• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شہابِ ثاقب(meteoroid) وہ چمک دار اجرام فلکی ہیں جو فضا سے آتے اور زمین پر گرتے ہیں۔ انہیں شہابیہ اور عام اردو میں گرتے ہوئےستارے بھی کہا جاتا ہے۔درحقیقت یہ شہاب یا نیزک ہوتے ہیں جو زمین کے کرۂ ہوا میں داخل ہو جاتے ہیں اوردباؤ اور رگڑ کی وجہ سے چمک پیدا کرتے ہیں۔ جب کوئی شہاب اس طرح زمین (یا کسی اور سیارے) کی فضاء میں داخل ہو جائے اور چمک پیدا کرے یا اس کے کرۂ ہوائی سے گزرتا ہوا اس کی سطح پر گر جائے تو اسے شہابیہ (meteorite) کہا جاتا ہے۔ شہابیے کو اردو میں سنگ شہاب بھی کہتے ہیں۔

ماہرین کے مطابق شہابِ ثاقب دراصل تقریباً ساڑھے چار ارب سال قبل نظامِ شمسی کی تخلیق کے بعد بچ جانے والا ملبہ ہیں اور ان پر تحقیق سے ممکنہ طور پر یہ بات سامنے آ سکتی ہے کہ ابتدائی نظام ِ شمسی کے اجزائے ترکیبی کیا تھے اور یہ کہ زمین جیسے سیارے کیسے وجود میں آئے۔

سائنس دانوں کے مطابق پہلے کے مقابلے میں اب زمین سےشہابِ ثاقب ٹکرانے کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔امریکی خلائی سائنس دانوں کے مطابق فروری 2013 میں جو شہابیے،اسٹیرائڈ یا سیاروں سے ٹوٹ کر گرنے والے اجرامِ فلکی روس میں گرے تھے ان سے کہیں زیادہ خطرناک صورتِ حال کسی نئےشہابِ ثاقب سےپیدا ہوسکتی ہے۔

روسی اکیڈمی آف سائنس کے مطابق تقریبا دس ٹن وزنی یہ شہابِ ثاقب زمین پر گرنے سے پہلے ہی ٹوٹ گیا تھا۔ اطلاعات کے مطابق اس شہاب ثاقب کا بڑا حصہ روسی شہر چیلیابنسک سے ایک کلو میٹر دور واقع ایک جھیل میں گرا تھا۔چیلیابنسک کا علاقہ دارالحکومت ماسکو کے مشرق میں پندرہ سو کلومیٹر دور واقع ہے۔ وہاں متعدد فیکٹریاں، ایک جوہری پلانٹ اور جوہری مواد کو ناکارہ بنانے اور اسے ذخیرہ کرنے کا ایک مرکز بھی واقع ہے۔

اس واقعے کے نتیجے میں ناسا اور عالمی سائنس دانوں کی ایک ٹیم نے تاریخ میں پہلی بارچار برس قبل ایک چھوٹے سے سیارچے کے تصادم کے ذریعے زمین پر پڑنے والے اثرات کے بارے میں تفصیلی فہم حاصل کیا تھا۔ناسا نے 6 نومبر 2013کو جاری کردہ ایک رپورٹ میں کہاتھا کہ 15 فروری، 2013 کو چیلیا بنسک پر ایک سیارچے کے ٹکرا کر پھٹنے کے نتیجے میں حاصل کیے گئے بے مثال اعداد و شمار سائنس دانوں کے لیےقدرت کے اس مظہرِ کو بہتر انداز میں سمجھنے کے ضمن میں ایک انقلاب کی حیثیت رکھتے ہیں۔

چیلیابنسک کے واقعے کا شہریوں کے کیمروں کے ساتھ دیگر ذرائع سے بھی اچھی طرح مشاہدہ کیا گیا۔ اس کی وجہ سے محققین کو یہ نادر موقع ملا کہ وہ اس واقعے کی جانچ پڑتال کر نے کے ساتھ زمین کے قریب موجود اشیاء کے مضمرات کا مطالعہ بھی کرسکیں اور زمین کے دفاع میں خطرات کو کم کرنے کی حکمت عملی تیار کر سکیں۔چناں چہ اب نو ممالک کے سائنس دانوں نے مستقبل میں سیاروں کے ٹکرانے کے اثرات کے نمونے کے لئے ایک نیا معیار قائم کر لیا ہے۔

