• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آپ کو یاد ہوگا دو تین ہفتے پہلے پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے سیاستدان چلّا رہے تھے کہ ڈاکٹر طاہرالقادری کا لانگ مارچ اور دھرنا غیر آئینی ہے۔ بدقسمتی سے اس مہم میں کچھ اینکر اور کالم نگار بھی شامل تھے۔ سیاسی جماعتوں کے ترجمان یہ صحافی بھی زور شور سے لانگ مارچ اور دھرنے کی مخالفت کرتے رہے۔ مجھے افسوس سے لکھنا پڑ رہا ہے کہ بعض صحافی کچھ مخصوص جماعتوں کے ترجمان بن چکے ہیں وہ جس بھی جماعت کے ہوتے ہیں انہیں اس جماعت کا اچھا برا سب اچھا لگتا ہے انہیں ملکی مسائل کی بجائے دودھ اور شہد کی نہریں نظر آتی ہیں۔ صحافت کے ساتھ اتنا ”اچھا“ سلوک پہلے کبھی نہیں ہوا جو آج کل ہو رہا ہے۔ پتہ نہیں کون، کس کس سے وابستہ ہے بصد احترام دو چار ساتھیوں پر بہت افسوس ہوا کہ ان کے قلم اور ان کی آوازیں کسی ایک جماعت کی ترجمان بن گئیں وہ اس حدیث مبارکہ کو بھی بھول گئے کہ ”جو لوگ مخصوص مفادات کی خاطر بددیانتی سے اپنے قلموں میں روشنائی بھرتے رہے اور لکھتے رہے انہیں قیامت کے روز الگ کردیا جائے گا“۔ سیدنا عبدالقادر جیلانی سے روایت کردہ اس حدیث مبارکہ میں الگ کرنے کی نشاندہی کردی گئی، سزا کی نشاندہی نہیں کی گئی، پتہ نہیں سزا کس قدر کڑی ہے۔دو تین ہفتے قبل جن لوگوں کو جمہوریت خطرے میں نظر آ رہی تھی، جو لوگ لانگ مارچ اور دھرنے کو غیرآئینی کہہ رہے تھے اب وہ خود وہی عمل کرنے جا رہے ہیں۔ میرا سوال بہت سادہ ہے کہ جو عمل تین ہفتے قبل غیرآئینی تھا اب وہ کیسے آئینی بن گیا۔ دو ہفتے قبل جس صدر کی تبدیلی گناہ تھی دو ہفتوں بعد وہ کیسے کار ثواب بن گئی۔ جس الیکشن کمیشن کو صحیفہ سمجھ لیا گیا تھا اب اسی کے سامنے دھرنا؟بڑا عجیب سوال ہے جس پارلیمینٹ کے سامنے مارچ اور دھرنا جمہوریت دشمنی تھا اب وہ چند کرشماتی دنوں کے بعد کیسے جمہوریت پروری بن گیا، سیاستدانوں نے پینترا بدلا ہے اب وہ قوم کو بتائیں کہ تین ہفتوں میں ہری بھری جمہوریت کو کیا ہوگیا ہے کہ انہیں خزاں کا موسم نظر آنے لگا ہے آخر انہیں کیونکر پتّے گرتے ہوئے دکھائی دینے لگے ہیں۔ یہی سوال مخصوص اینکروں اور کالم نگاروں سے ہے کہ وہ اپنی آوازوں اور قلموں کے جادو سے ثابت کریں کہ تین ہفتے قبل غیرآئینی نظر آنے والا عمل اب کیسے آئینی بن گیا، رہنما ہیں تو قوم کی رہنمائی کریں ورنہ قوم کے سامنے ہر ”چہرہ“ ہے۔
صاحبو! آپ کو اچھی طرح یاد ہوگا کہ جب اسلام آباد میں جمہوری اصلاحات کی غرض سے دھرنا جاری تھا تو لاہور کے نزدیک جاتی عمرہ نامی گاؤں میں حزب اختلاف کی ایسی جماعتوں کا اجلاس ہوا جو حکومتوں میں ہوتے ہوئے حزب اختلاف کہلوانے میں عافیت سمجھتی ہیں۔ انہوں نے اس اجلاس کے بعد میڈیا کے روبرو مارچ اور دھرنے کو جمہوریت دشمنی قرار دیا، غیرآئینی کہا اور حماقت سے تعبیر کیا بلکہ ایک مذہبی جماعت کے سربراہ نے تو اخلاقی حدود کو پامال کرتے ہوئے تمسخر اڑایا۔ دوسری جانب خود حزب اقتدار کی جماعتیں تصور کرنے والی تمام پارٹیوں کے قائدین کراچی یاترا پر رہے۔ پہلے پہلے غیرآئینی کہنے والے اور تمسخر اڑانے والے بعد میں کنٹینر میں مذاکرات کرتے پائے گئے۔ جس روز جاتی عمرہ رائے ونڈ میں اکٹھ ہوا۔ اس شام ایک ٹی وی اینکر پھولے نہیں سما رہے تھے وہ بضد تھے کہ آج کے دن کو ”یوم جمہوریت“ کہا جائے کیونکہ آج جمہوریت کی فتح ہوئی ہے پوری قوم ایک ہوگئی ہے۔ معلوم نہیں لوٹ کھسوٹ کے نظام کو بچانے کیلئے ہونے والے اجتماعوں کو، بدامنی کے اس موسم میں کونسا نام دیا جائے۔ ملک کا وزیر داخلہ کہہ رہا ہے کہ فروری کے پہلے ہفتے میں کراچی میں خون کا کھیل ہوگا۔ سنا ہے اس کی روک تھام کیلئے اجلاس ہو رہا ہے۔ ارے بابا! کراچی تو پہلے ہی آگ میں کھیل رہا ہے وہاں تو انسان ایسے گرتے ہیں جیسے درختوں سے پتّے۔لاہوری اجلاس کے بعد ایک ایسی خاتون کا نام نگراں وزیراعظم کیلئے تجویز کیا گیا جس کی حب الوطنی بھی مشکوک ہے، جس کے مذہبی عقائد بھی شکوک سے لبریز، عدلیہ کی تضحیک اس کا شیوہ، وضاحت مزید چاہئے تو سوشل میڈیا کو وزٹ کر لیجئے۔
ایک ”آئینی مارچ“ اور دھرنے کا اعلان چوہدری نثار علی خان نے کیا ہے، ایک لانگ مارچ کی تیاری عمران خان کر رہے ہیں۔ نواز شریف ملک سے باہر چلے گئے ہیں، عمران خان ہو آئے ہیں، شیخ رشید احمد آج برطانیہ میں پائے جائیں گے۔ سنا ہے صدر صاحب بھی برطانیہ جا رہے ہیں۔ نثار علی خان نگراں حکومت کے قیام کی غرض سے رابطوں میں مصروف ہیں۔ انہوں نے تو گورنروں کی تبدیلی کا مطالبہ بھی کر ڈالا ہے، صدر کے استعفے کا مطالبہ بھی دوسری جانب دو روز قبل ایوان صدر میں نگراں حکومت کے لئے اتحادی جماعتیں سر جوڑ کر کئی گھنٹوں تک بیٹھی رہیں۔ کئی نام سامنے آئے ہیں مگر وہ دو نام ہنوز پس پردہ ہیں جو ماضی میں بہت نامور تھے، وہ سامنے آئیں گے ضرور۔رہی بات سروے کی تو اس کی حقیقت فقط اتنی ہے کہ اگر کراچی اور حیدرآباد کے چند شہریوں سے پوچھ لیا جائے تو پھر ملک کی سب سے بڑی سیاسی قوت صرف ایم کیو ایم نظر آئے گی۔ وسطی پنجاب کے شہروں میں چند لوگوں سے پوچھیں تو نون لیگ، اگر چارسدہ، مردان سے پوچھیں تو اے این پی اور اگر پورے خیبر پختونخوا سے پوچھیں تو پھر تحریک انصاف، آئی آر آئی سے کوئی پوچھے کہ ستّر فیصد دیہی آبادی کدھر گئی جو آپ کے کسی سروے کا حصہ نہیں بن پائی۔ سروے سیاست سوائے ڈرامے کے کچھ بھی نہیں۔
ملکی سیاست میں اگلے چند روز بہت اہم ہیں۔ کچھ اشارے رضا ربانی دے چکے ہیں، کچھ دنوں میں اعلیٰ عدلیہ سے بعض اہم فیصلے آنے والے ہیں جو ملکی سیاست کا رخ بدل دیں گے۔ الیکشن کمیشن نے ضابطہ اخلاق جاری کیا ہے مگر الیکشن کمیشن کو صاف ستھرا بنانے کیلئے طاہر القادری ایک رٹ سپریم کورٹ میں داخل کرنے والے ہیں۔ جتنا ضابطہ اخلاق الیکشن کمیشن نے جاری کیا ہے اگر اس پر بھی عمل ہوگیا تو موجودہ پارلیمینٹ کے بہت سے اراکین نئی اسمبلیوں میں نہیں آسکیں گے۔ اگرچہ سیاسی جماعتوں کے اکابرین بضد ہیں کہ وہ نگراں حکومتوں کے ناموں پر متفق ہو جائیں گے مگر شاید ایسا نہ ہوسکے، ان کا متفق ہونا مشکل ہے پھر کسی اور کو نام دینا پڑیں گے۔ رہا الیکشن تو وہ دو تین سال تک نظر نہیں آ رہا، احتساب ہوگا، کڑا احتساب۔ جمہوریت کی کشتی بھنور میں ہے، ذمہ دار سیاستدان اور سیاسی جماعتوں کے ترجمان صحافی ہیں جنہیں لوٹ کھسوٹ کے نظام میں جمہوریت نظر آتی ہے، جو سیاسی جاگیروں کا انہدام نہیں چاہتے۔ نیلما درانی کی تازہ شاعری بھرپور ترجمانی کر رہی ہے کہ وطن عزیز میں یہی حالات ہیں ۔
زندگی میں زہر ہم کو بارہا کھانا پڑا
اپنے پیاروں کو کبھی ایسے بھی تڑپانا پڑا
اپنے چہروں پر سجا کر لائے تھے ویرانیاں
دیکھ کر احباب کی حالت کو مر جانا پڑا
کتنے آسیبوں، بلاؤں کی تھی وہ آماجگاہ
نفرتوں کی دھوپ سہنے ہم کو گھر جانا پڑا
تازہ ترین