• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’حضرت علی المرتضٰیؓ‘‘ فضائل و مناقبت کی روشنی میں

مولانا حافظ عبدالودود شاہد

بابُ العلم سیدنا حضرت علی المرتضٰیؓ کے فضائل و مناقب اور کردار و کارناموں سے تاریخ اسلام کے اوراق روشن ہیں جس سے قیامت تک آنے والے لوگ ہدایت و راہنمائی حاصل کرتے رہیں گے۔حضرت سعد ابن ابی وقاصؓ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے حضرت علیؓ سے فرمایا کہ تم میری طرف سے اس مرتبے پر ہو، جس مرتبے پر حضرت ہارون علیہ السلام، حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرف سے تھے ،مگر بات یہ ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہ ہو گا۔ (بخاری و مسلم)

آپؓ کا نام علی،لقب حیدر و مرتضیٰ، کنیت ابو الحسن اور ابو تراب ہے، آپؓ کا نسب حضور ﷺ کے بہت قریب ہے،آپؓ کے والد ابو طالب اور حضور ﷺکے والد ماجد حضرت عبد اللہ دونوں بھائی بھائی ہیں،آپؓ کی والدہ فاطمہ بنت اسد تھیں۔ماں باپ دونوں طرف سے آپؓ ہاشمی ہیں۔ سیدنا حضرت علی کرم اللہ وجہہ‘ میں ہاشمی سرداروں کی تمام خصوصیات موجود اور چہرے سے عیاں تھیں۔ عبادت و ریاضت کے آثار بھی چہرے پر موجود تھے،چہرے پر مسکراہٹ اور پیشانی پر سجدے کے نشان… معمولی لباس زیب بدن فرماتے، آپؓ کا عبا اور عمامہ بھی سادہ تھے، گفتگو علم و حکمت اور دانائی سے بھرپور ہوتی… بچپن سے نہ صرف حضور ﷺ کے ساتھ رہے، بلکہ آپ ﷺ ہی کی آغوشِ محبت میں پرورش پائی،آپ ﷺ نے ان کے ساتھ بالکل فرزند کی طرح معاملہ کیا اور اپنی دامادی کا شرف بھی عطا فرمایا،حضور ﷺ کی سب سے چھوٹی اور لاڈلی بیٹی خاتونِ جنت سیدہ حضرت فاطمۃ الزہراءؓکے ساتھ آپؓ کا نکاح ہوا اور ان سے آپؓ کی اولاد ہوئی،صحابہ کرامؓ میں جو لوگ اعلیٰ درجے کے فصیح و بلیغ اور اعلیٰ درجے کے خطیب اور شجاعت و بہاد ری میں سب سے فائق مانے جاتے تھے ان میں آپؓ کا مقام و مرتبہ بہت نمایاں تھا،خلیفہ چہارم سیدنا حضرت علی المرتضٰیؓ میدانِ جنگ میں تلوار کے دھنی اور مسجد میں زاہدِ شب بیدار تھے،مفتی و قاضی اور علم و عرفان کے سمندر تھے، عزم و حوصلہ میں ضرب المثل،خطابت و ذہانت میں بے مثل،حضور ﷺ کے چچا زاد بھائی اور داماد،فضیلتیں بے شمار، سخی و فیاض، دوسروں کا دکھ بانٹنے والے، عابد و پرہیز گار، مجاہد و جاںباز ایسے تھے کہ نہ دنیا کو ترک کیا ،نہ آخرت سے کنارہ کشی فرمائی، ان سب کے باوجود نہایت سادہ زندگی گزارتے ، نمک، کھجور، دودھ ،گوشت سے رغبت تھی، غلاموں کو آزاد کرتے،دور خلافت میں بازاروں کا چکر لگا کر قیمتوں کی نگرانی فرماتے، گداگری سے لوگوں کو روکتے تھے، جب نماز کا وقت آتا تو آپؓ کے بدن پر لرزہ طاری ہو جاتا اور چہرے پر زردی چھا جاتی، کسی نے اس کی وجہ پوچھی تو فرمایا :’’اس امانت کی ادائیگی کا وقت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے آسمانوں، زمین اور پہاڑوں پر اتارا تو وہ اس بوجھ کو اٹھانے سے عاجز ہو گئے۔‘‘

