• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ عید کیسی عید ہے؟ یہ عید پہلے جیسی خوشیوں بھری عید تو نہیں؟ یہ عید ایک بار پھر ہم سے ہماری خوشیوں کی قربانی مانگ رہی ہے۔ آخر کب تک ہم اپنی خواہشوں کی قربانی دیتے چلے جائیں گے۔ ہمیں کچھ پتہ نہیں ہماری تقدیر کب بدلے گی؟ سفید پوش طبقہ دم توڑ رہا ہے اور غریب ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مررہا ہے۔ آخر یہ کہاں سے اپنے بچوں کو پالیں، کدھر سے انہیں عید کی شاپنگ کرائیں؟ عید تو نام ہی خوشی کا ہے۔ کدھر ہے یہ خوشی، کوئی مجھے بتائے کہ ایک ننھے منے بچے کی معمولی کھلونے کی خواہش بھی باپ پوری نہ کرسکے، کوئی نیا کپڑا نہ پہنا سکے، کسی پارک میں مہنگے ٹکٹ کی وجہ سے نہ لے جاسکے، باپ ہے کہ ہزار بار سوچتا ہے کہ بچوں کی معمولی خواہشیں پوری کرے تو ان کا پیٹ کیسے بھرے؟ یہ کیسا بے حس معاشرہ ہے اور یہ کیسا اس معاشرے کا انصاف ہے کہ عید پر بھی بچوں کی معمولی خواہشوں کو اس طرح کچلا جائے کہ ماں باپ جیتے جی ہی مر جائیں۔ اگر ہمارے حکمرانوں نے غریب کو اسی طرح اسی حال میں رکھنے کا فیصلہ کر ہی لیا ہے تو پھر ایک مہربانی یہ بھی کریں کہ جو ایلیٹ کلاس ہم پر مسلط کی گئی ہے اس کے بچوں کے جذبات کو بھی ہمارے بچوں کے جذبات کی طرح ہی کچلیں، ہم اپنا معیار زندگی بہتر تو نہیں کرسکتے شاید یہی ہمارے یکساں نظام کا سبب بن جائے۔ جیسے جیسے وہ بولتی چلی جارہی تھی میرے دماغ کی شریانوں میں کھچائو سا محسوس ہونے لگا تھا۔ ایک بے بسی کی کیفیت تھی اس کے الفاظ میں، میری خاموشی اس کے چہرے کے تاثرات، آنکھوں میں تیرتے آنسو، دکھ اور غم کے سمندر میں ڈوبتے تیرتے میرے جذبات، وہ پھر بولی عرفان جی! مرنا صرف لحد میں اترنا نہیں ہوتا جب انسان کی چھوٹی چھوٹی خواہشیں لمحہ بہ لمحہ دم توڑتی ہیں تب تب انسان بھی مرتا چلا جاتا ہے۔ ہمارے بے حس معاشرے میں موت ایک مرتبہ نہیں آتی، یہ موت ہر روز ہر لمحہ غریب کے دروازے پر دستک دیتی رہتی ہے۔ ہم اس ملک کا کیا کریں؟ کیا کریں ہم بے بس لوگ؟ جہاں صدیوں سے ہمارے باپ، دادا سے لے کر اب تک ہم اپنی خوشیوں کا گلا گھونٹ رہے ہیں، کب بدلے گا یہ نظام؟ کب بدلے گی ہماری تقدیر؟ کون بدلے گا یہ سب کچھ؟ کس سے اُمید لگائیں؟ کو ن پار لگائے گا بیچ منجدھار پھنسی ہماری کشتی کو؟ اگر یہ سب کچھ نہیں بدلنا تو آگ لگا دو اس نظام کو، ان خواہشوں کو، تم بھی بھوکے مرو، میں بھی مروں، ہم اکیلے کیوں مریں؟ آئو مل کر اس نظام کو آگ لگا دیں۔ روٹی، آٹا پورا نہیں ہو رہا، اپنا پیٹ بھریں یا ننگے بدن کو ڈھانپیں، کچھ سجھائی نہیں دیتا، عید سر پر آگئی مگر ہم بچوں کی ایک بھی خواہش پوری نہیں کر پارہے۔ یہ کیسی زندگی ہے؟ یہ کیسا نظام ہے؟ کہ انسان اپنے بچوں کی خواہشیں بھی پوری کرنے کے قابل نہیں رہا۔ کیا دور آگیا ہے، کیا بے حسی ہے کہ ہر ایک کو اپنی اپنی پڑی ہے کہ کوئی کسی کا سہارا بننے کو تیار نہیں۔ ایک میرا بچپن تھا کہ جو خواہش کرتی والدین پورا کرتے اور ایک یہ وقت ہے کہ خواہش کا تصور کرنا بھی گناہ ہے۔ ہم نے ترقی کی یا تنزلی سب کے سامنے ہے۔ شاہینہ ظفر ہے ان کا نام۔ انگلینڈ میں رہتی ہیں، کبھی کبھی پاکستان آتی ہیں، ان کا ایک بیٹا انگلینڈ میں ہی ڈاکٹر ہے، اس بار لاہور آئیں تو مجھ سے بھی ملاقات کی، پھر پاکستان سے عشق و محبت کے جذبات کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوا کہ وہ بولتی جارہی تھیں اور میں خاموشی سے انہیں سنتا جارہا تھا۔ شاہینہ ظفر نے اچانک اپنے پرس سے ہزار ہزار، پانچ پانچ سو کے نوٹ نکالے اور کہنے لگیں کہ میں جب آپ سے ملنے آرہی تھی تو میرے خاوند نے مجھے یہ پیسے شاپنگ کے لئے دیئے، میرا بھی دل کرتا ہے کہ میں قیمتی سے قیمتی لباس پہنوں، اللہ نے مجھے نوازا ہے میں یہ سب خرید سکتی ہوں۔ میں اپنی خواہش پوری کرسکتی ہوں مگر آج میں گھر سے سوچ کر نکلی ہوں کہ میں انار کلی بازار جائوں گی، بانو بازار گھوموں گی، اچھرہ بازار دیکھوں گی مگر میرا مقصد قیمتی لباس خریدنا نہیں، میں اپنی نظر سے ایسے لوگوں کی تلاش میں ہوں جن کی میں مدد کر سکوں، جن کے بچوں کی خوشیاں انہیں دے سکوں، اور وہ عید کی خوشیوں میں ہمارے ساتھ شریک ہوں۔ میں یہ پیسے ان سب کو دے آئوں گی۔ میرے پاس اللہ کا دیا سب کچھ ہے، وہ یہ کہنے لگی یہ زکوٰۃ کے پیسے نہیں ہیں یہ میرے خاوند کے خون پسینے کی کمائی ہے۔ میرے پاس اپنے بھی پیسے ہیں مگر میرا مقصد ان پیسوں سے خوشیاں خریدنا نہیں خوشیاں بانٹنا ہے۔ میں جب لاہور آتی ہوں کسی ٹھیلے والے کے پاس کھڑی ہو جاتی ہوں اور انتظار کرتی ہوں کہ وہ سامنے کھڑا شخص جو کسی پھل فروش کے ساتھ بھائو تائو کررہا ہے تو میں پیچھے کھڑی اس انتظار میں پھل فروش کو اشارہ کرتی ہوں کہ بھائی اسے اس کی قیمت پر پھل دے دو باقی پیسے میں دے دوں گی۔ میں کسی کی عزت نفس مجروح نہیں کرنا چاہتی۔ میں شو باز بھی نہیں، مجھے اللہ سے بہت ڈر لگتا ہے، میں لوگوں میں خوشیاں بانٹنا چاہتی ہوں، میں انتظار میں رہتی ہوں کہ کب ریڑھی پر کھڑا گاہک جو اپنی استطاعت سے کم پھل خریدنا چاہتا ہے اور میں اپنی استطاعت سے زیادہ، وہ چلا جائے تو میں پھل خریدوں کہ کہیں اس کی عزت نفس مجروح نہ ہو۔ میں اپنے اللہ کو راضی کرنا چاہتی ہوں۔ میں کسی ایرے غیرے پر اپنی امیری کا رعب نہیں ڈالنا چاہتی۔ شاہینہ ظفر کہنے لگیں کہ میں اپنی آمدنی کا بیشتر حصہ غریبوں کو صاحب روزگار بنانے پر خرچ کرتی ہوں۔ میں ایسے شخص کی تلاش میں رہتی ہوں کہ جسے میں کوئی ریڑھی، کوئی رکشا، کوئی ایسا کاروبار جو معمولی پیسوں سے شروع ہو کر اس کی آمدنی کا معقول ذریعہ بن جائے، شروع کرانے میں مدد کرتی ہوں اور پھر میں گاہے بگاہے رابطے میں رہتی ہوں کہ اس کا کاروبار کیسے چل رہا ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ میں نے اپنی حیثیت میں بہت سارے لوگوں کو پائوں پر کھڑا ہوتے دیکھا ہے اور میں مطمئن ہوں اور مجھے سکون ملتا ہے۔ یہ کام تو آپ بھی کرسکتے ہیں یہ کوئی اتنا مشکل تو نہیں، لوگوں کو اپاہج مت بنائیے انہیں پائوں پر کھڑا کرنے میں مدد کیجئے یہی حقیقی اسلام ہے یہی حقیقی جذبہ ہے،یہی زندگی کا مقصد۔ میں اسی لئے پاکستان آتی ہوں۔ میں چاہتی ہوں کہ یہاں کوئی بے روزگار نہ ہو، کوئی غریب نہ ہو، کوئی بے سہارا نہ ہو۔ کوئی کسی کے سامنے ہاتھ نہ پھیلائے،ہم ایسے ہی ایک دوسرے کا سہارا بن سکتے ہیں۔ ہم ایسے ہی عید کو خوشیوں کا رنگ دے سکتے ہیں۔

تازہ ترین