• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:خالد پرویز…برمنگھم
بڑی عظمتوں اور برکتوں والے شہر مقدس مکتہ المکرمہ سے طائف کی جانب رواں دواں تھے۔ تقریباً پچاس میل کا فاصلہ طے کرنے کے بعد ہمیں طائف تک پہنچنے کے لئے بلند و بالا پہاڑوں کو عبور کرنا تھا۔ فیصلہ یہ ہوا کہ روایتی سڑک کے راستےاوپر جانے کے بجائے فلائنگ چیرز کے ذریعے پہاڑوں کو عبور کیا جائے۔ میں بڑے شوق و اشتیاق سے نیچے وادی کے خوبصورت مناظر کو دیکھتے ہوئے ان راستوں اور مقامات کی تلاش اور جستجو کررہا تھاکہ جہاں سے صدیوں پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دین اسلام کی تبلیغ کے لئے مکتہ المکرمہ سے طائف کے اپنے سفر میں ان پہاڑوں کو پاپیادہ عبور کیا ہوگا۔ کتنی مشقت اور تکالیف اٹھانی پڑی ہوں گیاآپؐ کوان دشوارگزار پہاڑوں کو عبور کرتے ہوئے۔ اس سوچ اور احساس نے مجھے رنجیدہ کردیا تھا۔ فلائنگ چیرز سے پہاڑوں کو عبور کرکے ہم ایک بار پھر گاڑی میںجا بیٹھے۔ ہماری پہلی منزل حلیمہ سعدیہ کا گائوں بنی سعد تھا جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بچپن گزرا اور پرورش ہوئی تھی۔ بنی سعد پہنچتے پہنچتے دن ڈھلنے لگا تھا اور پھر تھوڑی دیر بعد مائی حلمیہ سعدیہ کے گھر کے پاس کھڑے کھڑے میں نے اپنے چاروںطرف دیکھا بظاہر یہ مقام ایک خشک پتھریلی پہاڑی اور وادی ہے، لیکن کتنا تقدس، سکون اور اطمینان تھا اس کی فضائوں میں، جذبات اور احساسات میں ایک طوفان برپا تھا اور میں سوچ رہا تھا کہ کیا میں انہیں پتھروں اور خطہ زمین پر چل رہا ہوں جہاں صدیاں پہلے شاہ کونین چلتے پھرتے اور کھیلتے رہے ہوں گے؟ اچانک ہمارے گائیڈ نے نیچے وادی میں ایک مقام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ یہ وہ مقام ہے جہاں شق صدر کا واقعہ ہوا تھا۔ یعنی اللہ کے حکم سے فرشتوں نے رسول اللہ صلی علیہ وسلم کے سینہ مبارک کو چاک کیا تھا۔ جذبات میں برپا طوفان میں بڑھتی ہوئی تیزی کے ساتھ میں اس مقام کو دیکھنے لگاجس کے اردگرد باڑ لگا کر اسے محفوظ کردیا گیا تھا۔ صدیاں بیت چکی ہیں لیکن مجھے محسوس ہورہا تھا جیسے اس وادی میں گزرتے ہوئے لمحات اور وقت کی رفتار تھم گئی ہو۔ کچھ بھی تو نہیں بدلاتھا۔ حلیمہ سعدیہ کے بنی سعد میں شام کے دھندلکے چاروں اور پھیلنے لگے اور میں شاہ کونین کے چاک صدر کے مقام کو قریب سے دیکھنے کی تڑپ لئے نیچے وادی میں اتر آیا۔ وادی کی فضائوں میں پھیلے ہوئے سکوت اور تقدس میں میرا جسم روح اور قلب اس سارے منظر کا حصہ بن گئے۔ بنی سعد سے رخصت ہوکر طائف کی طرف روانہ ہوئے جہاں نبوت کے ابتدائی ایام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دعوت اسلام کے لئے تشریف لائے تھے۔ لیکن یہاں کے ظالم سرداروں نے آپؐ پر ظلم و ستم کی انتہاکردی۔ ان کے اوباش اور غلام تاک تاک کر آپؐ کے ٹخنوں اور ایڑیوں پر پتھر مارتے۔ یہاں تک کہ آپؐ کی جوتیاں خون سے بھر گئیں۔ آپؐ زخموں سے چور عتبہ اور شبیہ کے باغ کی دیوار سے لگ کر انگور کی ایک بیل کے سائے میں بیٹھ گئے اور انتہائی دردمندی کے ساتھ اپنے رب سے التجا کی ’’اے اللہ! میں تیرے حضور اپنی بے بسی و بے چارگی اور لوگوں کی نگاہ میں اپنی بے قدری کا شکوہ کرتا ہوں۔ یا اللہ تو سارے ہی کمزوروں کا رب ہے اور میرا رب بھی تو ہی ہے۔ مجھے کس کے حوالے کررہا ہے؟ کیا کسی بیگانے کے حوالے جو مجھ سے درشتی کے ساتھ پیش آئے؟ یا کسی دشمن کے حوالے جس کو تونے مجھ پر قابو پالینے کا یارا دے دیا ہے؟ اگر تو مجھ سے ناراض نہیں ہے تو مجھے کسی مصیبت کی پروا نہیں مگر تیری طرف سے عافیت مجھے نصیب ہوجائے تو اس میں میرے لئے زیادہ کشادگی ہے۔ میں پناہ مانگتا ہوں تیری ذات کے اس نور کی جو اندھیرے میں اجالا کرتا ہے اور دنیا و آخرت کے معاملات کو درست کرتا ہے۔ مجھے اس سے بچالے کہ تیرا غضب مجھ پر نازل ہو یا میں تیرے عتاب کا مستحق ہوجائوں۔ تیری مرضی پر راضی ہوں۔ یہاں تک کہ تو مجھ سے راضی ہوجائے۔ کوئی زور اور طاقت تیرے بغیر نہیں‘‘ پھر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اللہ کی رحمت جوش میں نہ آئی۔ فوراً جبریل حاضر ہوئے اور کہا ’’اللہ نے وہ سب کچھ سن لیا ہے جو آپؐ کی قوم نے آپؐ سے کہا ہے اور آپؐ کی دعوت کا جو جواب دیا ہے یہ پہاڑوں کا فرشتہ اللہ نے بھیجا ہے تاکہ آپ جو چاہیں اسے حکم دیں۔ اگر آپؐ اسے حکم دیں تو یہ فرشتہ پہاڑوں کو آپؐ کی قوم پر الٹ دے اور ان کو صفحۂ ہستی سے مٹادے۔ لیکن اتنے دکھ اور تکلیفیں اٹھانے کے باوجود شاہ کونین نے فرمایا، نہیں! ’’میں امید رکھتا ہوں کہ اللہ ان کی آئندہ نسلوں سے ایسے لوگ پیدا کرے گا جو اللہ کی عبادت کریں گے۔‘‘ شاہ کونین نے اپنے رب کی واحدنیت کے پرچم کو بلند کرنے کے لئے کیا کیا ظلم کے برداشت نہیں کئے۔ ان حالات کا تصور میری روح کو گھائل کرنے لگا تھا۔ تیزی سے پھیلتے ہوئے رات کے سیاہ اندھیرے اس سارے منظر کو ڈھانپنے لگے تھے اور میں عتبہ اور شبیہ کے باغ کےاسی مقام پر کھڑا چاروں اور دیکھ رہا تھا۔ نجانے کیوں دل میں خواہش ابھرنے لگی کہ اے کاش! انگور کی اس بیل اور دیوار کو دیکھ پاتا کہ جس کے سائے تلے بیٹھے زخموں سے چُورچُور ہونے کے باوجود شاہ کونین نے ان ظالموں کو اللہ کے غضب اور عذاب سے بچالیا تھا۔
تازہ ترین