوری ریاست کو دنیا میں پہلی مسلمان پارلیمانی ریاست ہونے کا اعزاز حاصل ہے، بعدازاں سویت جارحیت کے نتیجے میں آذربائیجان سویت یونین کا حصہ بن گیا۔نوے کی دہائی میںسویت یونین کی افغانستان میںبدترین شکست کے نتیجے میں آذربائیجان کو آزادی تو نصیب ہوئی لیکن ہمسایہ ریاست آرمینا کے ساتھ جنگی تصادم کا بھی سامنا کرنا پڑا، آج بھی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی منظوری کے باوجود آذربائیجان کے جنوب مغرب میں واقع نگورنو کاراباخ کا علاقہ آرمینیا کے قبضے میں ہے ۔ علاقائی تاریخ سے سبق سیکھتے ہوئے آزادی کے 28 سال بعد آج کے جدیدآذربائیجان نے اپنے آپ کو ایک سیکولرامن پسند جمہوری ریاست کے طور پر منوایا ہے، یہاں مساجد بھی آباد ہیں اور کرسچیئن اقلیتوں کے گرجاگھر اور آتش گاہیں بھی، یہ ملک آزاد ریاستوں کی دولت مشترکہ اور کیمیائی ہتھیاروں پر پابندی کی تنظیم کا بانی رکن ہے،اس کا مستقل نمائندہ یورپی یونین میں موجود ہے، آذربائیجان کو یورپی کمیشن کے خصوصی ایلچی ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے اور اقوام متحدہ، یورپی کونسل اور نیٹو جیسے اہم اداروں میں بھی متحرک کردار ادا کررہا ہے۔ استنبول کے جدید ہوائی اڈے پر باکو کی حسین یادیں تازہ کرتے ہوئے ایک دم میرا ذہن اپنے پیارے وطن پاکستان کی جانب چلا گیاہے جو آزادی کے بہتر سال بعد بھی بحرانوں سے دوچار ہے، قدرت نے پاکستان کو ہر طرح کی نعمت سے نوازا ہے، پاکستانی عوام اپنی صلاحیتوں میں دنیا کے کسی ملک سے کم نہیں لیکن بدقسمتی سے شدت پسندی کا عفریت ترقی و خوشحالی کی راہ میں روڑے اٹکا رہا ہے، یورپی پارلیمنٹ کے پچاس سے زائد ممبران کا وزیراعظم عمران خان کو مذہبی آزادی کے حوالے سے خط لکھنا ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہونا چاہئے۔میں سمجھتا ہوں کہ آج بدقسمتی سے اکثر سیاسی جماعتوںمیں ایسے عناصر موجود ہیں جو اپنی بقا کا راستہ شدت پسندانہ نظریات کا فروغ سمجھتے ہیں، ہر ملک عالمی سطح پر اپنا مثبت امیج پیش کرنے کیلئے اقدامات کر رہا ہے تو آخر کب تک ہم پاکستان میں کم عمری کی شادی،کرپشن، مذہبی شدت پسندی اور دیگر ناپسندیدہ سماجی ناسوروں کو اپنائے بیٹھے رہیں گے ؟ وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے پیارے وطن پاکستان کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا کرنے کیلئے دقیانوسی پالیسیوں اور منافقانہ طرز عمل سے چھٹکارہ حاصل کریں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)