ٹھیک پانچ برس قبل 19جون کو سپریم کورٹ نے ایک ایسا تاریخی فیصلہ سنایا تھا جس سے عرصہ دراز سے احساس عدم تحفظ کی شکار ملک بھر کی غیرمسلم اقلیتی کمیونٹی کو امید کی کرن نظر آئی تھی،اس فیصلے کی یاد میں مجھے گزشتہ روز اسلام آباد کے مقامی ہوٹل میںہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی جانب سے منعقدہ تقریب کا دعوت نامہ موصول ہوا لیکن میں اپنی حالیہ یورپ یاترا کے باعث شرکت نہ کرسکا، تاہم میں نے ضروری سمجھا کہ میں انیس جون کے فیصلے کے عملی نفاذ کے حوالے سے اپنے تاثرات پیش کروں ۔ یہاں میں یہ واضح کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ بطور قانون پسند شہری مجھےعدالتوں پر مکمل اعتبار ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ عدالتی فیصلوں پر عملدرآمد ہر قیمت پر ہونا چاہئے، اسی حوالے سے میرا عدالتوں بالخصوص اعلیٰ عدلیہ سے بہت پرانا تعلق ہے اوراپنی کمیونٹی کیلئے عدل و انصاف کی فراہمی یقینی بنانے کیلئے میری پرامن جدوجہدکا بڑا حصہ عدالتوں میں گزرا ہے۔ یہ ستمبر 2013ء کی بات ہے جب شدت پسندوں نے پشاور میں واقع ایک چرچ کو نشانہ بنایا، اس ظالمانہ حملے کے نتیجے میں ایک سو سے زائد معصوم پاکستانی کرسچییئن شہری ہلاک ہوگئے ، اس سانحہ پراس وقت کے چیف جسٹس آف سپریم کورٹ جناب تصدق حسین جیلانی نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے جسٹس شاہ عظمت سعید اور جسٹس مشیر عالم کے ساتھ تین رکنی بینچ تشکیل دیا تاکہ پاکستان میں بسنے والی محب وطن اقلیتوں کے جان و مال اور حقوق کاتحفظ یقینی بنانے کیلئے ملکی آئین کے آرٹیکل 20 کی روشنی میں جامع قانون سازی کی جاسکے اور ریاست کو شہریوں کا تحفظ کرنے کیلئے عملی اقدامات اٹھانے کا پابند بنایا جائے، اس زمانے میں چترال کی کیلاش کمیونٹی اورہندوشہریوں سمیت دیگر غیرمسلموں کو بھی مذہبی تفریق کی بناپر ہراساں کیا جارہا تھا۔یہی وجہ تھی کہ میں نے بطور سرپرست اعلیٰ پاکستان ہندوکونسل اور قومی اسمبلی میں اقلیتی رکن ملک بھر کی غیر مسلم اقلیتوں کو شدت پسندوں کے شر سے محفوظ رکھنے کیلئے عدالت میں اپنا موقف پیش کرنے کی ٹھانی، اپنی تمام تر سیاسی و سماجی مصروفیات اور سیکورٹی خدشات کے باوجود میں جناب چیف جسٹس کے روبرو پیش ہوتا رہا،میں نے سپریم کورٹ میں دوران سماعت متعدد مواقع پر ہندو شہریوں کی شادیوں کی قانونی رجسٹریشن نہ ہونے کا معاملہ بھی اٹھایااور عدالت عالیہ کو پاکستان ہندوکونسل کے زیراہتمام ہندوباشندوں کی شادیوں کو قانونی تحفظ فراہم کرنے کیلئے شادی سرٹیفکیٹ کے اجراء کے بارے میں بتایا،میری موجودگی میں نادرا کے حکام نے عدالت عظمیٰ کو یقین دہانی کرائی تھی کہ ہندو جوڑوں کی شادیوں کی رجسٹریشن کا عمل جلد شروع کردیا جائے گا۔