رپورٹ۔احمد امیر پاشا، بحرین
انجمن فروغِ ادب ، بحرین کا گیارہواں عالمی مشاعرہ بیادِ شاہد نجیب آبادی اپنی تمام تر ادبی لطافتوں کے ساتھ گزشتہ دنوں اختتام پذیر ہوا۔ مشاعرے میں شریک شعرائے کرام اور سامعین و حاضرین کے حوصلہ افزا اور تہنیتی تاثرات نے اس کی شعری افادیت کو مزید اجاگر کر دیا۔مملکتِ بحرین کے دارالحکومت منامہ کے ایک فائیو سٹار ہوٹل میں منعقدہ اس مشاعرے کی بنیادی غائت، بحرین و گلف کے ممتاز شاعر اور علمی شخصیت شاہد نجیب آبادی(مرحوم ) کی جملہ خدمات کو شایانِ شان انداز میں خراج پیش کر نا تھا۔اس سے قبل بھی 2007 میں کچھ ادب نواز دوست اس حوالے سے جشنِ شاہد کا اہتمام کر چکے ہیں۔اس عالمی مشاعرے کی صدارت، پاک و ہند کے نامور شاعر،ادیب، محقق،معلّم اور تنقید نگار ڈاکٹر پیرزادہ قاسم صدیقی نے کی، مہمانِ خصوصی سفیرِ پاکستان برائے بحرین، افضال محمود تھے جبکہ مہمانِ اعزازناصر علی خان(فرزندِ شاہد نجیب آبادی) تھے۔ یہ عالمی مشاعرہ دو حصوں پر مشتمل تھا، پہلا حصہ صاحبِ مشاعرہ کی تحدیثِ خدمات اور اس حوالے سے اُن کے لئے لکھے گئے مضامین و کلام اور مہمان شعراء کی شعری نگارشات ہر مبنی مجلّے اظہار کی تقریبِ اجراء ، جبکہ دوسرا حصہ مشاعرے سے منسوب تھا۔ابتدائی حصے کی نظامت کے فرائض مجتبیٰ برلاس نے سر انجام دیے۔ مشاعرے کے ابتدائی حصے کا آغاز کرتے ہوئے، مجتبیٰ برلاس نے کہا کہ انجمن فروغِ ادب بحرین ایک تعمیری ادب کی نشوو نما کے لئے مصروفِ عمل ہے ۔ادبی منظر ناموں کی تعمیرو ترویج کے حوالے سے زندہ قومیں اپنے محسنوں کو فراموش نہیں کرتیں۔اس حوالے سے شاہد نجیب آبادی مرحوم بحرین اور خلیج کی وہ سرکردہ شخصیت تھے کہ جن کی خدمات شعر وادب پچاس سالوں پر پھیلی ہوئی ہے۔وہ اپنی ذات میں ایک شاعر نہیں بلکہ ایک ادارہ تھے۔ان کی ذات گرامی سے وابستہ بے لوث جذبہ اور خدمت کا جنون انہیں نہ صرف ہمارے ذہنوں میں امر کر دیتا ہے بلکہ اس کا بھی متقاضی ہے کہ ان کو خراجِ عقیدت پیش کر کے ان کے جذبہِ تعمیر کی تجدید کی جائے۔اس تقریب کا تعارف پیش کر نے کے بعد انہوں نے مشاعرے کے روحِ رواں اور مرکزی کردار طاہر عظیم کو استقبا لیہ کلمات کے لئے اسٹیج پر بلایا۔
انجمن فروغِ ادب کے کنوینر اور بحرین کے معروف شاعر طاہر عظیم نے اپنے استقبالیہ اظہاریے میں معزز شعرائے کرام اور شرکائے مشاعرہ کا شکریہ ادا کرتے ہو کہا کہ ’’ ہماری ہمیشہ یہی کوشش رہی ہے کہ ہم اپنے مشاعرے ان شخصیات سے منسوب کریں جو واقعی اس کے حقدار ہیں۔آج سے قبل اس سلسلے میں انجمن،بیادِ عطا شاد، عزم بہزاد،قابل اجمیری،سلیم احمد اور بیادِ سعید قیس ، عالمی مشاعرے منعقد کر چکی ہے۔الحمد للہ کچھ سالوں سے ہمارے مشاعرے بہتر سے بہتر ہو رہے ہیں۔احمد عادل،شکیل احمد صبر حدی، صہیب قدوائی اور عدیل ملک ، یہ چار شخصیات اور ان کا تعاون اس مشاعرے کی بنیاد ہے۔اس مشاعرے کے انعقاد کے حوالے سے ہم تمام معاونین کا شکریہ ادا کر تے ہیں جن میں باالخصوص عنایت اللہ، برہان آفتاب،محمد ذکی، محمد رضوان، الطاف عظیم، اقبال جوز،سعد اصغر علی،محمد زبیر قاضی، نواز بلوچ اور افضل بھٹی کے نام شامل ہیں۔ مجلسِ فخرِ بحرین کے سرپرست اور بانی شکیل احمد صبر حدی کی جانب سے شاہد نجیب آبادی کے بارے میں تاثراتی پیغام پڑھنے کا فریضہ خرم عباسی نے سر انجام دیا، شکیل احمد صبر حدی نے کہا کہ انجمن فروغِ ادب، کے گیارہویں عالمی مشاعرے کے انعقاد پر اس مشاعرے کے منتظمین کو میں مجلسِ فخرِ بحرین برائے اُردو کی جانب سے دلی مبارکباد پیش کر تا ہوں، اس عالمی مشاعرے کا منفرد پہلو یہ ہے کہ اس کا انعقاد بحرین میں ادبی سلسلوں اور بحرین ریڈیو کے معمار شاہد نجیب آبادی کی یاد میں کیا جا رہا ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ یہ ان کے شایانِ شان بھی ہے۔ میرے ذہن میں ہمیشہ ہی ان کی نفیس اور صلح جُو شخصیت کا ایک گہرا تاثر بنا رہا۔وہ اچھے شاعر بھی تھے، اور اس سے بڑھ کر ایک اچھے انسان تھے۔میں فروری 1976 میں بحرین آیا، پھر ادب اور شعرو شاعری کے حوالے سے ان کے ساتھ ملاقاتیں رہیں۔ابتدا میں ، میں بحرین کے شعری حلقوں میں کافی متحرّک تھا،مجھے ان سرگر میوں میں حصہ لینے کا شوق تھا۔انہی سرگرمیوں کی نسبت سے شاہد صاحب سے ایک احترام کا تعلق قائم ہو گیا۔ شاہد نجیب آبادی سے جب بھی ملاقات ہوئی میں نے اُن کو بہت ملنسار اور منکسرالمزاج پایا۔ریڈیو بحرین میں ان کی بہت اچھی سروس تھی اور وہ اس حوالے سے کافی مصروف آدمی تھے تاہم وضع داری اور مہمان نوازی کا یہ عالم تھا کہ جب کبھی ان سے ملنے جاتے تو چاہے کتنی ہی دیر ہو جاتی ،کبھی یہ نہ کہتے تھے کہ چلو اب گفتگو ختم کرتے ہیں ، کبھی خود بات ختم کرنے کو نہ کہتے تھے۔انہیں شعرو شاعری کی محفلیں منعقد کر نے کا جنون تھا، اس زمانے میں شعرو شاعری کی جتنی بھی محفلیں منعقد ہوتی تھیں، ان کا بندوبست شاہد نجیب آبادی خودکیا کرتے تھے۔اس سلسلے میں وہ نہ صرف ان محافل کے لئے ذرائع مہیا کرتے بلکہ ان نشستوں میں شرکت کے لئے احباب کو آمادہ بھی کرتے تھے۔انہوں نے ایک مضبوط ادبی سلسلہ قائم کر رکھا تھا جس کا محوروہ خود تھے اور انہیں ہونا بھی چاہئے تھا کیونکہ وہ اس حوالے سے ہم سب سے زیادہ متحرّک تھے۔ان کے ساتھ ان کے معاون کچھ دوست بھی تھے، جن میں سعید قیس صاحب ، نور پٹھان، عزیز ہاشمی، خورشید علیگ اور الطاف رانا قابلِ ذکر ہیں،اس زمانے میں بہت اچھے شعراء بحرین آئے لیکن وہ اب ہم میں نہیں ہیں، ان میں سے ایک محبوب شفق بھی تھے۔اچھے شعر کہتے تھے۔ اخلاق احمد (جو وقارؔ تخلّص کرتے تھے) مجھے یاد آ رہے ہیں۔بڑی اچھی شاعری ہوتی تھی، ادبی ماحول بڑا اچھا تھا۔ان ادبی سلسلوں میں کم و بیش یہ سبھی لوگ فعال تھے لیکن ان سلسلوں کے اصل روحِ رواں شاہد نجیب آبادی ہی تھے۔ان کی سوچ بڑی مثبت اور دوستانہ تھی۔وہ کبھی کوئی متنازعہ بات نہیں کر تے تھے۔وہ اپنی ذات اور شاعری میں بڑے حقیقت پسند تھے، اس حقیقت پسندی کا عکس ان کی شخصیت میں بھی نظر آتھا تھا۔احمدعادل نے شاہدنجیب آبادی کے قریبی دوست نورپٹھان کی یاد داشتوں پر مشتمل تحریر پیش کرتے ہوے کہا’’ سن باسٹھ میں بحرین میں اردو کےدو چار ہی شاعر ہوتے تھے جیسے شاہد بھاء، جمیل جعفری، عزیز جعفری، شجعی جعفری۔ ان کے فن کو زندہ رکھنا یہ شاہد بھاء کا مشن تھا۔ اگر میں یہ کہوں کہ بحرین میں اردو مشاعروں کی داغ بیل شاہد بھاء نے ڈالی تو یہ غلط نہ ہوگا۔
