• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بیسویں صدی کے آغاز میں فسطائیت کی تحریک نے جنم لیا اور دیکھتے ہی دیکھتے کئی ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ کارل مارکس اور مسولینی نے جو نظریات متعارف کروائے، آگے چل کر اس کی بنیاد پر کئی ملکوں میں فاشسٹ حکومتیں قائم ہوئیں۔ سوویت یونین میں لینن، ٹراٹسکی اور جوزف اسٹالن نے فاشزم کو فروغ دیا تو اٹلی میں خود مسولینی نے فاشسٹ حکومت کی بنیاد رکھی۔ مسولینی کی دیکھا دیکھی جرمنی میں ہٹلر نے فاشسٹ طرزحکومت کو فروغ دیا۔ مسولینی نے دعویٰ کیا کہ فاشزم محض تحریک یا نظریہ نہیں بلکہ مذہب ہے اور بیسویں صدی فاشزم کی ہوگی لیکن یہ فاشزم دراصل ہے کیا؟ فاشزم کا بنیادی اصول یہ ہے کہ پیار اور جنگ کی طرح فاشزم کے نفاذ کے لئے بھی سب جائز ہے۔ فاشزم پر ایمان لانے والوں کا خیال ہے کہ اقتدار پر اُن کا حق ہے جو بزور طاقت اسے چھین لینے کی اسطاعت رکھتے ہوں، جو مضبوط ہوں، لڑنا جانتے ہوں، ذہین ہوں، پرکشش شخصیت کے مالک ہوں۔ فاشسٹوں کے مطابق تشدد میں کوئی قباحت نہیں بلکہ مقاصد کے حصول کے لئے انتہائی ضروری ہے۔ فاشزم کی رو سے غم روزگار محض مردوں کی میراث ہے جبکہ خواتین محض بچے پیدا کرنے والی مشینیں ہیں۔ فاشزم کا ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ یورپی باشندوں کو دیگر خطوں میں رہنے والے انسانوں پر فوقیت حاصل ہے۔ سیاسیات کے پروفیسر ڈاکٹر لارنس برٹ نے جرمنی میں ہٹلر، اٹلی میں مسولینی، اسپین میں فرانکو، انڈونیشیا میں سہارتو اور چلی میں پنوشے کے ادوار کا باریک بینی سے مشاہدہ و مطالعہ کرنے کے بعد 2003 میں ایک ناول لکھا جس میں 14ایسی علامتیں لکھی گئی ہیں جو حیرت انگیز طور پر ان سب فاشسٹ حکومتوں کے ہاں مشترک تھیں۔ ان علامتوں یا خصوصیات کو فاشزم ماپنے کا بیرومیٹر کہا جا سکتا ہے اور اگر آپ یہ تفصیلات جاننا چاہتے ہیں تو 17مئی 2018کو انہی صفحات پر شائع ہونے والے کالم میں بیان کی جا چکی ہیں۔

ان فاشسٹ حکومتوں کی سوچ یہ رہی کہ خون کو خون سے دھویا جا سکتا ہے یعنی تشدد کو تشدد کے نتیجے میں دبایا جا سکتا ہے۔ فاشسٹوں کا خیال تھا کہ ملک میں خرابی یا برائی کی جڑ محض چند سو یا چند ہزار لوگ ہیں، اگر انہیں ٹھکانے لگا دیا جائے تو سب کچھ ٹھیک ہوسکتا ہے۔ اسی سوچ کے تحت مسولینی نے اٹلی اور ہٹلر نے جرمنی میں ’’عملِ تطہیر‘‘ کا آغاز کیا اور ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں لوگ مارے گئے۔ حکومت کے خلاف آواز اُٹھانے والوں کو ملک دشمن اور غدار کہہ کر ماردیا جاتا۔ یہ سلسلہ برسہا برس تک چلتا رہا مگر پاک سرزمین کو غداروں اور ملک دشمنوں سے پاک صاف نہ کیا جا سکا۔ ظلم اور جبر حد سے گزرا تو ستائے اور تنگ آئے ہوئے لوگوں نے بغاوت کردی۔ 27اپریل 1945کو مسولینی کو زنجیروں میں جکڑا جاچکا تھا۔ مختصر سمری ٹرائل کے بعد بنتو مسولینی، اس کی محبوبہ اور چند دیگر ساتھیوں کی لاشیں اطالوی شہر میلان لاکر چوراہے میں لٹکا دی گئیں۔ کئی دن تک لوگ نفرت کا اظہار کرتے رہے یہاں تک کہ لاشیں آلائشوں اور گندگی سے اَٹ گئیں۔ عبرت کا نشان بنی ان لاشوں کو کئی ہفتوں بعد سپرد خاک کیا گیا تو لوگوں نے اپنا غصہ ٹھنڈا کرنے کے لئے قبر کھود ڈالی۔ حکومت نے مسولینی کی باقیات اپنے قبضے میں لے لیں لیکن اڑچن یہ تھی کہ انہیں کہاں دفن کیا جائے؟ قبر بنانے کی صورت میں لوگ ایک بار پھر دھاوا بول دیتے۔ چنانچہ یہ باقیات لوہے کے ایک صندوق میں بند کرکے رکھ دی گئیں اور جب حالات معمول پر آگئے تو دس سال بعد مسولینی کی باقیات کو اس کے آبائی گائوں میں دفنایا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جس روز مسولینی اور اس کی محبوبہ کو فائرنگ اسکوارڈ کے سامنے کھڑا کرکے گولیاں ماری گئیں اس کے دو دن بعد ہٹلر نے اپنی اہلیہ سمیت خودکشی کرلی۔

