• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج کل کے مسابقتی دور میں کسی بھی قوم کے لیے دیگر ترقی یافتہ اقوام کا مقابلہ کرنے اور ان کے ساتھ قدم سے قدم ملاکر چلنے کے لیےمختلف مہارتوں کا ہونا ضروری ہے۔ تعلیم ایک ایساجزو ہے، جس کے ذریعے کسی بھی قسم کی مہارت کو فروغ دیا جاسکتا ہے۔ یہ تعلیم ہی ہے جو اقوام کی نشوونما میں اہم کردار ادا کرتے ہوئےان کے عروج کا باعث بنتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماہرین کسی بھی قوم یا معاشرے کی ترقی میں تعلیم کے کردار کو لازم وملزوم تسلیم کرتے ہیں۔

دنیا بھر میں شرح خواندگی کا جائزہ لیا جائےتو گزشتہ برس کی ایک رپورٹ کےاعداد وشمار کے مطابق، تعلیم کے حوالے سے سب سے زیادہ دور اندیش ممالک میں سرفہرست ناروے، کیوبا، آذربائیجان، ترکمانستان، ازبکستان، پولینڈ اور جارجیا ہیں، جہاں خواندگی کی شرح 100فیصد ہے جبکہ دنیا میں بالادستی قائم رکھنے والے ممالک مثلاًامریکا، اٹلی، کینیڈا، آسٹریلیا، ڈنمارک، فرانس، آئرلینڈ، جاپان اورنیوزی لینڈ میں خواندگی کی شرح 99فیصد ہے۔ پاکستان اس فہرست میں 58فیصد شرح خواندگی کے ساتھ بھارت سے پیچھے ہے، جہاںیہ شرح69 فیصد ہے۔

اگر ہم بہتری کے خواہاں ہیں تو ہمیں حقیقی معنوں میں خواندگی کی شرح میں اضافہ کرنا ہوگا۔ ہمیں شعبہ تعلیم ان ہاتھوں کے سپرد کرنا ہوگا جو نہ صرف اعلیٰ تعلیم یا فتہ ہوں بلکہ تعلیم کی اہمیت و افادیت یا کسی بھی معاشرے میں اس کے کردار سے واقف ہوں کیونکہ اگر کوئی شے ایک ترقی پذیر ملک کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں لاکھڑا کرسکتی ہے، تو وہ تعلیم ہی ہے۔ ترقی حاصل کرنے کے لیے تعلیم ہی وہ ذریعہ ہے، جس کی بدولت اہل مغرب نے دنیا بھر میں اپنا سکّہ جمایا۔

جنوبی افریقہ میں رنگ ونسل پرستی کے خلاف طویل جدوجہد کرنے والے رہنمانیلسن منڈیلا کا قول ہے،’’تعلیم اس قوم کے لیے ایک مضبوط ہتھیار کی مانند ہے، جو دنیا تبدیل کرنے کی خواہشمند ہوتی ہے‘‘۔ جو معاشرہ تعلیم سے بہرہ ور نہیں ہوتا وہ درج ذیل حقائق کے بارے میں سنجیدہ نہیں ہوتا۔

رائے شماری میں تعلیم کا کردار

آج ملک بھرمیں ہر طرف کرپشن اورمنی لانڈرنگ کا شور ہے اور اس کا بار جمہوری معاشرے میں منتخب نمائندوں کے سر پر ہے۔ اس کا تعلق بھی کم شرح خواندگی سے ہے کیونکہ جن ممالک میں شرح خواندگی زیادہ ہوتی ہے وہاں کی عوام انتخابات کے دوران رائے شماری کرتے ہوئے اَن پڑھ یا کم شرح خواندگی والی اقوام کی نسبت زیادہ بہترفیصلے کرپاتی ہے۔ تعلیم یافتہ اقوام ہی اس بات کا درست فیصلہ کرنے کے قابل ہوتی ہیںکہ ملکی معیشت میں مثبت تبدیلی کے لیے کون ان کے ووٹ کا زیادہ اہل ہے اور کون نہیں۔ اس کے علاوہ پڑھے لکھے عوامی نمائندے باشعور ہونے کی وجہ سے کرپشن اور دیگر غیرقانونی اقدامات سے دور رہتے ہیں۔ ملک میں منفی صورتحال سے بچنے کے لیے بھی تعلیم ایک بہترین حل ثابت ہوسکتی ہے۔

