• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جب سے وطن عزیز کے نئے حکمرانوں نے آئی ایم ایف کے ہاتھوں وطن عزیز کا سود پرسودا کیا ہے۔ وطن عزیز میں ہر طرف ایک بے چینی بے کلی کا سماں ہے۔ حزب اختلاف حزب اقتدار کے ارکان بھی حیرت و پریشانی کا شکار نظر آرہے ہیں۔ ہر طرف ہا ہاکار مچی ہوئی ہے۔ ایسا معلوم ہو رہا ہے کچھ ایسا ہونے جا رہا ہے جس کی کسی کو کسی طرح کی خبر نہیں،سب حیرات وپریشانی کاشکارہیں اب وطن عزیزکی حکمرانی ایک سود خورکمپنی کرےگی جسےاس خطہ عظیم سے نہ اس کی عوام سےقطعی کوئی غرض ہے۔ اگر غرض ہے تو اپنی سرمایہ کاری سے ہے جس میں اسے ہر حال میں منافع ہی منافع درکارہے۔

اہل درد اور محب وطن تجزیہ کار اور سیاست کار بخوبی سمجھ رہے ہیں کہ کیا ہو رہا ہے اور کیا ہونے جا رہاہے۔ اس کے نتائج کیا ہونے والے ہیں دراصل قصہ شاید اس طرح سے بنایا جا رہا ہے کہ دنیا کی بڑی سپر پاور جس کے دست نگر سابق تمام حکمران رہے اور اس کی سرپرستی کو تسلیم کرتے رہے ہیں۔ جب اسے یہ احساس ہو کہ دنیا میں تیزی سے ابھرتی ہوئی قوت چین جو کبھی نہ کبھی اس کی جگہ بھی لے سکتی ہے اسے اس کے پیروں پر کھڑا ہونے ہی نہیں دیا جا رہا ہے لیکن چین نے امریکا کو بھی ناکوں چنے چبوا دیے ہیں۔ اس کی طرف سے روز بروز خطرہ بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ امریکا اپنی اہمیت و وقعت قائم رکھنے اور بچانے کے لیے اپنے زیر نگرانی چھوٹے ممالک کو اپنے قابو میں رکھنے کے لیے کچھ بھی کرسکتا ہے پہلے وہ انہیں قرضوں کےجال میں پھنساتا ہے پھر بھی اگر نہ قابو آئیں تو اسلحہ کے زور پر انہیں مٹی چٹا دیتا ہے انہیں مجبور و بے بس کردیتا ہے۔

پاکستان اسلامی دنیا کا پہلا اور اکیلا ملک ہے جس نے ہزاروں پابندیوں اور بندشوں کے باوجود ایٹمی قوت حاصل کرلی وہ بھی امریکا کے زیر سایہ رہتے ہوئے یہ بات کسی بھی طرح امریکیوں کو ہضم نہیں ہو رہی ان کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ اس مملکت اسلامیہ کو کس طرح خاک چٹائی جائے کس طرح مکمل طور پر بے بس کرکےاسے اپنے قابو میں رکھا جائے ۔

چین سے دوستی یا تعلقات کوئی نئی بات نہیں ہے۔ امریکا کی رضا مندی اور خواہش کے مطابق ہی پاکستانی حکمرانوں نے چین سے دوستی کا ہاتھ ملایا تھا اس میں ہر دو طاقتوں کے مفادات تھے امریکا کی سوچ رہی ہوگی کہ پاکستان کو استعمال کر کے چین کو قابو کیا جائیگا اور چین کی کوشش رہی ہوگی کہ پاکستان کے ذریعے مشرقی وسطیٰ اور یورپ کی منڈیوں تک باآسانی رسائی مل سکے گی۔ اس سبب چین نے ہاتھ کھول کر پاکستان کیساتھ دوستی کے نام پر سرمایہ کاری کی جو بڑھتے بڑھتے سی پیک کی شکل میں سامنے آگئی۔ اس سے نہ صرف امریکا بلکہ تمام یورپ کی آنکھیں کھل کر رہ گئیں پاکستان جو خطے کا اہم ترین خطہ ہے اسکی سرحدیں بھارت سے چین سے روس سے افغانستان سے ایران سے ملتی ہیں اس کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے ہی امریکا نے اس کو اپنے کیمپ میں شامل کیا تھا۔ اس سے اس نے خوب فائدہ بھی حاصل کیا۔ سودیت یونین جو ایک بڑی سپر پاور تھی کو پاش پاش کرنے کے لیے امریکا نے پاکستان کو ہی استعمال کیا پھر افغانستان پر اپنا قبضہ جمانے اور افغان اسلامی ریاست کی اینٹ سے اینٹ بجانے کے لیے بھی پاکستان کو استعمال کیا اور اس ساری کارروائی میں پاکستان کو عظیم نقصانات سے دو چار ہونا پڑا۔ اس کے باوجود امریکی حکام کی تسلی نہیں ہو رہی کہ پاکستان کو کس طرح قابو میں رکھا جائے۔