مہمانِ خصوصی سفیر پاکستان برائے بحرین افضال محمود نے شرکائے عالمی مشاعرہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ، ’’ میں مشکور ہوں منتظمینِ مشاعرہ کا جنہوں نے مجھے یہاں کھڑا ہو نے کی اجازت دی، اس کے بعد میں بیحد مشکور ہوں ان شعرا کا جو بہت سارا فاصلہ طے کر کے یہاں آئے اور اس مشاعرے کو رونق بخشی۔اس کے علاوہ میں بہت دل کی گہرائیوں سے مشکور ہوں پیرزادہ قاسم کا جنہوں نے اس مشاعرے کو رونق بخشی۔ہم لوگ خوش قسمت ہیں کہ آج یہاں موجود ہیں۔میں شاہد نجیب سےبہت زیادہ واقف نہیں تھا،لیکن جو خوبصورت باتیں اُن کے حوالے سے ہوئیں، اور جس دل جمعی سے انہوں نے کام کیا اور کلچر کی ترقی کے حوالے سے ہم سب ان کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیں، ہماری دعائیں ا ن کے لئے اور ان کے بچوں کے لئے ہیں۔ہمارے جیسے انسانوں کے لئے،شاعر کی روح عام آدمی سے زیادہ حساس ہوتی ہے، شاعر اپنے وژن کو اپنے تخیل سے ملا کراس انداز میں پیش کرتا ہے کہ اس کے دل سے نکلی ہوئی بات دل میں اُتر جاتی ہے۔ اپنی اس زندگی میں جب آپ کچھ سیکھ رہے ہوتے ہیں، دنیا کو سمجھتے ہیں،اس زمانے میں چند ایک شعر میری نظر سے گزرے اور کہیں نہ کہیں میری روح میں اُتر گئے۔میں سمجھتا ہوں کہ ہم سب کی زندگی میں کچھ نہ کچھ ایساہو تا ہے جس سے فرق پڑتا ہے۔میرا خیال ہے کہ اقبال کا یہ شعر اگر میں پڑھا نہ ہوتا یا سنا نہ ہو تا تو شاید میں یہاں کھڑا نہ ہوتا۔
کبھی اے نوجواں مسلم تدبر بھی کیا تونے
وہ کیا گردوں تھا تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تار
اس عالمی تقریب کے ابتدائی حصے کے نا ظم مجتبیٰ برلاس نے مہمانِ اعزاز ، فرزندِ شاہد نجیب آبادی کو اظہارِ خیال کی دعوت دی تو انہوں نے گہرے جذباتِ تشکر کے ساتھ اس عالمی مشاعرے کے انعقاد اور اس کے شاندار انتظامات پر طاہر عظیم اور دیگر تمام اراکینِ انجمن کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ’’ بلا شبہ ہمارے والدگرامی اُردواور تاریخِ اسلام سے بے پناہ محبت کرتے تھے۔آپ کو شعرو ادب اور انسانی خدمت جیسے امور سے جنون کی حد تک لگائو تھا۔وہ بڑے نفیس اور منظم طبیعت کے مالک تھے۔وہ عوامی فلاح کے جذبے سے سرشار تھے۔ ہمیں فخر ہے کہ آج انجمن فروغِ ادب کی جانب سے اُ ن کی خدمات کے اعتراف میں شاندار عالمی مشاعرہ منعقد کیا جا رہا ہے۔ہمارے والد کتاب و قلم سے عشق کی حد تک پیار کر تے تھے۔انہوں نے عمر بھر علم کی ترقی اور ادبی سلسلوں کی نشوونما کے لئے کام کیا،اللہ ان کو غریقِ رحمت کرے ۔مشاعرے میں عدنان افضال،طاہرعظیم،احمد امیر ؔپاشا،احمد عادلؔ،عمرانؔ شمشاد،ڈاکٹر کبیر اطہر،منصورعثمانی،نسیم نازش،جوہر ؔ کانپوری، فرحت عباس شاہ،اسلم بدر،پیرزادہ قاسم اور دیگرشعرائے کرام نے کلام پیش کیا۔