آپؓمیں عجز و انکساری نمایاں تھی،اپنے عہدِ خلافت میں بازاروں میں تشریف لے جاتے ،وہاں جو لوگ راستہ بھولے ہوئے ہوتے انہیں راستہ بتاتے، بوجھ اٹھانے والوں کی مدد کرتے، تقویٰ اور خشیت الٰہی آپؓ میں بہت زیادہ تھی،ایک بار آپؓ ایک قبرستان میں بیٹھے تھے کہ کسی نے کہا ! اے ابو الحسن، یہاں کیوں بیٹھے ہوئے ہیں؟ فرمایا، میں ان لوگوں کو بہت اچھا ہم نشین پاتا ہوں، یہ کسی کی بدگوئی نہیں کرتے اور آخرت کی یاد دلاتے ہیں… ایک مرتبہ آپؓ قبرستان تشریف لے گئے اور وہاں پہنچ کر قبر والوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا!اے قبر والو! اے بوسیدگی والو! اے وحشت و تنہائی والو! کہو کیا خبر ہے کیا حال ہے،ہماری خبر تو یہ ہے کہ تمہارے جانے کے بعد مال تقسیم کر لیے گے اور اولادیں یتیم ہو گئیں بیویوں نے دوسرے شوہر کر لیے… یہ تو ہماری خبر ہے، تم بھی اپنی خبر سنائو!اس وقت کمیل آپؓ کے ہمراہ تھے،وہ بیان کرتے ہیں کہ اس کے بعد حضرت علیؓ نے فرمایا! اے کمیل، اگر ان (مردوں) کو بولنے کی اجازت ہوتی تو یہ جواب دیتے کہ بہترین سامانِ آخرت پرہیز گاری ہے،اس کے بعد حضرت علیؓ رونے لگے اور فرمایا اے کمیل، قبر اعمال کا صندوق ہے اور موت کے وقت یہ بات معلوم ہوتی ہے، ایک مرتبہ حضرت امیر معاویہؓ کے اصرار پر ضرار اسدیؒ نے سیدنا حضرت علی کرم اللہ وجہہ‘ کے اوصاف و صفات بیان کرتے ہوئے کہا ! اللہ کی قسم، حضرت علی المرتضیٰؓ بڑے طاقت ور تھے، فیصلے کی بات کہتے تھے اور انصاف کے ساتھ حکم دیتے،علم و حکمت ان کے اطراف سے بہتے،دنیا اور اس کی تازگی سے متوحش ہوتے تھے،رات کی تنہائیوں اور وحشتوں سے انس حاصل کرتے تھے،روتے بہت تھے اور فکر میں زیادہ رہتے تھے، لباس انہیں وہی پسند تھا جو کم قیمت ہو اور کھانا وہی مرغوب تھا جو ادنیٰ درجے کا ہو،ہمارے درمیان بالکل مساویانہ زندگی بسر کرتے تھے اور جب ہم پوچھتے تو جواب دیتے تھے، باوجودیہ کہ ہم ان کے مقرب تھے مگر ان کی ہیبت کے سبب ان سے بات کرنے کی جرأت نہیں ہوتی تھی، وہ ہمیشہ اہلِ دین کی تعظیم کرتے اور مساکین کواپنے پاس بٹھاتے تھے، کبھی کوئی طاقت ور اپنی طاقت کی وجہ سے ان سے ناجائز فائدہ اٹھانے کی امید نہ کر سکتا تھا اور کوئی کمزور ان کے انصاف سے مایوس نہیں ہوتا ۔

