• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آصف علی زرداری، کیا کوئی افسانوی کردار ہے؟ کسی علیحدہ جزیرے کی گپھائوں میں اس کا بسیرا ہے؟ اسے برمودا تکون کے کسی حصے کی کشش حاصل ہے جہاں تک اس کے دشمن پہنچ نہیں سکتے؟ کیا وہ بطور صدر مملکت دنیا بھر کی نگاہوں کے ایکس رے کا ہدف نہیں تھا؟ آخر وہ کون سا ایسا مافوق الفطرت استعارہ ہے جس پر حملہ آور ہوئے بغیر پاکستان میں انسانی زندگی کا تسلسل مکمل نہیں ہو پائے گا؟

ضیاءالحق کے عہد میں بے نظیر سے شادی کرکے اس نے جس ’’ڈیتھ وارنٹ‘‘ پر دستخط کئے تھے، تقدیر نے اگر وہ ڈیتھ وارنٹ اس کی حب الوطنی، حیاتِ نو اور سیاسی بصیرت سے بھر دیا، تب اس میں آصف علی زرداری کہاں قصور وار ٹھہرا؟ پوچھنا ہے تو کاتب تقدیر سے پوچھو، اگر ہمت ہے؟

وہ بے نظیر سے شادی سے پہلے اور شادی کے بعد مخالفین کی روح کا گھائو بن چکا، کسی پل انہیں چین نصیب نہیں ہوتا، یہ حرماں نصیبی ہو سکتا ہے ان کے اپنے انسانیت کش کرموں کا پھل ہو، اس میں آصف علی زرداری کو دوش دینے کے بجائے خود اپنے مقدرات کا نوحہ پڑھو، کمال کی زیادتی ہے، قید و بند ہو، ملک کی صدارت ہو، اپوزیشن کا کردار ہو، جو مخالف ہیں انہیں سوائے آصف علی زرداری کے دوسرا ٹارگٹ ہی دکھائی نہیں دیتا، جس پر ان کے چوبیس گھنٹے خرچ ہو رہے ہوں، ہوتے جا رہے ہوں!

آصف علی زرداری نے اپنی منتخب حکومت کے پانچ آئینی برس پورے کئے، پاکستان کی غیر آئینی تاریخ میں یہ آئینی تکمیل اصل ’’ٹارگٹ‘‘ تھا، قدرت نے اسے اس میں فتح و نصرت عطا فرمائی، نتیجہ کیا ہوا؟ نتیجہ یہ ہوا کہ اس کے بعد اب تیسری منتخب حکومت ’’آئینی بالادستی، ووٹ کی حرمت اور جمہوری پارلیمانی تسلسل‘‘ کے راستے پر رواں دواں ہے۔

سمجھو، یہ ان ظاہری اور پوشیدہ افراد پر کڑکتی بجلی گری ہے جنہوں نے مملکت خداداد میں منتخب آئینی حکومتوں کو ان کی آئینی مدت انتخاب کبھی بھی پوری نہ کرنے دی، گویا کاتب تقدیر نے آصف علی زرداری کے فتح مند ہاتھوں سے انہیں تاریخی شکست سے دوچار کرایا، اب جو یہ برق ان کے غیر آئینی منصوبوں کا خرمن جلاتی دکھائی دیتی ہے، وہ کسی دوسرے اپوزیشن رہنما پر اتنا وقت اور انرجی صرف نہیں کر رہے جس قدر آصف علی زرداری ان کے لئے سوھان روح بن چکا ہے؟

آخر اس کی جڑ کیا ہے؟ وہ ان سب مخالفین کی ظاہری اور باطنی سرشتوں سے اصلاً اور تقریباً کلیۃ ً آگاہ ہے، ان بے برکت مخالفین کو پتا ہے، پاکستان میں قومی آئینی سیاست کی عمارت کا یہ مرکزی ستون گر جائے، پوری عمارت خود بخود منہدم ہوتی چلی جائے گی۔

