• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمارا ملک گزشتہ کئی سال سے عجیب کیفیت کا شکار ہے۔ ہم بحیثیت قوم اخلاقیات اور اعلیٰ اقدار کو پسِ پشت ڈال چکے ہیں۔ سب سے زیادہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ سیاسی، صحافتی، دانشورانہ اور رائے عامہ پر اثر انداز ہونے والے دیگر شعبوں میں خاص طور پر اخلاقیات، اقدار اور طے شدہ اصولوں کا بہت کم خیال رکھا جا رہا ہے۔ ایک دوسرے پر الزامات لگانا، برا بھلا کہنا، تذلیل و توہین کرنا، مذہبی، فرقہ وارانہ، نسلی، لسانی اور قومی تعصبات اور نفرتوں کا برملا اظہار کرنا، ایک دوسرے کو نیچا دکھانے والا بیانیہ اختیار کرنا اور اپنی تنگ نظر سوچ کی بنیاد پر فتوے جاری کرنا یہاں نہ صرف معمول بن گیا ہے بلکہ اسے ہرگز برا تصور نہیں کیا جاتا۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہماری قیادت اور اہل رائے طبقات Immatureہیں ۔ یہ صورتحال انتہائی خطرناک ہے اور اس کے تدارک کے لئے فوری طور پر نیشنل ڈائیلاگ( قومی مکالمے) کی ضرورت ہے۔

ہمارے لوگ جس طرح کی گفتگو کے عادی ہو چکے ہیں، وہ کسی بھی مہذب اور جمہوری معاشرے میں برداشت نہیں کی جا سکتی۔ اس طرح کی گفتگو کے ایک ایک جملے اور ایک ایک لفظ پر وہاں کا کوئی نہ کوئی قانون حرکت میں آسکتا ہے۔ آپ مہذب اور جمہوری معاشروں میں کسی ثبوت کے بغیر کسی کو چور، ڈاکو، لٹیرا، غدار، ملک دشمن یا عوام دشمن نہیں کہہ سکتے۔ آپ وہاں کسی کو مذہبی، مسلکی، نسلی، لسانی یا گروہی بنیاد پر تضحیک اور توہین کا نشانہ نہیں بنا سکتے۔ کسی کو کافر، جاہل، پسماندہ اور بے شعور نہیں کہہ سکتے۔ آپ دبے اور مناسب الفاظ میں بھی تعصبات اور نفرتوں کا اظہار نہیں کرسکتے اور نہ ہی اپنے زور بیان سے کسی کو نیچا دکھا سکتے ہیں۔ آپ وہاں اپنی سوچ کا اظہار تو کر سکتے ہیں لیکن یہ فتوے نہیں دے سکتے کہ دوسروں کی سوچ غلط ہے اور جو آپ کی بات نہیں مانتا ہے، وہ برے سلوک کا مستحق ہے۔