سائنس جرنل میں شائع ہونے والی رپورٹ کے شریک مصنف اور شہابِ ثاقب کے ماہر پیٹر جینسکنز کے مطابق :’’ہمارا مقصد ان تمام حالات کو سمجھنا تھا جن کے نتیجے میں جھٹکے دار لہریں پیدا ہوئیں‘‘۔ ناسا کے ایمز تحقیقاتی مرکز،کیلی فورنیا میں شہابِ ثاقب کے ماہر اور ایس-ای-ٹی-آئی انسٹی ٹیوٹ میں کام کرنے والے جینسکنز نے اس واقعے کے بعد چند ہفتوں تک ماسکو میں سائنس کی روسی اکیڈمی کے کرۂ ارض کی حرکیات کے انسٹی ٹیوٹ میں کام کرنے والی اولگا پوپووا کی قیادت میں ایک مطالعے میں حصہ لیا تھا۔

اولگا پوپووا کے مطابق ویڈیوز اور تصاویر کی جانچ پڑتال کرنے سے جینسکز اور دیگر ماہرین نے یہ اندازہ لگا یاتھا کہ شہاب ثاقب19 کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے ٹکرایا ۔

جب شہابِ ثاقب (زمینی) فضا میں داخل ہوا تو وہ ٹکڑے ٹکڑے ہو کر پھیل گیا، جن کی رفتار(زمینی) سطح پر30 کلومیٹر تک پہنچ گئی تھی۔ ان لو گو ں کو جو اس وقت 100 کلو میٹر تک کے فاصلے پر تھے، اس وقت شہابِ ثاقب کی روشنی سورج سے بھی زیادہ دکھائی دے رہی تھی۔شدید گرمی کے نتیجے میں ملبے کے بہت سے ٹکڑے زرد رنگ کے چمک دار بادل سے گرنے سے پہلے ہی بھاپ بن کر فضا میں تحلیل ہو گئے تھے۔ سائنس داں سمجھتے ہیں کہ جوچھوٹے چھوٹے شہابِ ثاقب زمین پر گرے ان کا وزن 4000 سے 6000 کلو گرام تک تھا۔ ان میں 650 کلو گرام وزنی وہ ٹکڑا بھی شامل تھاجو 16 اکتوبر2013 کو جھیل چیبارکل سے پیشہ ور غوطہ خوروں نے یورل وفاقی یونیورسٹی کے محققین کی مدد سے برآمد کیا تھا۔

ناسا کے محققین نے مطالعے کے بعد یہ خدشہ ظاہر کیا تھا کہ جھٹکوںسے پڑنے والی دراڑوں کی کثرت نے اس چٹان کے بالائی فضاء میں ٹوٹنے میں اہم کردار ادا کیا۔ چیلیابنسک اسٹیٹ یونیورسٹی کے محققین نے فراہم کیے گئے شہابِ ثاقبوں کا جھٹکوں سے پڑنے والی دراڑوں کے ماخذ اور ان کے طبعی خواص جاننے کے لیے تجزیہ کیاتھا۔ان کا کہنا تھا کہ جس تصادم سے پیدا ہونے والےجھٹکوں نے یہ دراڑیں پیدا کیں، ممکن ہے کہ وہ 4.4 ارب سال پہلے وقوع پذیر ہوا ہو ۔ اس تحقیقی ٹیم کے مطابق یہ سب نظام شمسی کے قیام کے 115 ملین سال کے بعد ہوا ہوگا جب شہابِ ثاقبوں کا ایک بہت اہم تصادم ہوا تھا۔