علومِ سیاسیات کے ماہرین کا خیال ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے دوران فاشزم اپنی موت آپ مرچکا ہے لیکن میرے خیال میں فاشزم اب بھی پوری آب و تاب کیساتھ موجود ہے۔ بعض لوگ ’’نیو فاشزم‘‘ کا نعرہ لگاتے ہیں تاکہ فاشزم کے تاریک ماضی سے اپنی جان چھڑاسکیں جبکہ بعض لوگ برملا فاشزم کا جھنڈا نہیں اُٹھاتے لیکن جب وہ اظہار خیال کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ فاشسٹ ہیں۔ کئی دنوں سے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ شیئر کی جا رہی ہے کہ پرویز مشرف نے اقتدار سنبھالا تو ڈپٹی چیئرمین نیب میجر جنرل عنایت اللہ خان نے پرویز مشرف سے کہا کہ لوٹی ہوئی دولت واپس لانی ہے تو اس کا ایک ہی طریقہ ہے۔ پرویز مشرف نے پوچھا، وہ کیا؟ عنایت اللہ خان نے کہا، اچھی طرح تحقیق کرلیں کہ کن لوگوں نے پاکستان کو لوٹا، پھر ان سب کو گرفتار کرلیں۔ ہر جمعہ کو ان کے ایک ہاتھ کی انگلی کاٹ کر پھینکنا شروع کردیں۔ انگلیاں ختم ہوجائیں تو ہاتھ کاٹیں، پھر پیروں سے شروع کرلیں اور یہ سلسلہ تب تک جاری رکھیں جب تک لوٹی ہوئی رقم واپس نہ آجائے۔ پرویز مشرف نے کہا، یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ عنایت اللہ خان نے کہا کہ اسلام تو ہاتھ کاٹنے کی اجازت دیتا ہے میں تو صرف انگلیاں کاٹنے کو کہہ رہا ہوں۔ ہاتھ کاٹنے کی نوبت ہی نہیں آئے گی اور لوٹا ہوا پیسہ واپس آجائے گا۔ پرویز مشرف نے مسکرا کر کہا، یہ نہیں ہوسکتا، تم بہت ظالم آدمی ہو۔ عنایت اللہ نے کہا، اگر یہ نہیں ہو سکتا تو آپ لوٹی ہوئی رقم کا ایک روپیہ بھی واپس نہیں لا سکتے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ واقعہ من گھڑت ہوگا لیکن اسے جس خشوع و خضوع سے شیئر کیا جا رہا ہے اس سے محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں فاشزم کے چاہنے والوں کی کوئی کمی نہیں۔

چند افراد کو گاہے یہ خیال چٹکیاں کاٹتا ہے کہ برائی کی جڑ محض چند سو یا چند ہزار لوگ ہیں اگر ان سے نجات حاصل کر لی جائے تو ملک ترقی کر سکتا ہے۔ ان سیاستدانوں نے ملک کا ستیاناس کر دیا ہے اگر انہیں کسی بحری جہاز میں لاد کر سمندر برد کردیا جائے تو ملک کی تقدیر سنور سکتی ہے۔ کرپشن پر پھانسی کی سزائیں شروع ہو جائیں اور پانچ ہزار لوگوں کو لٹکا دیا جائے تو یہ ملک ٹریک پر آجائے۔ اگر یہ سطور پڑھتے ہوئے آپ کو بھی لگ رہا ہے کہ یہی اس مسئلے کا حل ہے تو مبارک ہو آپ کے دماغ میں بھی فاشزم کا کیڑا پرورش پا رہا ہے۔ بالفرض محال فاشسٹوں کی اس بات سے اتفاق بھی کر لیا جائے کہ پانچ ہزار لوگوں کو پھانسی دینے سے مسائل حل ہو سکتے ہیں تو یہ کیسے طے ہوگا کہ کس کس کو پھانسی دی جائے؟ ان پانچ ہزار افراد کی فہرست میں کون کون شامل ہوگا ؟عین ممکن ہے کہ تجویز دینے والے اور ان کی پشت پناہی کرنے والے ہی اس کی زد میں آجائیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین