• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ترقی یافتہ معاشروں میں ناسٹلجیا ایک ایسی رومانوی کیفیت کا نام ہے جو شاذ و نادر طاری ہوتی ہے اور ماضی کی حسین یادوں کی طرف لے جاتی ہے۔ تلخ ایام کی زنجیروں میں جکڑے انسان کو چند ساعتوں کی آزادی اور فرصت نصیب ہوتی ہے تو وہ ماضی کی یادوں میں کھو جاتا ہے اور مشقت بھری زندگی کا بوجھ اُٹھانے کے لئے نئی توانائی پاتا ہے۔ مگر ہمارے ہاں یاد ماضی ایسا عذاب اور خواب ہے جو ہمیں حقائق کی دنیا کے قریب نہیں پھٹکنے دیتا۔ ہم بت پرست بھلے نہ ہوں مگر ماضی پرست ضرور ہیں۔ مثال کے طور پر جب سے کرکٹ ورلڈ کپ کا آغاز ہوا ہے ،یہ ناسٹلجیا دو آتشہ ہو چلا ہے۔ شروع میں تو بعض لوگوں نے سرشت سے مجبور ہوکر حالیہ ورلڈ کپ کا 27سال قبل ہورہے عالمی کپ سے موازنہ شروع کیا لیکن ناسٹلجیا کی حیرت انگیز طاقت نے ماضی اور حال میں ناقابل یقین حد تک مماثلت پیدا کر دی ہے اور اب دنیا بھر میں اس ناقابل یقین اتفاق سے متعلق بات ہو رہی ہے۔ پاکستان اب تک سات میچ کھیل چکا ہے اور ان میچوں کے نتائج 1992ء کے ورلڈ کپ سے 100فیصد ہم آہنگ ہیں۔ 27سال پہلے پاکستان ورلڈ کپ کا پہلا میچ ہار گیا، دوسرے میچ میں کامیابی حاصل کی، تیسرے میچ میں بارش کے باعث ایک پوائنٹ ملا، چوتھے اور پانچویں میچ میں شکست ہوئی تو شائقین نے قومی کرکٹ ٹیم کے کھلاڑیوں کو آڑے ہاتھوں لیا مگر پھر چھٹا اور ساتواں میچ جیت کر ٹیم نے امیدوں کے چراغ پھر سے روشن کر دیئے۔ تب بھی پاکستان کو پہلے میچ میں ویسٹ انڈیز نے شکست سے دوچار کیا اور اب بھی پاکستان کو پہلی مات ویسٹ انڈیز کے ہاتھوں ہوئی۔ 1992ء میں بھی پاکستان نے جب نیوزی لینڈ کو ہرایا تو تب تک وہ ٹورنامنٹ کی ناقابل شکست ٹیم تھی اور اب بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ حیرت انگیز مماثلت کا یہ عالم ہے کہ 27سال پہلے بھی پاکستان اور نیوزی لینڈ کے مابین میچ بدھ کے روز ہوا جبکہ اب بھی دونوں ٹیمیں بدھ کے دن مدمقابل آئیں۔ تب چھٹے مقابلے میں مین آف دی میچ لیفٹ ہینڈ بلے باز عامر سہیل تھے تو اس بار چھٹے میچ میں یہ اعزاز حارث سہیل کے حصے میں آیا جو بائیں ہاتھ سے کھیلنے والے بلے باز ہیں۔ اب پاکستان کے دو میچ باقی ہیں، سیمی فائنل تک رسائی کے لئے نہ صرف یہ دونوں میچ جیتنا ضروری ہے بلکہ انگلینڈ کا اپنے باقی رہ گئے دو میچو ں میں سے ایک ہارنا بھی ضروری ہے یعنی تب کی طرح اب بھی پاکستان چانس کی بنیاد پر کھیل رہا ہے۔