جینسکنز کے مطابق اتنے پرانےزمانے میں ہونے والے واقعات نے چیلیابنسک پر شہابِ ثاقب کے فضا میں ٹوٹنے کے طریقے پر اثر ڈالا، جس سے نقصان دہ جھٹکے والی لہریں پیدا ہوئیں۔ماہرین کے مطابق زمین کی قریبی چیزوں کے ماخذ اور ان کی فطرت کو سمجھنے کے لئے تحقیق کی جا رہی ہے۔ یہ ناگزیر مطالعہ اس لیے ضروری ہے کہ زمین کے ساتھ ممکنہ طور پر تصادم کی راہ پر گامزن کسی چیز کا راستہ بدلنے کاطریقہ بہتر بنایا جا سکے۔واضح رہے کہ ناسا نے 2013 کے اواخر میں اعلا ن کیا تھا کہ شہابِ ثاقب پر قابو پانے اورانہیں راستے سے ہٹانے کے سلسلے میں شہاب ثاقب کا ابتدائی منصوبہ پہلا مشن ہو گا۔ناسا کا کہناتھاکہ شہابِ ثاقب اور دم دار ستاروں کے مطالعے سے سائنس دانوں کو یہ موقع ملتا ہے کہ وہ نظام شمسی کے ماخذ، زمین پر پانی کے ذرایع ،حتی کہ نامیاتی سالمے، جس سے زندگی کی نشونما ممکن ہے، کی اصلیت کے بارے میں مزید جان سکیں۔

ستمبر 2015میںمیکسیکو میں یوکاتان کے علاقے اشمل میں شہابِ ثاقب کے گرنے سے بجلی کا نظام متاثر ہواتھا۔اسی علاقے کے لوگوں نے اڑن طشتریاں اور شہابِ ثاقب گرنے کے کئی واقعات رپورٹ کیے ہیں جب کہ شہاب ثاقب گرنے کے بعد مبینہ طور پر ایک انسان کا جلا ہوا پتلا بھی ملا ہے جسے خلائی مخلوق قرار دیا جارہا ہے۔ اس کی 2 ٹانگیں بھی ہیں۔اس واقعے سے متعلق ماہرین نے اس پراسرار مخلوق پر غور کرکے بتایا تھا کہ یہ شہابِ ثاقب کا جلا ہوا ٹکڑا ہے جو حرارت سے ایک خاص شکل میں ڈھل گیا ہے ۔تاہم خلائی مخلوق پر تحقیق کرنے والوں نے یہ بات نہیں مانی اور اڑن طشتریوں پر تحقیق کرنے والے ایک ماہر اسکاٹ ویئرنگ نے کہا کہ یہ خلائی مخلوق کا ڈھانچا نہیں بلکہ کوئی خلائی جہاز،روبوٹ یا خلائی سوٹ ہے، کیوںکہ شہابِ ثاقب کے گرنے سے جو حرارت پیدا ہوتی ہے اس سے کوئی لاش اس حالت میں برقرار نہیں رہ سکتی۔شہابِ ثاقب کے تصادم کے بعد مقامی لوگوں نے بتایاتھا کہ انہیں ہر جگہ ٹکڑے ملے ہیں ،جس سے ان کی مراد کسی ٹیکنالوجی یا ایجاد کے ٹکڑے سے ہے۔ اس جگہ سے ایک گول سی چیزبھی ملی تھی، جس کے بارے میں کہا گیا تھا کہ وہ ایلین روبوٹ یا ہیلمٹ ہوسکتا ہے۔

بہت بڑا شہابِ ثاقب زمین سے ٹکرانے والا ہے؟

برطانیہ کے خلائی سائنس دانوں اور انجینئرز نے مستقبل میں زمین کے قریب سے گزرنے والے ایک بہت بڑے شہاب ثاقب، ایپوفس،کا جائزہ لینے کے لیے 2007میں ایک مشن ڈیزائن کیا تھا۔تین سو میٹر چوڑا ایپوفس نامی یہ شہابِ ثاقب 2029میں زمین کے بہت قریب سے گزرے گا۔اسٹیونیج میں قائم ایسٹریئم کے سائنس دان اس شہابِ ثاقب کے مدار کا صحیح اندازہ کرنا چاہتے ہیں۔برطانوی سائنس دانوں کے ڈیزائن میں ’’ایپکس‘‘ کے نام سے ایک چھوٹےخلائی جہاز کی تیاری بھی شامل تھی۔سائنس دانوں کے مطابق ایپوفس اس وقت دنیا کے لیے خطرہ نہیں ہے،لیکن اگر وہ زمین سے ٹکرایا تو دنیا میں بہت بڑے پیمانے پر ہلاکتوں کا سبب بن سکتا ہے۔سائنس دانوںکا خیال ہے کہ 65 ملین سال پہلے دنیا میں بہت سی ذی حیات اور ڈائناسارز کی اموات کا سبب بھی ایسی ہی کسی بہت بڑی خلائی چیز کا زمین سے ٹکرانا تھا۔

تازہ ترین
تازہ ترین