خدانخواستہ! اصحاب پاکستان یاد رکھیں، پاکستان، جو اب وہ پورا پاکستان نہیں جسے ہمیں قدرت نے 14اگست 1947کو عطیہ کیا تھا، مگر جو بھی ہے، اب یہی ہمارا اول و آخر وطن ہے اور اس کی بقا جمہوری تسلسل میں ہے، بھٹو سے لے کر اس کے داماد آصف علی زرداری کا کبیرہ گناہ ہی ایک ہے، انہوں نے اس جمہوری تسلسل کے خلاف ان کی مذہبی تعبیرات اور غیر مذہبی تقصیریات کی ایک نہیں چلنے دی، عام پاکستانی آج بھی اپنے ووٹ پر پہرا دیتے کھڑا ہے، حیرت کدہ تو وہ بیانیہ ہے جسے ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کے نام سے نواز شریف بھی اختیار کرنے کے علاوہ کوئی دوسری راہ نہ اپنا پائے، ان کی سیاسی جانشین اسی بیانئے کے نقش پا کا عَلم بلند کئے ہوئے ہے، ظاہر ہے بھٹو خاندان کی ملک کے لئے اس سیاسی بنت کو کس طرح معاف کیا جا سکتا ہے، آصف علی زرداری تو بالکل ہی ناقابل معافی ہے وہ چوروں کو ہی نہیں، چتروں کو بھی اپنی آگاہی کی زنجیروں سے آزاد نہیں ہونے دیتا؟

معلوم ہوا کسی کے خلاف انفرادی یا اجتماعی ہنگامہ آرائی سے بات نہیں بنا کرتی۔ 5نومبر 1996کی رات گورنر ہائوس لاہور سے جب آصف زرداری کو گرفتار کیا گیا اور 6نومبر 1996کی صبح جس کے کھاتے میں منوں سونے کے ٹرک ڈالے گئے یا جس کے بریف کیسوں میں کروڑوں روپوں کی موجودگی کو ’’آنکھوں دیکھا واقعہ‘‘ بتایا گیا، وہ کردار انسان تو درکنار اپنے آدمی ہونے کے متعلق بھی سوائے "Biolgical"حقیقت کے کوئی دوسری دلیل پیش نہیں کر سکتے یعنی قدرت نے انہیں ردی کی شکل تو دیدی مگر انہیں درجہ حیوانیت کی سوچ اور عمل سے ایک شمہ بھی آگے نہیں بڑھنے دیا۔ آصف کے خلاف ریاستی و غیر ریاستی پروپیگنڈوں نے حقیقت کی زمینوں کو اپنے جھوٹوں سے بھرنے کی کوشش کی، آخر کار وہ سچائی اور اخلاقیات کی دنیا میں راندئہ درگاہ قرار پائے۔ وہ اپنی منصوبہ بنیوں کے تحت حریصوں کی طرح اِدھر اُدھر پھدکتے پھرے اور آصف علی زرداری کے خلاف ان کی حیوانی خواہشات نے انہیں دماغی بھیڑیا بنا دیا لیکن قدرت کاملہ نے ذلت کا طوق ان کے نصیب میں لکھ دیا تھا لہٰذا آصف ان بھیڑیوں کے غول سے اس دن بھی زندگی اور عزت سے بامراد واپس آئے جس روز کراچی کے سی آئی اے سنٹر میں دنیا پرستی کے کھیل تماشا میں ملوث یہ ذہنی اندھے اپنے اپنے باطل کو سچ کا نام دے کر اسے توڑنا چاہتے تھے۔

قومی سیاسی سفر میں آصف علی زرداری کے کردار کی تاریخی عزیمت کی برق رفتاری نے تحریک انصاف کو ان سے کہیں پیچھے چھوڑ دیا ہے، یہ وہ کم نگاہ گھڑی ہے جس نے تازہ ترین غیر دانش مندانہ سوچ کے تحت قومی سطح پر تسلیم شدہ احترام کی علامتوں کے گریبانوں پر بھی دست درازی شروع کر دی ہے، آصف علی زرداری تو اپنی سیاسی عزیمت کے صدقے پاکستان کا ایک تسلیم شدہ قومی سیاستدان قرار پا چکا مگر تحریک انصاف کے مقدر میں تاریخ کا کون سا مقام ہے، اندازاً صرف چار پانچ ماہ مزید انتظار کر لیں، فیصلہ کرنا آسان ہو جائے گا۔

10جون 2019آصف علی زرداری کی سیاسی عظمت کا تسلسل ہے، اور کچھ نہیں۔

تازہ ترین