• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سینیٹ،وزیراعظم صحابہ کیخلاف تقریر پر قوم سے معافی مانگیں،اپوزیشن

اسلام آباد ( خصوصی نمائندہ،اپنے نامہ نگار سے ) سینیٹ میں گزشتہ روز بحث کے دوران مولانا عطاء الرحمٰن نے بجٹ کو یہودیوں کا قراردیتے ہوئے مسترد کر دیا اور حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایاانہوں نے کہاکہ اگر ہم پارلیمنٹ میں ناموس تحفظ صحابہ کی بات نہیں کرسکتے تو پھر کہاں کرینگے، ایک ذمہ دار شخص اس طرح کی گفتگو کرے تو مسلمانوں کے جذبات اٹھیں گے ،جب تک وہ قوم سے معافی نہیں مانگتا ہم چپ نہیں رہینگے، قرآن صحابہ کرام کی بہادری کی گواہی دیتا ہے ، اگر صحابہ کی بات نہیں کرسکتا تو سینٹ کی نشست پر لعنت بھیجتا ہوں ، لعنت بھیجتا ہوں ایسے بجٹ پر جس کو آئی ایم ایف نے بنایا ، حکمرانوں کواپنی زبانوں کو لگام دینا ہوگا، انوار اللہ کاکڑ نے کہا ناموس صحابہ پورے ایوان کے ایمان کا حصہ ہے، تسلیم کرتا ہوں جن الفاظ کا استعمال کیا گیا اس سے بہتر الفاظ استعمال کئے جاسکتے تھے ، بشری غلطیوں کو بنیاد بنا کر اشتعال پیدا نہیں کرنا چاہئے ،حکومت کی ذمہ داری ہےکہ لوگوں کو تحفظ دے آج ہم سنگین معاشی مسائل سے دو چار ہیں، 24 ہزار ارب کا قرضہ غیر پیداواری سیکٹر میں استعمال ہوا جس سے ہم دلدل میں پھنس چکے ہیں حکومت نے مشکل فیصلے کئے ہیں ، مشکل حالات میں بہترین بجٹ پیش کیا ہے، دہشتگرد بندوق کے زور پر جنگ جیتنے کی کوشش کررہا ہے اور فوجی جوا ن انکا مقابلہ کررہے ہیں،ہمیں انکا خاتمہ اور حوصلہ شکنی کرنی ہوگی،رضا ربانی نے کہا کہ جو بجٹ آئی ایم ایف تیار کریگی وہ عوام کا بجٹ نہیں ہو گا اسکی تصدیق دو دن پہلے گورنر سٹیٹ بنک نے کر دی ہے ، نیشنل ڈویلپمنٹ کونسل بنائی گئی جس میں آرمی چیف کو ممبر بنایا گیا ، جب آئین کے اندر ایک ادارہ موجود ہے توایسے ادارے کیوں بنا ئے جارہے ہیں آرٹیکل 56 1کے تحت نیشنل اکنامک کونسل بنائی گئی جو ملکی معاشی صورتحال کا جائزہ لیتی ہے اور پالیسی بنانے میں مشورہ دیتی ہے اب متبادل ادارے کیوں بنا رہے ہیں اسکی ضرورت کیوں پیش آ رہی ہے بجٹ صرف فنانس منسٹر پیش کر سکتا ہے حکومت وضاحت کرے کہ وزیر ریونیو کو تحریری اختیار دیا گیا تھا جو اس نے بجٹ پیش کیا ،سینیٹر عثمان خان کاکڑ نے کہا کہ ملکی خارجہ، داخلہ، معاشی پالیسیوں، صوبوں اور مرکز کے درمیان کشمکش، ظلم اور امن و امان جیسے مسائل پر بجٹ کے براہ راست اثرات ہوتے ہیں ، 73 کے آئین کے بعض آرٹیکلز سے ہم مطمئن نہیں ، اسٹیبلشمنٹ صدارتی طرز حکمرانی مسلط کرنا چاہتی ہے مگر ہم اس کیلئے تیار