ایک موقع پر حضور ﷺ نے فرمایا! ’’علیؓ سب سے اچھا فیصلہ کرنے والے ہیں‘‘ سیدنا حضرت علی المرتضٰیؓ غزوۂ تبوک کے علاوہ تمام غزوات میں شریک ہوئے، ہر معرکے میں سیدنا حضرت علیؓ نے اپنی شجاعت و بہادری اور فداکاری کا لوہا منوایا بدر و اُحد، خندق و حنین اور خیبر میں اپنی جرأت و بہادری کے خوب جوہر دکھائے…ہجرت کی شب حضور ﷺ کے بستر مبارک پر آرام فرما ہوئے،اور آپؓ نے آخری وقت میں حضور ﷺ کی تیمارداری کے فرائض انجام دیے اور دیگر صحابہ کرامؓ کے ہمراہ آپؓ کو ’’غُسلِ نبوی‘‘کی سعادت بھی نصیب ہوئی… آپؓ ’’عشرہ مبشرہ‘‘ جیسے خوش نصیب صحابہ کرامؓ میں بھی شامل ہیں، جنہیں حضور ﷺ نے دنیا میں ہی جنت کی بشارت و خوش خبری دی اور خلافتِ راشدہؓ کے اعلیٰ منصب پر فائز ہوئے، آپؓ کو بچپن میں قبولِ اسلام کی سعادت نصیب ہوئی اور بچوں میں سے سب سے پہلے آپؓ ہی دولتِ ایمان سے منور ہوئے، آپؓ کو ’’السابقون الاولون‘‘ میں بھی خاص مقام اور درجہ حاصل ہے۔

آپؓ ’’بیعتِ رضوان‘‘ میں شریک ہوئے اور ’’اصحابُ الشجرہؓ‘‘ کی جماعت میں شامل ہوئے جن کو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں راضی ہونے اور جنت کی بشارت و خوشخبری دی، آپؓ ’’اصحابِ بدرؓ‘‘ میں سے بھی ہیں جن کی تمام خطائیں اللہ تعالیٰ نے معاف کر دیں،مکی زندگی میں حضور ﷺ کے ساتھ ہر قسم کے مصائب و مشکلات کو جھیلتے رہے… حضور ﷺ نے آپؓ کو اپنا ’’مواخاتی بھائی‘‘ بنایا اور حضور ﷺ نے آپ کو اپنے ساتھ وہی نسبت دی جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حضرت ہارون علیہ السلام سے تھی۔

خلیفہ سوم سیدنا حضرت عثمان غنیؓ کی شہادت کے بعد حضرت علیؓ تین ماہ کم پانچ سال تک تختِ خلافت پر متمکن رہنے کے بعد عبد الرحمن بن ملجم خارجی کے ہاتھوں زخمی ہونے کے بعد 21رمضان المبارک کوجامِ شہادت نوش فرما کر شہادت کے اعلیٰ درجے پر فائز ہو ئے۔

  مناقبِ مرتضوی بہ زبانِ اصحاب ِنبویؐ

٭فاروقِ اعظمؓ نے فرمایا:حضرت علی ؓ کو تین خوبیاں ایسی نصیب ہوئیں ،اگر مجھے ان میں ایک بھی مل جاتی تو میرے لیے دنیا ومافیہا سے بہتر ہوتیں۔نبی کریم ﷺ نے اپنی لختِ جگر سیدہ فاطمہؓ کا ان سے نکاح فرمایا۔نبی کریم ﷺ نے انہیں مسجد میں سکونت عطا کی ۔خیبر میں علم(جھنڈا) انہیں عطا کیا۔٭سیدہ عائشہؓنے فرمایا: حضرت علیؓ سے زیادہ علمِ سنت کا جاننے والا کوئی نہ تھا۔٭ابنِ مسعود ؓنے فرمایا:ہم لوگ آپس میں کہا کرتے تھے کہ حضرت علی ؓ اہلِ مدینہ میں سب سے زیادہ معاملہ فہم ہیں۔٭ابن ِعباس ؓنے فرمایا:مدینۂ منورہ میں فصلِ قضایا اور علمِ فرائض میں حضرت علی ؓ سے زیادہ علم رکھنے والا کوئی نہ تھا۔ 

تازہ ترین