اب امریکی چال بازو ںنے نئی حکمت عملی اختیار کی ہے انہوں نے پرانے حکمرانوں پر جنہوں نے ان کے حکم سے سر تابی کرتے ہوئے ایٹمی دھماکہ ہی نہیں کیا بلکہ چین سے تعلقات بھی مضبوط بنیادوں پر استوار کر لیے ، مقدمات کی بھرمار کرا دی تاکہ آنیوالے نئے حکمران بھی عبرت پکڑئیں اورانہیں یہ احساس رہے کہ اگر امریکی احکام سے سرتابی کی گئی تو ان کا حشر ان سے بھی برا ہوسکتا ہے یہی وجہ ہے کہ ملک کے اثاثے گروی رکھے جا رہے ہیں۔ امریکا آئی ایم ایف کے ذریعے پاکستان کو قابو میں رکھنے کے لیے مذاکرات کے ذریعے اپنی قوت کا اظہار کر رہا ہے۔ امریکیوں نے یہ بات خوب اچھی طرح سمجھ لی ہے کہ اب اسلحہ کے زور پر کسی حکومت کا تختہ تو الٹا جاسکتا ہے۔ لیکن عوام کو قابو نہیں کیا جاسکتا اس لیے اب ان کی حکمت عملی تبدیل ہو کر آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے ذریعے اپنی من مانی شرائط پر ان ممالک کو مقروض کر کے قابو میں رکھا جاتا ہے۔

یہی عمل انہوں نے پاکستان ے ساتھ کیا ہے اب وزیر خزانہ کو مشیر خزانہ سے بدل دیا گیا ہے۔ جو آئی ایم ایف کا اہم کارکن ہے۔ ایسے ہی اسٹیٹ بینک جو حکومت کے خزانے کا محافظ ہوتا ہے۔ اس کے لیے بھی آئی ایم ایف نے اپنے نمائندہ کو تعینات کرا دیا ہے۔ اب پاکستان کی معیشت اور اقتصادیات مکمل طور پر ان امریکی نمائندوں کے ہاتھوں میں دے دی گئی ہے وہ اپنی من مانی کرنے کا پورا اختیار رکھتے ہیں دراصل جب بینک کسی کو قرضہ دیتا ہے تو کوئی نہ کوئی گارنٹی مانگتا ہے ایسے ہی آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک نے بھی ضمانت مانگی ہوگی تو موجودہ حکمرانوں نے پورا پاکستان ہی گروی رکھ دیا ہے۔ اللہ جانے ہمیں کب تک اس امتحان سے گزرنا ہوگا۔ حکمران کب تک اپنےاقوال سے یونہی پلٹ پلٹ کر عوام کو بے وقوف بناتے رہیں گے۔ وہ کب اپنے قول و فعل کے لیے پلٹتے ہیں ۔ ہاں یہ درست ہے کہ آنے والا وقت بیرونی سرمایہ کاروں کاہی ہےاب سرمایہ کار ہی حکمرانی کریں گے۔اللہ تعالیٰ ہماری ہمارے وطن کی ہرطرح سے حفاظت کرے آمین۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین