• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
”آپ کو ایمانداری کا شوق کیسے ہوا؟“وہ کہنے لگے ”میرے ایک بزرگ ہیں ، انہی کی برکت سے میں نے کرپشن چھوڑ دی، کافی عرصہ بیت گیا ہے، اب کرپشن کی طرف دل مائل نہیں ہوتا“ ۔ میں اپنی افسری کے ابتدائی دنوں میں ان سے ملتا رہتا تھا۔ لاہور میں ڈی جی ایکسائز کے دفتر میں وہ ہم چھ نئے ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن افسروں کی تربیت کے ذمہ دار تھے کیونکہ وہ بھی ہماری طرح ”ڈائریکٹ افسر “ تھے اور ان کا عہدہ بھی ہمارے برابر تھا اس لئے ہماری ان کے ساتھ کافی بے تکلفی ہو گئی۔ ان کا نام حمید اخترتھا۔ میں ان سے اکثر الٹے سیدھے سوال کرتا رہتا تھا۔ ”سر آپ اتنی قلیل تنخواہ میں گزارہ کیسے کر لیتے ہے؟“ان کے چہرے پر ایک فاتحانہ مسکراہٹ امڈ آئی جیسے ان کی کسی بہت بڑی کامیابی کا ذکر چھڑ گیا ہولیکن انہوں نے بس اسی بات پر اکتفا کیا”بس زندگی کی گاڑی چل رہی ہے، اللہ کا شکر ہے“۔ ان کا طرزِ زندگی بہت سادہ تھا ،اتنا سادہ کہ مجھے ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا۔ عام سا واش اینڈ وےئر شلوار قمیض اور ایک چھوٹی سی گاڑی۔ ہم نئے نئے افسروں کیلئے یہی دو باتیں کسی پرانے افسر کی ”تہذیب “اور”معیارِ زندگی“ پرکھنے کا پیمانہ ہوا کرتی تھیں۔ ساتھ ہی ساتھ ہم لوگ اس ٹوہ میں بھی رہتے تھے کہ ہم جس عہدے پر تعینات ہونے جا رہے ہیں اس میں اللہ کا کتنا ”کرم “ ہے۔ سو حمید اخترصاحب کو دیکھ کر کبھی کبھی بہت مایوسی ہوتی۔ میں ذاتی طور پر کافی گومگو کی کیفیت میں رہتا ، میں اکثر سوچتا کہ اگر میں ایماندار افسر بنا تو مجھے بھی اسی سے ملتا جلتا طرزِ زندگی اختیار کرنا پڑے گا۔ ساتھ ہی دل میں خیال آتا کہ سال ہا سال دن رات کی محنت کا صرف اتنا سا صلہ!!اسی سطح کے دوسرے افسروں کو دیکھتا تو میری بھی کچھ ہچکی بندھ جاتی۔ خوبصورت لباس، آسودہ حال چہرے، اچھی گاڑیاں لیکن پھر خیال آتاکہ یہ سب کچھ تو اوپر والے ”مال“ کے دم قدم سے ہے۔ میں ایک اوسط درجے کے اخلاقی معیار پر کاربند ایک عام سا انسان تھا اور دوسرے بہت سے دوستوں کی طرح میرا بھی خیال تھا کہ مقابلے کا امتحان اچھے نمبروں میں پاس کرنے کے بعد قسمت کی دیوی مہربان ہو جاتی ہے اور ساری حسرتیں آسانی سے پوری ہو جاتی ہیں لیکن یہ حسرتیں کیسے پوری ہوتی ہیں اس کا مجھے ابھی مکمل ادراک نہیں تھا۔”اچھا یہ بات تو سمجھ میں آ گئی کہ آ پ خود کرپشن نہیں کرتے لیکن جو آپ کے اوپر نیچے دائیں بائیں ہر کوئی بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہا ہے اس صورتحال سے کیسے نبرد آزما ہوتے ہیں آپ؟“میں نے ایک اور سوال داغ دیا ۔ کہنے لگے”اگر آپ اپنے ارادے پر قائم رہیں تو کسی کی جرأت نہیں ہے کہ وہ کرپشن کر سکے“ان کے لہجے میں ایک عجیب سی بے باکی اور اعتماد تھا (جس کے نتائج کا مجھے اس وقت اندازہ نہیں تھا)۔ وہ اس محکمے میں بارہ چودہ سال نوکری کر چکے تھے اور محکمے کو اندر باہر سے اچھی طرح سمجھتے اور جانتے تھے۔ مجھے ان سے ایک انس سا ہو گیا اور میں ادھر ادھر سے ان کے بارے میں جاننے کی کوشش کرتا رہتا۔ جو معلومات مجھے حاصل ہوئیں ان کا خلاصہ یہ تھا کہ انہوں نے اپنی نوکری کے اوائل میں بڑے ”دھڑلے “ سے نوکری کی تھی اور خوب ”مال“ بنایا تھا لیکن چند سال پہلے اچانک توبہ تائب ہو گئے تھے اور مکمل ایمانداری اختیار کر لی تھی ۔ حمید اختر صاحب کے ساتھ ہماری رفاقت کوئی چھ مہینے جاری رہی اور پھر ہم زندگی کی بھیڑ میں ایک دوسرے سے جدا ہوگئے۔ کچھ عرصہ بعد وہ پروموٹ ہو کر ڈائریکٹر بن گئے اور ایک ایسی جگہ پر تعینات تھے جہاں لگنے کیلئے ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن ڈیپارٹمنٹ کے ڈائریکٹروں کی رال ٹپکتی رہتی ہے پھر ایک روز میں نے اخبار میں وہ اندوہناک خبر پڑھی کہ” ڈائریکٹر ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن لاہورحمید اختر کو ان کے گھر کے باہر گولیاں مار کر ہلاک کر دیا گیا“ اس وقت تک میں کرپشن کے سمندر میں حمید اختر ہی کے نقشِ قدم پر چلتا ہوا کئی ایک سنجیدہ خطرات سے بچتا بچاتا سول سروسز اکیڈمی کے محفوظ ماحول میں پہنچ چکا تھا۔ اپنے ذاتی تجربات کی روشنی میں میں یہ نتیجہ اخذ کر چکا تھا کہ سرکاری مشینری میں ایماندار افسر اگر بزدلی سے، کمزوری سے ،چشم پوشی اور ”لچک “ کا مظاہرہ کرتے ہوئے چلے تو گزارہ ہو سکتاہے لیکن اگرکوئی افسر ایمانداری کے ساتھ ساتھ دلیری ، جرأت اور” بے لچک“ہونے کا گناہ بھی کرلے تو پھر وہ سخت سزا کا مستوجب قرار پائے گا۔ جلد یا بدیر ہر جگہ منہ کھولے چھوٹے بڑے مگرمچھوں کے مافیاز میں سے کسی نہ کسی کے ساتھ ٹکراؤ ہو ہی جائے گا اور پھرکیا ہو گا بہت سی مثالیں موجود ہیں۔اسامہ موعود سیکریٹری لیول کے ایک نہایت ایماندار ڈی ایم جی افسر تھے ، قتل کر دےئے گئے، کسی کو آج تک کچھ پتہ نہیں چلا۔ وزارتِ خارجہ کے ایک افسر نے ملائیشیا میں سفارتخانے کی عمارت بیچنے کے فراڈ سے پردہ اٹھایا ،سخت سزا کے حقدار ٹھہرائے گئے اور رسوائی کی حالت میں دنیا سے رخصت ہو گئے۔ بہت بعد میں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی اس نتیجے پر پہنچی کہ وہ صحیح تھے اور ان کو سزا دلوانے والے غلط، کچھ نہیں ہو سکا۔ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن پنجاب کے ایک ایماندارافسر نے اپنی ایک پُرکشش تعیناتی کی ابتدا ہی میں کرپشن کنٹرول کرنے کی کوشش کی، اس کے خلاف گستاخیِ شعائر ِ اسلام کا فتویٰ دلوا یا گیا اور بڑی مشکل سے اُس کی جان خلاصی ہوئی۔ اسی محکمے کے ایک اور ایماندار افسر نے جب چند ایک ماتحت کرپٹ لوگوں کے خلاف انکوائریاں شروع کیں تو اس کے ماتحتوں اور باس نے مل کر اس کے گھر چند بازاری عورتوں کو اس کی ”دوست“ بنا کر بھیج دیا ، بیچارے نے عزت بچا کر ٹرانسفر کرانے میں ہی عافیت جانی۔
