میں اس وقت وزیر اعظم آزادجموں و کشمیرجناب راجا فاروق حیدر خان کی خصوصی دعوت پرکشمیر کے حسین ترین مقام وادی نیلم میںموجود ہوں جہاں صدیوں پرانے تاریخی شاردا پیٹھ کی بحالی کے اقدامات کا جائزہ لیا جارہا ہے، میرے ہمراہ پاکستان ہندوکونسل کے وفد میں ایڈوائزر راجا اسرمال منگلانی، صدر گوپال خامانی، سیکرٹری جنرل پرشوتم رامانی اور پریم کمار وغیرہ شامل ہیں۔ مظفرآباد پہنچتے پر وزیر اعظم نے ہمارا پرتپاک استقبال کیا اور ہمارے اعزاز میں اپنی کابینہ اور ا سپیکر کے ساتھ ڈنر کا اہتمام کیا، اس موقع پر جو محبت اور عزت و احترام ہمیں وہاں پر ملا ، اس کا تصو ر میں کبھی نہیں کر سکتا تھا ، مجھے اس لمحہ پاک سرزمین کا شہری ہونے کے ناطے آزادی کا بھی احساس ہوا کہ اسی کشمیر کے مقبوضہ علاقے میںہر طرف آگ لگی ہوئی ہے ، آئے دن لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کے واقعات ہوتے ہیں، مقبوضہ حصے میں مذہب کے نام پر تشدد کا سلسلہ جاری ہے۔ایل او سی کے مقام پر سیکورٹی فورسز نے ہمارے لئے استقبالئے کا اہتمام کیا تھا، اس موقع پر پاک فوج کے جوانوں کے ساتھ پاکستان زندہ باد کے نعرے لگانے سے ہمارے جذبہ حب الوطنی کو مزید تقویت ملی،عظیم شاردا پیٹھ کی بحالی میں پیش پیش آزاد کشمیر کی ٹورازم سیکرٹری محترمہ مدحت شہزادکی زبردست کاوشوں کو سراہنے کیلئے میرے پاس الفاظ نہیں ہیں۔ یہ بھی میرے لئے اعزاز کی بات ہے کہ تقسیم ہند کے بعد گزشتہ 72سالوں بعد میں پہلا ہندو باشندہ ہوں جو شاردادیوی کے درشن کیلئے یہاں حاضر ہوا۔ دنیا کی خوبصورت ترین وادی نیلم(سابقہ نام گنگا کشن ) کے دریا، صاف اور ٹھنڈے پانی کے بڑے بڑے نالے،آبشار، چشمے، جنگلات، ہریالی اور سرسبز پہاڑ اپنی مثال آپ ہیں۔ شادرا پیٹھ کا مقام جہاں ایک طرف ہندو دھرم کے ماننے والوں کیلئے مقدس ترین ہے وہیں تاریخ میں اس کی حیثیت اپنے زمانے کے نمایاں علمی مرکز کی ہے، ہندی زبان میں لفظ پیٹھ درس گاہ کیلئے بھی استعمال ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ شاردا کو دنیا کی قدیمی یونیورسٹی سمجھاجاتا ہے، اس نسبت سے خطہ کشمیر کو زمانہ قدیم میں شاردا دیش کے نام سے بھی جانا جاتا تھا۔ ہندو روایات کے مطابق آج سے پانچ ہزار سال قبل شِو مت کے پیروکاروں نے علم و دانش کی دیوی شاردا کے نام پر یہ بستی آباد کی ، طویل عرصے تک برصغیر، چین، وسط ایشیا سمیت دیگر علاقوں سے علم کے پیاسے یہاں کا رخ کرتے تھے، تاریخ دانوں کے مطابق کوٹلیہ چانکیہ جی سے منسوب قدیمی ٹیکسلا اور شاردا پیٹھ کے مابین تعلیمی تعاون کے بھی شواہد ملتے ہیں۔کہا جاتا ہے کہ شاردا وادی میں واقع تین نمایاں جھیلوں کا تعلق واگ دیوی، ناردا اور سرسوتی دیوی سے ہے، ہندو مقدس کتابوں میں موجودہ دریائے نیلم کو کشن گنگا، سندھو گنگااور مہا گنگا کا نام بھی دیا گیا ہے۔ شارداپیٹھ کو دوہزار سال قبل قدیم ہندوستان کے عظیم مہاراجہ اشوک اعظم نے تعمیرکرایا تھا،کسی زمانے میں مندرکے قریب مدھومتی کا مقدس تالاب بھی ہوتا تھا جہاں یاتری اشنان کیا کرتے تھے لیکن مجھے اپنے حالیہ دورے کے دوران یہ تالاب کہیں نظر نہیں آیا۔ مجھے کچھ عمر رسیدہ مقامی افراد نے بتایا کہ تقسیم سے قبل کشمیری پنڈتوں سمیت پورے برصغیر سے ہندو کمیونٹی باقاعدگی سے شاردا مندر پر حاضری دیا کرتی تھی بلکہ بدھ مت کیلئے بھی قابل احترام ہونے کے باعث یہ مقدس مقام چین، جاپان، سری لنکا، تھائی لینڈ، کوریا وغیرہ سے تعلق رکھنے والے سیاحوں کی توجہ کا بھی مرکز تھا، کسی زمانے میں یہاں نوروز کا جشن اور بیساکھی تہوار ایک ساتھ منایا جاتا تھا جس میں مذہبی تفریق سے بالاتر ہوکر سب کشمیری باشندے جوش و خروش سے موسم بہار کا خیرمقدم کرتے تھے، انگریز سامراج کے زیرتسلط پورا برصغیر مذہبی تناؤ کا شکار تھا تو بھی وادی کشمیر مذہبی ہم آہنگی اور احترام ِ انسانیت کے زریں اصولوں پر کاربند تھی۔ برصغیر کی تقسیم سے قبل کیرن اور کرناہ ضلع مظفرآباد کے علاقے تھے تاہم آزادی کے بعد وادی نیلم آزاد کشمیرکا حصہ بن گئی جبکہ نصف کیرن اور کرناہ کے باسیوں کا مقدر مقبوضہ کشمیر سے نتھی ہوگیا جس کی بناء پر لاتعدادکشمیری ہندو باشندوں کو یہاں سے نقل مکانی کا سامنا کرنا پڑا۔وادی نیلم کو لائن آف کنٹرول پرواقع ہونے کے باعث نہایت حساس علاقہ سمجھا جاتاہے ، تاہم گزشتہ ستر برسوں سے دونوں ممالک میں بسنے والے ہر ہندوکی یہ خواہش رہی ہے کہ وہ زندگی میں ایک بار علم و دانش کی دیوی سے منسوب شاردا پیٹھ کی یاترہ سے گیان پاسکے۔آخرکار پاکستان کی جانب سے شاردا پیٹھ کی بحالی کا اصولی فیصلہ کرلیا گیا جس کے بہترین انتظامات کیلئے پاکستان ہندوکونسل حکومت آزاد کشمیرسےبھرپور تعاون کررہی ہے ، ہماری خواہش ہے کہ شاردا پیٹھ کا تاریخی مقام نہ صرف خطے بلکہ دنیا بھر کیلئے ایک رول ماڈل بن کر سامنے آئے اورانڈیا سمیت دنیا بھر کے لوگ جان سکیں کہ کیسے اقلیتی کمیونٹی کے مذہبی مقامات کی حفاظت کی جاتی ہے، مدھومتی میں اشنان کے بعد میرا مقامی آبادی سے تبادلہ خیال ہوا ،شاردا پیٹھ کے حوالے سے میں نے کچھ تجاویز پیش کی ہیں کہ پہلے مرحلے میں شاردا پیٹھ کو بحال کرکے پاکستانی ہندو شہریوں کیلئے کھولا جائے ، وادی نیلم کی حساسیت کو مدنظر رکھتے ہوئے تمام وزٹ اسلام آباد سے براستہ کوہالہ ہونے چاہئے، اگلے مرحلے میں انڈیا اور دیگر ممالک کے یاتریوں کو آمدکی اجازت دی جائے۔ماضی میں پاکستان اور بھارت کے مابین دوطرفہ تعلقات کی بہتری کیلئے ٹریڈ اور ٹریول پر فوکس کرنے کی اہمیت پر زور دیاجاتا رہا ہے، میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں فیتھ ٹورازم (مذہبی سیاحت)کے فروغ کو بھی ترجیحات میں شامل کرنے کی ضرورت ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)