• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بلاشبہ تاریخ سے دلچسپی رکھنے والوں کے لئے فقط سات عشروں پر محیط تاریخِ پاکستان دلچسپ ترین اور اسباق سے بھرپور اور تہذیب انسانی کے ارتقا کے معلوم ابواب کا حیرت انگیز باب ہے۔ چلیں اگر قیامِ مملکتِ خداداد پاکستان کے Genesisسے بھی اس کا آغاز کیا جائے تو پاکستان کی تاریخ 125سال پر محیط ہے۔ جیسا کہ علی گڑھ کی علمی تحریک کی ابتدا سر سید احمد خان نے 1875میں ’’محمڈن اینگلو اورینٹیل کالجیٹ اسکول‘‘ کے قیام سے کی جس کا اصل، لیکن آغاز میں پوشیدہ ایجنڈا، فرنگی نو آبادی بننے والے ہندوستان میں نئے سیاسی و حکومتی نظام میں مسلمانان ہند کی بمطابق جگہ اور کردار بنانے کے لئے، انہیں جدید تعلیم سے آراستہ کرنا تھا۔ اس کا ابتدائی حصول ہی اتنا کامیاب ہوا کہ ہندی مسلمانوں کی سیاسی شناخت پر خاموشی سے چوکس بانی تحریک سرسید احمد خاں نے غیر سیاسی ہوتے ہوئے بھی اپنی زندگی میں ہی ’’جداگانہ انتخاب‘‘ کا دو لفظی تاریخ ساز بیانیہ پیش کر دیا۔ ان کے اسی مطالبے سے علی گڑھ اسکول آف تھاٹ کے سیاسی دانشوروں کی پہلی لاٹ ہی دسمبر 1906میں آل انڈیا مسلم لیگ کی شکل اختیار کر گئی۔ یوں ہندوستان میں جدید سیاسی و حکومتی نظام میں اپنی جگہ بمطابق بنانے کے لئے ’’دو قومی نظریے‘‘ کی پیدائش ہو گئی تھی جو بھاری ہندو اکثریت کے مقابل جداگانہ انتخاب کے مطالبے کی شکل میں مسلمانان ہند کے آئندہ سیاسی روڈ میپ کی واضح نشاندہی کر رہا تھا۔ صرف راہ کی نشاندہی نہیں تھی منزل بہ منزل پہنچ کے لئے پاور آف پین اور موثر ترین ابلاغ کی ارفع طاقت سے لیس قافلہ اور اس کی سحر انگیز قیادت بشکل حضرت قائداعظم اپنی باکمال اور نتیجہ خیز فہم و فراست کے ساتھ موجود نہیں وقف تھی، جسے حکیم الامت اقبال لاہوری کی فکری معاونت حاصل تھی جنہوں نے روڈ میپ پر مسلمانانِ ہند کی جدا مملکت کے جلد شرمندہ تعبیر ہونے والے خواب کی واضح تصویر بھاری بھرکم ہندو اکثریت میں گھرے مسلمانان ہند کو دکھا دی تھی۔ ہمارے اکابرین نے مغل سلطنت ختم ہونے کے 9عشروں بعد ہی وہ فصل کاٹی جو انتہائی مایوسی اور نامساعد حالات میں بوئی۔ انجام بخیر ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ ایک واضح نظریاتی مملکت بن گیا۔

پاکستان کی تاریخ مد و جزر کی تاریخ ہے۔ اس کی تاریخ میں کامیابیوں اور ناکامیوں کا تلاطم (فلیکچوئیشن)تیز تر رہا۔ مشرقی پاکستان ہمارے اجتماعی سیاسی جرائم سے الگ ہو کر الگ وطن بن کر سیکولر ہو گیا لیکن دو قومی نظریے کی طاقت اتنی تھی کہ بھارت میں پھر بھی مدغم نہ ہوا۔ آخر تو آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام ڈھاکہ میں ہوا تھا۔ بچا (مغربی)پاکستان سقوط ڈھاکہ کے بعد جملہ داخلی سیاسی عدم استحکام کے باوجود فقط باقی ماندہ نہیں رہا بلکہ اڑھائی ہی سال میں آئینی ہو کر اسلامی جمہوریہ ہی قرار پایا۔ 12سال بعد مسلسل دشمنی پر اترے اپنے ہمسائے کے جواب میں 1986میں ایٹمی طاقت بن گیا، جس کا ثبوت مئی 1998میں دنیا کے سامنے اجارہ دار طاقتوں کے تمام تر دبائو کے باوجود پیش کر دیا۔ ہمارے داخلی سیاسی جھمیلوں میں تو کوئی کمی نہ آئی۔ سول حکومت بھی آمرانہ تو کیا فسطائی ثابت ہوئی۔ موجود پاکستان کے پہلے ہی انتخابات دھاندلیوں سے اٹ گئے۔ تحریک چلی، مارشل لا لگا اور نہ جانے کیا کیا ہوا۔