نہیں، اگر یہ لوگ طاقت اور سازش کے تحت صدارتی طرز حکمرانی لانا چاہتے ہیں تو پھر آئندہ کا لائحہ عمل اور ہو گا ، 73 کے آئین پر متفق نہ ہوئے تو قومیں اپنا حق مانگ لیں گی، ملک کو تقسیم کی طرف لے جایا جا رہا ہے، صوبوں کی ازسرنو تشکیل کی جائے ، پشتونخوا کا الگ صوبہ ہونا چاہئے ،انہوں نے کہاکہ اٹھارھویں ترمیم کیخلاف سازشیں ہو رہی ہیں ، احتساب تو سب سے پہلے جرنیلوں کا ہونا چاہئے ، ضیا الحق اور مشرف سے احتساب شروع ہونا چاہئے ، اختر عبدالر حمٰن اور حمید گل نے افغان جنگ میں اربوں روپے جمع کئے ،جوڈیشری، سول اسٹیبلشمنٹ اور اسٹیبلشمنٹ کا احتساب ہونا چاہئے ، احتساب کے نام پر بلیک میلنگ ہو رہی ہے جوہمیں منظور نہیں، سی پیک منصوبہ سے مطمئن نہیں ، ہماری افواج نے دہشتگردوں کیخلاف آپریشن شروع کیا مگر ڈیڑھ سال قبل پشتونوں کیخلاف آپریشن شروع ہوا ، اب یہ اپوزیشن اور میڈیا کیخلاف شروع ہے اور پشتونوں کیخلاف بھی جاری ہے ، الیکشن فراڈ تھا لوگوں کو سلیکٹ کیا گیا، سب سے بڑی کرپشن الیکشن میں ہوئی ، ملک کو ویلفیئر سٹیٹ ہونا چاہئے مگر یہ ملٹری سٹیٹ ہے ، پی ٹی ایم ایک حقیقت ہے ان کے سادہ مطالبے ہیں ، آرمی چیف اور وزیراعظم نے کہا ہے کہ پی ٹی ایم کے مطالبے ٹھیک ہیں مگر لہجہ ٹھیک نہیں ، کیا وزیراعظم اور وزارت اطلاعات کالہجہ ٹھیک ہے ، پی ٹی ایم پر پابندی درست نہیں ، اس پر پارلیمانی کمیشن بننا چاہئے ، پی ٹی ایم والے کمیٹیوں میں بلانے پر آتے ہیں ، سینٹ کمیٹی میں کسی جنرل کو نہیں بلاسکتے ، پشتونوں کیخلاف تعصب کی پالیسی ہمیں قبول نہیں ، قرضوں کے حوالے سے ضیا الحق دور سے پارلیمانی کمیشن بننا چاہئے، ان لوگوں کو ڈوگر اور ثاقب نثار والی عدلیہ چاہئے ، فائز عیسیٰ والی نہیں ،صدر مملکت کے ذریعے عدلیہ پر ریفرنس کی شکل میں حملہ کیا گیا ، اگر ان کیخلاف فیصلہ آتا ہے تو یہ صدر مملکت کیخلاف ہو گا، سب کو معلوم ہے کہ 72 سال سے اسٹیبلشمنٹ نے اپنے عوام کیخلاف محاذ کھول رکھا ہے ، عوام سے نہیں دشمن سے جنگ کی جائے ، دہشتگردوں کیخلاف جنگ کی جائے، شمالی وزیرستان میں کرفیو لگا ہے ، وہاں عوام تکلیف میں ہیں ، غیراعلانیہ مارشل لا لگا ہوا ہے ، بجٹ میں سرکاری اخراجات میں اضافہ ہوا ، عوام پر بالواسطہ ٹیکس لگائے جا رہے ہیں ، روپے کی قدر گرانے سے قرضوں میں 26 سو ارب روپے کا اضافہ ہو گیا ، بیروگاری میں اضافہ ہو رہا ہے ، ڈیم بنانے کیلئے اتنی رقم جمع نہیں ہوئی جتنی اشتہارات پر خرچ کر دی گئی، حکومت نے آئی ایم ایف کیساتھ ادارے فروخت کرنے کا معاہدہ کیا ہے ، تین سو ترقیاتی منصوبے کم کر دیئے گئے۔

تازہ ترین