حاصلِ بیان یہ ہے کہ ہمارے ملک میں اگر کوئی افسر مافیاز کے مالی مفادات کیلئے واقعی سنجیدہ خطرہ بن جائے تو مار ا جاتا ہے بلکہ مار دیا جاتا ہے اور کوئی اس کو پوچھنے والا نہیں ہوتا۔ کامران فیصل کی موت کے بارے میں میرا قوی گمان ہے کہ وہ اسی قسم کے مافیازکے مفادات کے ٹکراؤ کی زد میں آنے کی وجہ سے قتل کیا گیا ہے اور اس کیس میں جوڑ تو دیکھیں ، ایک طرف میا ں چنوں سے تعلق رکھنے والا متوسط طبقے کا ایک ڈپٹی ڈائریکٹر اور دوسری طرف ملک کا وزیرِ اعظم ، بہت سارے اعلیٰ تعلیم یافتہ سیکریٹری یا اسی سطح کے افسران، نیب کے”بااعتماد“ چےئرمین، اسلام آباد کی انتہائی ایماندار اور مستعد پولیس!! ویسے اسلام آباد پولیس سے یاد آیا کہ اس کیس کی تفتیش تو اسی پولیس نے کرنی ہے اور اسلام آباد پولیس کتنی اچھی تفتیش کرتی ہے میں بہت اچھی طرح جانتا ہوں۔ بس اتنا کہہ سکتا ہوں کہ آپ کامران فیصل کی موت کو خودکشی ہی سمجھیں۔ اسی طرح کامران فیصل کی ابتدائی پوسٹ مارٹم رپورٹ بھی سامنے آ چکی ہے اور اس میں بھی اس کی موت کو خودکشی ہی قرار دیا گیا ہے۔ اب ہائی پروفائیل کیسز میں اسلام آباد کے سرکاری اسپتال کی رپورٹس کتنی بااعتماد ہوتی ہیں، یہ بھی میں بڑی اچھی طرح جانتا ہوں، رمشا مسیح کیس کی میڈیکل رپورٹ ذہن میں تازہ ہے۔ ابھی سے آپ کو بتائے دیتا ہوں کہ ہر میڈیکل رپورٹ میں اس کی موت خودکشی ہی قرار پائے گی۔
آپ نے کبھی غور کیا کہ کامران فیصل جیسے اچھا کام کرنے والے لوگ ہی کیوں چیف جسٹس صاحب کے سخت رویّے کی وجہ سے ذہنی دباؤ کا شکار ہو کر ”خودکشی “ کرتے ہیں۔ اس ملک کے اربو ں روپے کھانے والے بڑے بڑے مگرمچھ جن کے بارے میں آواز ِ خلق چیخ چیخ کر پکار رہی ہے کہ یہ مکروہ لوگ ہیں جو قتل بھی کرتے ہیں، کرپشن بھی کرتے ہیں، ملک دشمنی بھی کرتے ہیں ، غداری بھی کرتے ہیں، ان میں سے کوئی ذہنی دباؤ میں آ کر ”خودکشی “ کیوں نہیں کرتا؟ کتنے ہی بڑے بڑے اسکینڈل سامنے آئے ہیں جو لمبے عرصے تک میڈیا اور عدالتوں میں زیرِ بحث رہے ہیں ان کے ”متاثرین“ ذہنی دباؤ کا شکار ہو کر ”خودکشی “ کیوں نہیں کرتے؟ کتنے ہی واقعات ایسے رپورٹ ہوتے ہیں کہ ہائی پروفائیل کیسز میں چیف جسٹس صاحب تفتیش خراب کرنے پر ایسے تفتیشی افسروں اور تفتیشی ایجنسیوں کی سرزنش کرتے ہیں جنہوں نے میرے نزدیک واقعتا تفتیش خراب کی ہوتی ہے، ان میں سے کسی کو یہ ”ذہنی دباؤ “ کیوں محسوس نہیں ہوتا؟یاد رکھئے ہمارے ہاں یہ ”ذہنی دباؤ “صرف انہی لوگوں کو محسوس ہوتا ہے جو مافیاز کے مفادات کیلئے خطرہ بن جاتے ہیں۔کامران فیصل کی ”خود کشی“جیسی ”خود کشیوں“ کی بہت ہی خوبصورت منظر کشی کئی ایک ہندی فلموں میں بڑی مہارت سے کی گئی ہے۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ واقعہ اسی طرح کی کسی فلم کا چربہ ہے۔
اسکی موت پر پہلا خیال تو یہ آتا ہے کہ ”بے چارہ کامران فیصل بے موت مارا گیا “لیکن درحقیقت اس کی موت ،موت نہیں بلکہ شہادت ہے۔کامران راہِ حق میں جدوجہد کرتا ہوا خالقِ حقیقی سے جا ملا ہے ۔ مجھے نہیں لگتاکہ اس دنیا میں اسے کبھی انصاف مل پائے گا اور اس کی شہادت کا صلہ تو اسے اس دنیا میں مل ہی نہیں سکتا۔ اس کو قتل کرنے والوں نے تو دیگر ایماندار یا نیم ایماندار افسروں کو ایک سخت پیغام دینے کی کوشش کی ہے لیکن ایسے افسروں کوقاتلوں کا یہ پیغام نظر اندازکر دینا چاہئے بلکہ ان کو کامران فیصل کے اس پیغام پر زیادہ توجہ دینی چاہئے کہ موت برحق ہے اور اس کا ایک دن مقرر ہے لیکن جتنا عرصہ بھی انسان زندہ رہے اسے اپنا کام ایمانداری اور فرض شناسی سے کرنا چاہئے۔
تازہ ترین