روزگار میں اضافہ

کسی بھی ملک کی اقتصادی و معاشی ترقی کی راہ میں بے روزگاری سب سے بڑی رکاوٹ تسلیم کی جاتی ہے۔ ہمارے ملک میں بھی بے روزگاری ایک اہم ترین مسئلہ ہے، تاہم اگر عوام زیادہ سے زیادہ پڑھی لکھی اور تعلیم یافتہ ہوگی تو اس کے لیے نہ صرف قومی بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی روزگار کے دَر کھل جاتے ہیں۔ ٹیکنیکل ایجوکیشن کی ہی مثال لی جائے تو اس تعلیم کی اہمیت نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر کے ممالک میں ہے۔

سنگل مدرز کیلئے تعلیم کی اہمیت

ازدواجی جوڑوں میں علیحدگی یا پھر شوہر کی وفات کی صورت میں عورت کے لیے تعلیم خاصا اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اگر عورت تعلیم یافتہ ہوگی تو علیحدگی یا بیوہ ہونے کے باوجود خودمختار حیثیت میں وہ اپنےبچوں کی اچھی پرورش اور تعلیم وتربیت کے ذریعے انہیں ملک وقوم کا ایک اچھا اور ذمہ دار شہری بناسکتی ہے۔

دہشت گردی کی شرح میں کمی

تعلیم کا سب سے فائدہ دہشت گردی میں کمی کی صورت سامنے آتا ہے کیونکہ خواندہ ممالک میں دہشت گردی کی شرح ناخواندہ ملکوں کی نسبت کم دیکھنے میں آتی ہے۔ پاکستان کو دہشت گردی سے متاثرہ ملکوں میں شمارکیا جاتا ہے۔ ملک دشمن عناصرنوجوانوں کو تعلیم سے بدگمان کرکے ایسے کام کرواتے ہیں جو دہشت، خوف اور حادثات کا سبب بنتے ہیں۔خواندگی بڑھاکر نوجوانوں کا نہ صرف مستقبل روشن کیا جاسکتا ہے بلکہ ان کی بصیرت اور صلاحیتوں سے بھی فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔

بطور انقلاب مگر کیسے؟

تعلیم ایک ایسا ہتھیار ہے جس کی بدولت انقلاب برپا کیا جاسکتا ہے۔ عالمی اُفق پر آج ہم ایک ایسے دور میں شب وروز گزاررہے ہیں جس کا پہلا مطالبہ تخلیق، جدت اور معلومات کے تمام وسائل (مثلاًتحقیقی،تجزیاتی اور تنقیدی خیالات) کا انضمام و انصرام کرنا ہے اور اس کے لیے تعلیم کا کردارہمیشہ سے کلیدی رہا ہے۔ دنیا میں تیزی سے رونما ہونے والی سماجی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے جو چیز وقت کی اہم ضرورت ہے وہ خواندگی، تخلیقی صلاحیتیں اور مختلف اقسام کی مہارتوں سے آراستہ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد ہے، جو عالمی سطح پر پیش آنے والی ان تبدیلیوں کا مقابلہ کرسکے۔ نوجوانوں کی اس تعداد کی تیاری کے لیےرسمی اور غیر رسمی نظام تعلیم، تدریس کے طریقہ کار، نصابی کتب اور اساتذہ کے رویوں کو ’ری ڈیزائن‘ کرنے، دوہرا نظام تعلیم ختم کرنے اورملک بھر میں اسکولوں، کا لجوں اور یونیورسٹوں کی تعداد بڑھانے کی ضرورت ہے۔

تازہ ترین