محمد اسلم
بندر روڈ کا نام ا س لیے نہیں پڑا کہ وہاں کسی زمانے میں بندر مقیم تھے۔دراصل کراچی بندرگاہ کی سمت جانے والی سڑک کے باعث اسے یہ نام ملا۔کراچی کا اولڈ سٹی علاقہ اپنی حدود میں قائم برطانوی راج میں بنیں قدیم خوبصورت عمارتوں کی وجہ سے ہمیشہ سے ہی مشہور رہا ہے۔ شہر کراچی کا مرکز کہلانے والے علاقے سے بندر روڈ جس کا موجودہ نام ایم اے جناح روڈ ہے،ٹاور تک جانے والی اس اہم سڑک اور اس سے متصل علاقوں میں زیادہ تر عمارتیں نہایت قدیم ہیں اور کئی تو اب بدقسمتی سے مخدوش حالت میں ہیں ۔بندر روڈ کی خوبصورتی اس سڑک پر قائم تاریخی عمارتوں سڑک کے بیچ چلنے والی ٹرام سروس کے حوالے سے ہوتی تھی۔
یہاں پر خالق دینا ہال بھی ہے۔اس خوبصورت عمارت میں 70 فٹ لمبے اور 40 فٹ چوڑے ہال کے علاوہ لائبریری کے لیے بھی دو کمرے تعمیر کیے گئے ہیں۔ 14 جولائی 1904 اُس وقت کے کمشنر سندھ مسٹر ینگ ہسبینڈ نے اس عمارت کا افتتاح کیا۔ تعمیر کے بعد اس کا ہال کراچی کی مختلف سیاسی اور سماجی تقریبات کے لیے استعمال ہوتا رہا، مگر ستمبر 1921 میں جب مولانا محمد علی جوہر اور ان کے رفقاء پر بغاوت کا مقدمہ چلایا گیا تو اس عمارت کو لازوال تاریخی اہمیت حاصل ہو گئی اور برصغیر کا بچہ بچہ اس سے واقف ہو گیا۔
اجمل کمال کی کتاب ’’کراچی کی کہانی‘‘ میںپیر علی محمد راشدی کی یادداشتوں کے حوالے سے ذکر ہے"بندر روڈ پر بھی خوب چہل پہل ہوتی تھی مولے ڈینو کا مسافر خانہ غلام حسین خالق ڈینا ہال، ڈینسو ہال، میری ویدر ٹاور، اسمال کاز کورٹ، کسٹم ہاؤس، پورٹ ٹرسٹ بلڈنگ، اس سفر کے سنگ میل تھے۔ ڈینسوہال کے پاس دائیں اور بائیں ہاتھ سڑکیں نکلتی تھیں۔ بائیں ہاتھ والی سڑک "نئی چالی" محلے سےگزر کر میکلوڈ روڈ پر پہنچتی تھی۔ داہنے ہاتھ دو سڑکیں نکلتی تھیں، ایک میریٹ روڈ، جس پر کاروباری کھولیاں اور دکانیں تھی، اور دوسری طرف نیپئیر روڈ ،جس کے شروع میں میمن بیوپاریوں کے دفتر تھے (سر حاجی عبداللہ ہارون کا دفتر اور بعد میں صوبائی مسلم لیگ کا دفتر اسی سڑک پر تھا)۔ کراچی میں تقسیم سے قبل جانوروں کے لیے قائم کیا جانے والا پہلااسپتال بھی اسی سڑک پر ہے۔ ریڈیو پاکستان کی تاریخی عمارت بھی بندر روڈ پر ہے۔ یہاں پر ڈیڑھ سو برس پرانا مولوی مسافر خانہ اور آشرم ہوا کرتا تھا، جہاں دور دراز سے آئے ہوئے لوگ کچھ روز کےلئے رکتے اور کام کاج کے بعد چلے جاتے تھے۔ اب مولو ی مسافر خانہ ، آشرم کی جگہ کچے پکے مکان کا جنگل بنا ہوا ہے۔ مولوی مسافر خانہ کے عین سامنے ایک چھوٹا سا تکونا پارک ہوتا تھاجس کا نام شیوجی پارک تھا۔
بندر روڈ کے حوالے سے احمد رشدی نے بندر روڈ سے کیماڑی میری چلی رے گھوڑا گاڑی 1954 میں گائی تھی۔ جسے مہدی ظہیر نے تحریر کیا تھا۔ اس کی لاجواب دھن بھی انھو ں نے ہی بنائی تھی۔ اس نظم کی بے حد پسندیدگی کی وجہ سے انھیں بے پناہ شہرت ملی۔ 1949 میں بندر روڈ کا نام تبدیل کر کے محمد علی جناح روڈ رکھا گیا ۔ بندر روڈ ہر صبح کو دھلتی تھی اور شام کو سوکھے پتے بھی چُنے جاتے تھے۔ معروف برطانوی مورخ الیگز ینڈرر ایف بیلی بندر روڈ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ’’ بندرروڈ کی لمبائی پونے تین میل ہے۔ یہ سڑک ایک بڑے میدان پر جا کے ختم ہوتی ہے۔ جسے جنرل پریڈ گراونڈ کہتے ہیں۔‘‘ بہر حال بندر روڈ کا چپہ چپہ اور ہر عمارت ایک داستان ہے۔ جس بندر روڈ کو میری ویدر ٹاور، ڈینسو ہال کے حوالے سے پہچانا جاتا تھا، اب نہاری، مٹھائی یا کبابوں کی دُکانوں سے جانا جاتا ہے۔ بندر روڈ بانی پاکستان کے نام سے منسوب ہو نے کے باوجود اب دھلنا تو درکنار یہ سڑک بارش کے پا نی کو بھی ہضم نہیں کر سکتی۔ ریڈیو پاکستان "جہاں تھی خبروں کی دکان" اب صرف افسران کے بیٹھنے کی جگہ ہے۔ یہاں نہ اب زیڈ اے بخاری ہیں نہ ہی بندو خان اور نہ ہی مولانا احتشام الحق تھانوی۔ اب اس سڑ ک پر ٹریفک کو اپنی دسترس میں رکھنا ٹریفک پولیس کے بس سے باہر ہے۔
1930 کے عشرے میں تعمیر کی گئی عمارتوں کی جگہ لینے کے لیے پلازہ بن رہے ہیں۔ دو چار جو عمارتیں بچ گئی ہیں ان پر بھی بلڈر مافیا کی نظریں ہیں۔ ہندوؤں کی تعمیر کی گئی یہ بوسیدہ عمارتیں کسی وقت بھی ترقی کے نئے دور میں داخل ہو سکتی ہیں۔ لیکن کیا کہنے اس روڈ پر گاڑیاں چلانے والوں کے کہ وہ 50 سال بعد بھی بندر روڈ ہی کہتے ہیں. کہنے والے کہتے ہیں کہ بندر روڈ کو جناح صاحب سے منسوب کر کے ہم نے اس کا وہی حشر کیا جو ان کے انتقال کے بعد پاکستان کے ساتھ کیا ہے۔