ممکن ہے آپ اس مماثلت کو کسی اور نظر سے دیکھتے ہوں مگر میرے لئے یہ موازنہ اس جھوٹے اور جعلی ناسٹلجیا کی حقیقت واضح کرنے کے لئے کافی ہے کہ ماضی میں ہماری کرکٹ ٹیم بہت مضبوط ہوا کرتی تھی۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ ہماری ٹیم کی کارکردگی میں کبھی بھی تسلسل نہیں رہا۔ ہماری کرکٹ ٹیم ہر دور میں کبھی ہیرو کبھی زیرو کا شاہکار رہی ہے۔ تب بھی ہمیں کارکردگی سے کہیں زیادہ بھروسہ اتفاقات اور دعائوں پر تھا اور اب بھی ہم اگر مگر کی بنیاد پر ورلڈ کپ جیتنے کی اُمید لگائے بیٹھے ہیں۔ گزرا ہوا وقت بہت اچھا تھا، ہمارا یہ مغالطہ محض کرکٹ تک محدود نہیں بلکہ عجیب و غریب ناسٹلجیا کے مضمرات چار سو دکھائی دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر پاکستان کے عمومی حالات سے متعلق ہم ہمیشہ اس واہمے کا شکار رہتے ہیں کہ خدانخواستہ ہمارے ملک کے حالات روز بروز خراب ہوتے جا رہے ہیں۔ کسی دور کے حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کے سبب عارضی انحطاط اور وقتی زوال اپنی جگہ مگر مجموعی طور پر ہم ہر گزرتے پل کیساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔ مثال کے طور پر آپ اپنی یا اپنی جان پہچان کے لوگوں کی زندگیوں پر نظر دوڑائیں، جن کے پاس 15,20سال پہلے بائیسکل خریدنے کے پیسے نہیں تھے، آج ان کے پاس گاڑیاں ہیں۔ جن کے گھر میں کپڑے پریس کرنے کے لئے استری نہیں ہوا کرتی تھی ،قمیص کا پلو سلوٹوں کے باعث بل کھاتا اوپر کو سکڑتا جاتا تھا ،آج ان کے بچے بھی بغیر پریس کئے ہوئے کپڑے نہیں پہنتے۔ وہ دور دراز دیہات جہاں اینٹوں سے بنے پختہ مکان چراغ لے کر ڈھونڈنے سے نہیں ملتے تھے، اب وہاں گارے اور مٹی سے بنے گھروندے دکھائی نہیں دیتے۔ جہاں دیے اور لالٹین سے کام چلایا جاتا تھا وہاں آج برقی قمقمے جگمگاتے ہیں۔ ناسٹلجیا میں مبتلا لوگ کہتے ہیں کہ پرانے زمانے کی غذائیں بہت خالص ہوا کرتی تھیں، آج کل تو ہر چیز میں ملاوٹ ہے۔ بلاشبہ ہمارے معاشرے میں ملاوٹ کا رجحان عام ہے مگر سوال یہ ہے کہ دیسی گھی، مکھن اور ساگ جیسی خالص غذائیں کھانے والے 40سال کی عمر میں مر جاتے تھے اور آج ملاوٹ شدہ ’’پھوکی‘‘ خوراک کھانے والے لوگ 66سال کی اوسط عمر پاتے ہیں تو اس کی کیا وجہ ہے؟ یقیناً لوگوں کا معیار زندگی بلند ہوا ہے۔ ہم کہتے ہیں، آج کل نت نئی بیماریاں آتی چلی جا رہی ہیں، جسے دیکھو وہی کسی نہ کسی مرض میں مبتلا ہے، ہمارے بزرگوں کے زمانے میں اتنے امراض نہیں ہوا کرتے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ بیماریاں اور امراض تب بھی تھے، ان کا شعور اور اِدراک نہ تھا۔ جہالت اور لاعلمی کے باعث تب ان بیماریوں کو کسی بھوت پریت کا سایہ یا جنات کا اثر جان کر دم درود سے کام چلایا جاتا تھا اور آج لوگ مرض کی تشخیص ہونے پر اس کا علاج کراتے ہیں۔ یہ غلط فہمی بھی عام ہے کہ یہ نفسا نفسی اور مادیت پرستی کا زمانہ ہے۔ برائیوں اور جرائم کی شرح میں خطرناک حد تک اضافہ ہو چکا ہے۔ ہمارے بزرگوں کا دور بہت اچھا تھا۔ سچ یہ ہے کہ تب میڈیا نہ ہونے کے باعث کالے کرتوت کا چرچا نہیں ہو پاتا تھا جبکہ جرائم اور انسانی معاشرے کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ آبادی میں اضافے کے باعث جرائم کی تعداد ضرور بڑھ رہی ہے مگر ان کی شرح کم و بیش وہی ہے جو ماضی میں ہوا کرتی تھی۔ ناسٹلجیا کے باعث ہمارے ہاں اُٹھتے بیٹھتے اس جملے کی گردان ہوتی ہے کہ بڑے لوگ اس معاشرے سے اُٹھ گئے، نہ کوئی ڈھنگ کا شاعر اور ادیب میسر ہے نہ ماضی جیسے عاقبت اندیش سیاسی رہنما دستیاب ہیں۔ لیکن جب بھی کسی شعبہ ہائے زندگی سے متعلق اہم شخصیت کا انتقال ہوتا ہے تو یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ اس قدر عظیم انسان ہمارے درمیان موجود تھا۔ گویا حال جب ماضی میں بدل جاتا ہے اور یہ ماضی جوں جوں پرانا ہوتا جاتا ہے، توں توں سہانا دکھائی دینے لگتا ہے۔

ایک بار پھر کرکٹ ٹیم کا ذکر کیا جائے تو 27سال قبل جاوید میانداد کو بھی ایسی ہی گالیوں سے نوازا جاتاتھا جیسے آج سرفراز کو میچ ہارنے پر مطعون کیا جاتا ہے۔ گویا سرفراز بھی ریٹائرمنٹ کے بعد لیجنڈ کہلائیں گے اور ورلڈ کپ جیت گئے تو 27سال بعد یعنی 1946ء میں وزیراعظم ’’سلیکٹ‘‘ ہو جائیں گے۔ میرا خیال ہے کولہو کے بیل اور ملک کے ٹریک میں کچھ تو فرق ہوگا۔ ویسے اگر کرکٹ ٹیم یہ ورلڈ کپ جیت گئی تو موجودہ وزیراعظم کو اس کا اتنا ہی کریڈٹ دیا جائے گا جتنا 1992ء کے وزیراعظم کے حصے میں آیا؟ ایک اور دلچسپ بات یہ ہے 1992ء کا ورلڈ کپ جیتنے کے ایک سال بعد وزیراعظم کی چھٹی کروا دی گئی تھی، کیا اس بار بھی ایسا ہی ہو گا؟

تازہ ترین