• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس بات کا صحیح اندازہ مجھے آج سے کوئی چار دہائیاں قبل ہوا کہ معاشرے میں زندگی کی منازل طے کرتے ہوئے کچھ عادات، معمولات اور خصوصیات انسان کی شخصیت کا حصہ بن جاتی ہیں۔ جب یہ معمولات موجود نہ ہوں تو اُن کی کمی شدت سے محسوس کرتا ہے۔ زمانہ گزرا میں آکسفورڈ میں زیر تعلیم تھا۔ لنچ بریک ہوئی تو استقبالیہ کی جانب ایک چٹ ملی کہ ’’ایک صاحب شیر افضل نے فون کیا تھا۔ وہ تم سے بات کرنا چاہتے ہیں‘‘ دیارِ غیر میں ایک ہم وطن کا فون میرے لئے خوشگوار حیرت تھی اور غیبی مدد بھی۔ شیر افضل صاحب کو فون کیا تو اُنہوں نے رات کے کھانے کی دعوت دی۔ اُن کے گھر حاضر ہوا تو پتہ چلا کہ وہ وہاں کئی دہائیوں سے مقیم ہیں، پاکستانی صحافت میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں اور پاکستانیوں کی تنظیم یا انجمن کے صدر بھی ہیں۔ چھٹی کے دن ایک شام میں اُن کے پاس بیٹھا تھا تو ایک کشمیری پاکستانی بزرگ اُن سے انگریزی میں درخواست لکھوانے آ گیا۔ باتوں باتوں میں، میں نے اُن صاحب سے پوچھا کہ پاکستان کی کس چیز کو آپ یہاں شدت سے مس (Miss)کرتے ہیں۔ جواب ملا ’’اذان‘‘۔ ان صاحب کو انگلستان میں ہجرت کئے کئی دہائیاں گزر چکی تھیں لیکن ابھی تک وہ اپنے آبائی قصبے کی مساجد سے گونجنے والی اذانوں کی کمی محسوس کرتے تھے۔ میں نوجوان تھا۔ بات سُن لی لیکن بات سے متاثر نہ ہوا۔ دس گیارہ برس قبل میں دو ہفتوں کے لئے ترکی کے شہر استنبول میں تھا۔ استنبول مجھے ’’چھوٹا مدینہ‘‘ لگتا ہے کیونکہ وہاں حضرت ایوب انصاریؓ اور نبی کریمﷺ کے رضاعی بھائی کے علاوہ بہت سے صحابہ کرامؓ اور مدینہ منورہ کی عظیم ہستیاں مدفون ہیں۔ خوبصورت استنبول سمندر کے دونوں طرف پہاڑیوں پہ آباد ہے اور شام کو ایک پیالے کی مانند لگتا ہے۔ مغرب کے وقت جب میں برآمدے میں بیٹھتا تو سارا شہر اذانوں سے گونجنے لگتا۔ سمندر کے دونوں طرف پہاڑیوں سے جا بجا بلند ہوتی ان گنت اذانیں اور سامنے سمندر کی نیلگوں لہریں یوں محسوس ہوتا جیسے پہاڑیوں کی کنکریوں سے لے کر پانی کی لہروں تک ہر شے اللہ کے گھر کی جانب بلا رہی ہے۔ حضرت سلطان باہوؒ کے انداز میں یوں جیسے ہر شے ذکر الٰہی میں مصروف ہے۔ اللہ سبحانہ تعالیٰ جن قلوب یعنی دلوں کو نور معرفت سے منور کرتے ہیں وہ یقیناً یہ سن بھی سکتے ہیں اور دیکھ بھی سکتے ہیں۔ یہ میرے رب کی عطا اور انعام ہے۔ وہ جسے چاہے یہ مقام عطا کر دے ورنہ انسان تو زندگی بھر مادی نگاہ کے نظاروں میں ہی مست رہتا ہے۔ جسے ہم باطن کی نگاہ کہتے ہیں وہ قلب کی نگاہ ہوتی ہے اور قرب الٰہی کا انعام ہوتی ہے۔ حضرت سلطان باہوؒ کا فرمان اس راز سے پردہ اٹھاتا ہے جسے ماہرین قلب بھی نہیں سمجھ سکتے۔ آپ کے شعر کا مطلب کچھ یوں ہے کہ دل دریا اورسمندر سے بھی زیادہ گہرا ہے، اس کے چودہ طبق ہیں جو ’’تنبو‘‘ یعنی شامیانے کی مانند تنے ہوئے ہیں۔ جوں جوں انسان قرب الٰہی کی منزلیں طے کرتا ہے یہ ’’تنبو‘‘ درجہ بدرجہ ہٹنا شروع ہو جاتے ہیں اور قلب نورِ معرفت سے منور ہو کر مادی دنیا کی قید اور حدود و قیود سے ماورا ہو جاتا ہے۔

عمرہ ادا کرنے کے بعد ظہر کے انتظار میں ہم خانہ کعبہ کے برآمدے میں کعبہ پر نظریں جمائے بیٹھے تھے۔ میرے ساتھ میرے دوست اور مرشد بھائی پروفیسر ظفر علی احسن مرحوم تشریف فرما تھے۔ وہ اُن دنوں جدہ میں پاکستان اسکول کے وائس پرنسپل تھے۔ صرف چند حضرات کو علم تھا کہ مرشد کی عطا سے اُن کا باطن روشن ہے۔ خاموشی، خضوع و خشوع کی اس کیفیت میں وہ اچانک مسکرائے تو میں نے سوالیہ نگاہوں سے اُن کی جانب دیکھا۔ وہ آہستہ سے بولے ’’ابھی سامنے سے میاں جی مسکراتے ہوئے گزرے ہیں‘‘۔ میاں جی اُن کے اور میرے مرشد تھے اور سعودی عرب سے ہزاروں میل دور پاکستان کے ایک قصبے کے قبرستان کی چھوٹی سی مسجد میں رہائش پذیر تھے۔ دنیا کی افضل ترین جگہ خانہ کعبہ کے برآمدے میں بیٹھے ایک اللہ والے کے الفاظ پر مجھے اندھا یقین تھا۔

بات شروع ہوئی تھی اذان سے کہ مسلمان ممالک میں زندگی کی منازل طے کرنے والے کی گھٹی میں اذان پڑ جاتی ہے۔ مسلمان بچہ پیدا ہوتا ہے تو اُس کے کان میں اذان دی جاتی ہے۔ وہ دنیا سے رخصت ہوتا ہے تو اُس کی نماز جنازہ پڑھی جاتی ہے۔ صوفیاء کے نزدیک یہ زندگی اذان سے لے کر نماز تک کے وقفے پر محیط ہے جسے ہم حساب کتاب رکھنے کے لئے برسوں کے پیمانے سے ناپتے ہیں اور اس حقیقت کو فراموش کر کے لوٹ مار کرتے، تکبر کا شکار ہوتے، جھوٹ کا بازار گرم کرتے اور دولت کے انبار اکٹھے کرنے کے لئے جدوجہد کرتے رہتے ہیں اور پھر ایک دن خالی ہاتھ قبر میں لڑھک جاتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل میں رمضان کے مبارک مہینے کے دوران امریکہ میں تھا۔ شام کے سائے ڈھلتے ہی میں جس چیز کو شدت سے مس کرتا وہ لاہور کی گلیوں بازاروں کی مساجد سے گونجتی اذانیں تھیں۔

کبھی غور کیا آپ نے کہ نسبت انسان کو کیا سے کیا بنا دیتی ہے۔ نسبت روحانی دنیا کا راز ہے لیکن اس کی جھلک مادی دنیا میں بھی نظر آتی ہے۔ کوئی تین دہائیاں قبل میں شام کے دارالحکومت دمشق میں حضرت بلالؓ کی قبر کے قدموں میں کھڑا سوچ رہا تھا کہ گردن میں رسی ڈال کر گھسیٹے جانے والے غلام کو جسے مکہ میں جانور سے بھی کم تر درجہ حاصل تھا نسبت نے کن بلندیوں پر پہنچا دیا، اذانِ بلالی کو ایک عظیم علامت بنا دیا اور حضرت بلالؓ کے اسم گرامی کو قیامت تک تاریخ کے صفحات پر روشن کر دیا۔ نبی کریمﷺ کے وصال کے بعد مدینہ منورہ کے درو دیوار حضرت بلالؓ کی اذان سننے کو ترس گئے۔ ایک بار نسبت نے کھینچا تو وہ مدینہ منورہ تشریف لائے۔ اصرار پر اذان دینا شروع کی تو نصف تک پہنچ کر بے ہوش ہو کر گر پڑے۔ پھر در نبویؐ سے دور چلے گئے کہ آقاﷺ کی یاد برداشت سے باہر تھی۔ میں اُن کی قبر پر کھڑا سوچ رہا تھا کہ سبحان اللہ۔ حضرت بلالؓ کا کیا مقام ہے، موذنِ نبویؐ کا کیا مرتبہ ہے۔ آقائے دو جہاںﷺ معراج مبارک سے واپس تشریف لائے تو حضرت بلالؓ کو یہ خوشخبری سنائی کہ میں نے تمہارے قدموں کے نشانات جنت میں دیکھے۔ حضرت بلالؓ کا کہنا تھا کہ میں وضو ٹوٹتے ہی دوبارہ وضو کر لیتا ہوں یعنی ہر وقت با وضو رہتا ہوں۔ اللہ کے دوست بیداری میں ہمہ وقت اندر اور باہر سے با وضو رہتے ہیں۔ حضرت بلالؓ کی خدمت میں ہدیہ عقیدت پیش کر چکا تو دل میں ایک خواہش نے جنم لیا۔ حضرت بلالؓ کی اذان اب بھی مدینہ منورہ کی فضائوں میں محفوظ ہو گی کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ اپنے محبوب کے محبوبوں کی ہر شے کو زندہ رکھتے ہیں۔ اے کاش میں اِسے سن سکتا، اے کاش یہ اذان میرے رگ و پے میں اتر جاتی۔ اے کاش...

تازہ ترین