میں یہاں کسی کا نام نہیں لینا چاہتا۔ سیاست، مذہب اور صحافت میں اس وقت ہمارے ہاں جو بیانیہ رائج ہے، اسے مہذب معاشروں کی کسوٹی پر پرکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ بیانیہ ہمیں بحیثیت قوم تباہی کی طرف دھکیل رہا ہے۔ انتہا پسندی کا بارود جمع ہو رہا ہے اور اس کے ارد گرد نفرتوں کی آگ بھڑکائی جا رہی ہے۔ دلیل کا خاتمہ ہو گیا ہے۔ پاکستانی معاشرہ کبھی بھی ایسا نہیں تھا۔ ہم نے وہ دور بھی دیکھا ہے کہ جب معاشرے میں نظریاتی بنیادوں پر تقسیم بہت گہری تھی لیکن ہر مکتبِ فکر کے لوگ انتہائی حساس موضوعات اور سوالات پر بھی دلائل اور علم کی بنیاد پر بات کرتے تھے۔ اس زمانے کے دائیں اور بائیں بازو کے سیاستدانوں، علما، دانشوروں اور صحافیوں کی گفتگو اور تحریروں میں دلائل، منطق، شائستگی، علم اور گہرائی ہوتی تھی۔ اس زمانے میں تخلیق کائنات اور بعض حساس موضوعات پر بھی مباحثہ ہوتا تھا لیکن کوئی مباحثے میں اخلاقیات، اقدار اور طے شدہ اصولوں کو پامال نہیں کرتا تھا اور نہ ہی کوئی فساد ہوتا تھا۔ سوشلزم اور سرمایہ دارانہ نظام کے حق میں لکھا اور بولا جاتا تھا۔ آمریت اور جمہوریت پر مناظرے جاری رہتے تھے لیکن یہ گھٹیا بیانیہ نہیں ہوتا تھا۔ پہلی مرتبہ جب پاکستانی ریاست نے مذہب کو سیاست میں استعمال کیا تو عدم برداشت والا اور دلیل سے عاری بیانیہ رائج ہونا شروع ہوا۔ پھر یہ سلسلہ چل پڑا اور ہر ایک اپنی بات کو درست قرار دینے کے لئے میڈیا پر حاوی رہنے اور زیادہ شور مچانے کے فارمولے پر عمل کرنے لگا۔ اس میں سچ اور حقائق گم ہو گئے۔ اس کا فائدہ ان قوتوں نے اٹھایا، جو مکالمے اور مباحثے سے خوفزدہ تھیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے میڈیا اپنی غیر جانبداری اور ساکھ تباہ کر بیٹھا اور انتہائی معذرت کے ساتھ میڈیا سے وہ باتیں ہونے لگیں، جو کسی مخصوص پروپیگنڈے کا حصہ لگتی ہیں۔ ایک اور تشویش اور شرمناک بات یہ ہے کہ نہ صرف عدالت میں زیر سماعت مقدمات پر بحث کے ذریعہ اثرانداز ہونے کی کوشش کی جاتی ہے بلکہ بعض عدالتی فیصلے بھی ایسے ہوئے، جیسے پروپیگنڈے اور ذرائع ابلاغ میں اس وقت کے رجحانات کو مدنظر رکھ کر کئے گئے ہوں۔ اس صورتحال میں ایک طرف تو یہ پتہ نہیں چل رہا ہے کہ اصل لڑائی کیا ہے۔ معاشرے میں تضادات کیا ہیں۔ اس لڑائی میں فریقین کون ہیں اور لوگوں کے حقیقی غصے کا رخ کس طرف ہونا چاہئے؟ جو استحصالی، استبدادی اور حقیقی لٹیرے طبقات اور گروہ ہیں، وہ اس بیانیہ میں چھپ گئے ہیں، جو بیانیہ الزام تراشی اور گالم گلوچ والا ہے۔ دوسری طرف ادارے تباہ ہو رہے ہیں۔ اعلیٰ اقدار کا خاتمہ ہور ہا ہے۔ انتہا پسندی اور نفرتوں میں اضافہ ہو رہا ہے اور دنیا ہمیں ایک غیر مہذب قوم کے طور پر دیکھ رہی ہے، جس کے سیاستدان اسٹیٹس مین شپ سے محروم ہیں، جس کے دانشوروں کے پاس کوئی دلیل اور علم نہیں ہے، جس کے صحافیوں کی زبان اور تحریر صحافتی نہیں ہے اور جس کے علما معقولیت کو مسترد کرتے ہیں۔ آئیے ہم سب مل کر بیٹھیں۔ ایک قومی مکالمہ کے لئے مل بیٹھیں۔ ہم اپنے رویوں، اپنی باتوں، اپنی گفتگو اور اپنے طرز عمل کا ازسر نو جائزہ لیں۔ ہم اپنی مذہبی اور قومی اخلاقیات، اعلی اقدار، مذہبی روایات، اپنے آئین میں دی گئی ضمانتوں اور عالمی سطح پر طے شدہ اصولوں کے مطابق ایک نیا ضابطہ جو ہمیں اقدار، اخلاقیات، آئین اور طے شدہ اصولوں کے مطابق گفتگو کرنے، تقریر کرنے، بیانات دینے، تجزیہ کرنے اور الفاظ کو ضبط تحریر میں لانے کا پابند کرے۔ ہمیں قائداعظم محمد علی جناح ؒ اور دیگر اکابر سیاستدانوں کا بیانیہ اختیار کرنا ہے اور ان کے وژن کے مطابق پاکستان اور پاکستانی سماج کو بنانا ہے۔

تازہ ترین