دسمبر 1979میں افغانستان پر جو سوویت عسکری چڑھائی ہوئی، پاکستان کی حکومت اور عوام نے افغان عوام کے ساتھ مل کر مشترکہ سکت برابر مزاحمت کا آغاز کیا تو پوری آزاد دنیا نے بھی روسی افواج کے انخلاء کو اپنا ہدف بنا لیا۔ ہم نے اسی دنیا اور جمہوری مغربی طاقتوں کے ساتھ اپنے طور اسے جہاد سمجھ کر یہ جنگ لڑی۔ یہ یوں جہاد ثابت ہوئی کہ اس کے نتیجے میں سوویت کشور کشائی بکھر گئی اور اس میں جکڑے مسلم تہذیب کا بڑا مرکز سنٹرل ایشیا کی کتنی ہی محبوس و مقہور ریاستیں آزاد ہو گئیں۔ ہوئیں اور سوویت یونین کا تو خاتمہ ہی ہو گیا تو، افغانستان میں فاتح بڑی طاقت اور اس کے مغربی معاونین کی سیاسی پھر عسکری موجودگی کے حالات پیدا کر دیئے گئے، یہ ہوئی اور افغانستان کے ساتھ پاکستان بھی دہشت گردی اور امریکہ، نیٹو کے ساتھ بھارت کی ریاستی دہشت گردی میں ان کی موجودگی بھی دونوں ملکوں پر مسلط کی گئی۔ روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ اس کے بعد ہر دو ہمسایہ ملکوں کے ساتھ کیا ہوا، ہمیں ایک دوسرے کا دشمن بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی۔ آج یہ ’’عالمی دھندہ‘‘ دم توڑ رہا ہے۔

اقبال کے لاہور سے امن کا پرچم بلند ہوا ہے۔ پاکستان کے کامیاب ترین سفارت کار شمشاد احمد خاں نے تین سال قبل ’’لاہور سینٹر فار پیس ریسرچ‘‘ کے نام سے جس تھنک ٹینک کی بنیاد رکھی، اس نے عالمی امن کے فروغ کے لئے استنبول میں دو کامیاب ترین کانفرنسز کرائیں۔ دوسری کی پلاننگ اور انعقاد سے انہوں نے خاکسار کو بھی ہمرکاب کر لیا۔ سینٹر کے چیئرمین کے طور پر شمشاد صاحب نے علانیہ (اور میں نے اس کالم کے ذریعے) اپنی بقیہ زندگی قیام امن کی کوششوں کے لئے وقف کر دی۔ انہوں نے مجھے ایل سی پی آر کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کی ذمہ داری سونپ کر اپنے اعتماد سے بڑا اعزاز بخشا۔ الحمدللہ !ہم لاہور سینٹر فار پیس ریسرچ کے پلیٹ فارم سے گزشتہ روز بھوربن میں ان افغان سیاسی اور دینی جماعتوں کو ایک ہی چھت تلے ہم آہنگ کرنے میں کامیاب ہوئے جن میں افغانستان اور پاکستان میں مکمل امن اور دونوں ملکوں میں بحیثیت مسلم برادر اور ہمسایہ گہرے تعلقات کا شدید اعتراف اور خواہش پیدا ہو گئی ہے۔ تفصیلات تو بھوربن کانفرنس کی اخبارات میں آ چکی ہیں لیکن خوش کن امر یہ ہے کہ جناب شمشاد احمد خاں نے بھوربن کانفرنس سے شروع ہونے والے کامیاب ترین ٹریک ٹو ڈپلومیٹک ایکشن کو ’’لاہور پراسیس‘‘ کے نام سے سینٹر کا ایک مستقل فیچر ہونے کا اعلان کیا۔ اس میں ہمیں سول سوسائٹی کے جن سرکردہ پوٹینشل شہریوں کی معاونت حاصل ہے، وہ جلد لاہور میں تیار ہونے والے ایک ایسے امن قافلے میں تبدیل ہوگا جو ناصرف پاک افغان امن عمل کے لئے نتیجہ خیز ثابت ہو گا بلکہ دو طرفہ علاقائی اور عالمی سطح پر یہ تحریک ہر سطح پر قیام امن کے لئے مرکز محویت ثابت ہوگی۔ (جاری ہے)

تازہ ترین