میں نے عدالت کو ملک بھر میں واقع مقدس مذہبی مقامات اور عبادت گاہوں کے تحفظ کیلئے خصوصی ٹاسک فورس قائم کرنے کی استدعا کی، میرا موقف تھا کہ تمام مذاہب احترام انسانیت اور دوسرے مذاہب کا احترام یقینی بنانے کا درس دیتے ہیں، بالآخر 19جون کا وہ تاریخی دن بھی آگیا جب سپریم کورٹ نے تمام حقائق کا بغور جائزہ لینے کے بعد اپنا تفصیلی فیصلہ سنا دیا، فیصلے میں ہندو بچیوں کو زبردستی بھگا کر لے جانے اور جبری مذہب تبدیلی کا بھی تذکرہ کیا گیا تھا، سپریم کورٹ نے میرے موقف کی تائید کرتے ہوئے وفاقی حکومت کو حکم جاری کیا تھا کہ ملک میں بسنے والی اقلیتوں کی عبادت گاہوں کے تحفظ کے لئے خصوصی پولیس ٹاسک فورس تیار کی جائے، اسی طرح اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے ایک خصوصی کونسل بھی تشکیل دینے کا حکم دیا گیا جو آئین میںدرج اقلیتوں کے حقوق پر عمل درآمد یقینی بنائے،اس کونسل کو اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کیلئے تجاویز دینے کا اختیار بھی دیا گیا۔جناب چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے اپنے فیصلے میں کہا کہ وفاق اور صوبوں میں نوکریوں کے حوالے سے اقلیتوں کے کوٹے پر عمل درآمد کو بھی یقینی بنایا جائے،حکومت ملک میں مذہبی رواداری کو فروغ دینے کیلئے قابل نفرت مواد کو رد کرتے ہوئے ملک بھر کے تعلیمی نصاب میں مذہبی ہم آہنگی اور برداشت و تحمل سے متعلق مضامین شامل کرے، اعلیٰ عدالت نے ایسے افراد کے خلاف سخت کارروائی کا بھی حکم دیا جو سوشل میڈیا پر اقلیتوں یا مذہب کے بارے میں نفرت انگیز مواد پھیلانے میں ملوث ہیں۔سپریم کورٹ نے اپنے حکم نامہ میں یہ بھی کہا کہ اسلام کے مطابق کسی عربی کو عجمی پر اور کسی گورے کو کالے رنگ پر کوئی فوقیت نہیں ہے اور اسلام میں تمام انسان برابر ہیں۔افسوس! ن لیگی حکومت پاناما اسکینڈل میں الجھ کر رہ گئی اور محب وطن غیر مسلم کمیونٹی کے تحفظ کیلئے سپریم کورٹ کے واضح احکامات سرخ فیتے کے نذر ہوگئے۔ اس پانچ سال کے عرصے میں پاکستان میں بہت کچھ تبدیل ہوا،پانچ عدد چیف جسٹس صاحبان ریٹائرڈ ہوگئے،ن لیگی حکومت قصہ ماضی بن گئی ،دیگر عوام کی مانند اقلیتی کمیونٹی نے بھی عمران خان سے امیدیں وابستہ کرلیں اورنئے پاکستان کے نعرے پر پی ٹی آئی برسراقتدار آگئی۔میں نے پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت کے موقع پر عمران خان کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میںغیرمسلم اقلیتی کمیونٹی کو درپیش مسائل کے حل کیلئے پی ٹی آئی کو غیرمشروط تعاون کی یقین دہانی کرائی، میں نے انہیں آگاہ کیا کہ پاکستان کو ریاست مدینہ کی طرز پر ڈھالنے کی جدوجہد میں اقلیتی برادری انکے ساتھ اسی طرح شانہ بشانہ کھڑی ہے جیسے تحریک پاکستان کے دوران قائداعظم کے ہمراہ جوگندر ناتھ منڈل جیسے عظیم غیرمسلم اکابرین ۔افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آج پانچ سال بعد میری نظر میں سوائے ہندو میرج ایکٹ کے کوئی ایک ایسا قابلِ ذکر اقدام نہیںہوا جس سے سپریم کورٹ کے فیصلے کے عملی نفاذ کا تاثر مل سکے۔ وزیر اعظم عمران خان اپنی تقاریر میں ریاست مدینہ بنانے کیلئے اپنے عزم کا اعادہ کرتے ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اسے عملی جامہ تب ہی پہنایا جاسکتا ہے جب سپریم کورٹ کے انیس جون 2014ء کے تفصیلی فیصلے پر عملدرآمد کیلئے ٹھوس اقدامات اٹھائے جائیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)