• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکہ نے براہمداغ بگٹی اور حربیار مری کی بلوچ علیحدگی پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی کو دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا ہے۔ امریکن فارن آفس نے کالعدم جنداللہ، جیش العدل اور فدائینِ اسلام کو بھی غیر ملکی دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کر دیا ہے۔ ان دہشت گرد تنظیموں کے امریکہ میں موجود تمام اثاثے منجمد کر دیے گئے ہیں اور کسی نوع کی کاروباری سرگرمی کو ممنوع قرار دے دیا ہے۔ پاکستان کے صوبے بلوچستان میں بلوچ لبریشن آرمی ایک ایسا مسلح علیحدگی پسند گروپ ہے جو سیکورٹی فورسز کے علاوہ عام شہریوں کو نشانہ بناتا چلا آرہا ہے بالخصوص سی پیک کے بڑے منصوبے کو ناکام بنانے کیلئے اس گروپ نے بلوچستان میں دہشت گردی کو فروغ دیا۔ گزشتہ سال اگست 2018ءمیں انہوں نے بلوچستان میں چینی انجینئرز کو نشانہ بنایا۔ نومبر 18میں کراچی کے چینی کونصلیٹ پر دہشت گردی کی اور اس سال مئی 2019ء میں گوادر کے ایک ہوٹل پر حملہ کرتے ہوئے بے گناہ قیمتی انسانی زندگیوں کو اموات میں بدلا۔ پاکستان 2006ءسے بی ایل اے کو کالعدم قرار دے چکا ہے۔ برطانیہ بھی بی ایل اے اور کالعدم جیش العدل کو دہشت گرد تنظیمیں قرار دے چکا ہے اور ہر دو کا امریکہ سے بھی مطالبہ تھا اب امریکی انتظامیہ کی طرف سے انہیں عالمی دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کرنے کا خیر مقدم کیا جا رہا ہے۔بین الاقوامی حالات پر نظر رکھنے والے باخبر ہونگے کہ امریکہ ان دنوں ایران کیخلاف گھیرا تنگ کرنے جا رہا ہے اسلئے وہ ایک طرف جہاں افغانستان میں بہتری کیلئے کوشاں ہے وہیں وہ ایران کے مبینہ جوہری ہتھیاروں کی روک تھام کے حوالے سے مختلف کارروائیاں کر رہا ہے۔

وائٹ ہاؤس میں گفتگو کرتے ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حال ہی میں کہا ہے کہ ہم ایران کو کسی بھی قیمت پر جوہری ہتھیار بنانے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ ایران آگ سے کھیل رہا ہے۔ اس حوالے سے ایران کا موقف واضح ہے اور انہوں نے یورینیم افزودگی کے حوالے سے کوئی ڈھکی چھپی رائے نہیں رکھی ہے ایرانی وزیرِ خارجہ جواد ظریف نے علانیہ کہا ہے کہ ایران کے یورینیم افزودگی کے ذخائر مقرر حدود سے زیادہ ہو چکے ہیں۔ اسکی تصدیق جوہری نگرانی کے عالمی ادارے انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی نے بھی کی ہے۔ آئی اے ای اے کے معائنہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایرانی طے شدہ حدود کراس کر چکے ہیں دوسری طرف ایرانی وزیر خارجہ اس خلاف ورزی کی ذمہ داری صدر ٹرمپ پر عائد کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ معاہدے کے مطابق کسی ایک فریق کے معاہدے سے دستبردار ہونے کے بعد دوسرا فریق ردِ عمل کے طور پر کچھ بھی کر سکتا ہے۔

اسی طرح امریکی صدر ٹرمپ کی افغانستان میں امن قائم کرتے ہوئے امریکی افواج نکالنے کی خواہش ضرور ہے لیکن عملاً یہاں بھی اُن کی پریشانی واضح ہے کہ بغیر مناسب اہتمام اور تیاری کے اگر شتابی میں امریکی فوج نکالی گئی تو دہشتگرد زیادہ منظم اور مضبوط ہو کر نہ صرف موجودہ افغان سیاسی سیٹ اپ پر بلکہ خود امریکہ پر حملہ آور ہو سکتے ہیں لہٰذا افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کا مسئلہ بہت سے خدشات لئے ہوئے ہے۔ امریکی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ اس موضوع پر ہمیں کافی مسائل کا سامنا ہے، میری خواہش ہے کہ وہاں انخلاء سے پہلے ایک مستعد خفیہ ٹیم کو متعین کروں۔ افغانستان دہشت گردوں کیلئے ایک تجربہ گاہ کی حیثیت رکھتا ہے جہاں وہ باآسانی چھپ سکتے ہیں اگر ہم نے بغیر تیاری کے وہاں سے اپنی افواج کو نکالا تو مجھے ڈر ہے کہ یہ دہشت گرد زیادہ منظم ہو کر ہم پر حملہ آور ہو سکتے ہیں۔ درویش کی نظروں میں امریکی صدر کی یہ تشویش بےجا نہیں ہے لیکن اسکا ادراک بہت پہلے سے ہونا چاہئے تھا۔ امریکہ پر حملہ آور ہونے یا اس کی منصوبہ بندی تو رہی ایک طرف انہیں یہ احساس بھی ہونا چاہئے کہ ایسے کسی خلا کو پر کرنے کیلئے جو طاقتیں آگے بڑھیں گی وہ افغانستان میں نہ ختم ہونیوالی خوفناک خانہ جنگی کا پیش خیمہ بن سکتی ہیں کیا امریکی ماضی قریب کی اس ہولناکی کو بھول گئے ہیں جب انہوں نے مناسب اہتمام کیے بغیر سوویت انخلاکے بعد واپسی کی راہ لی تھی تو افغانستان میں جو بدترین خانہ جنگی ہوئی تھی اُس کی تباہ کاریاں افغان جہاد سے بھی بڑھ گئی تھیں اسی کی کوکھ سے طالبان کا ظہور ہوا اور نوبت نائن الیون کے سانحہ تک چلی گئی نتیجتاً امریکیوں کو دوبارہ اس آگ میں کودنا پڑا۔

دنیا میں قیامِ امن کیلئے طاقت کے استعمال کی افادیت سے انکار نہیں ہے لیکن اندھی طاقت بارہا حل کے بجائے کئی نئے پیچیدہ مسائل کا باعث بنی ہے لہٰذا اولین کاوش یہ ہونا چاہئے کہ حکمت عملی اور سفارت کاری کا استعمال کرتے ہوئے عالمی معاملات مذاکرات کے ذریعے حل کئے جائیں۔ صدر ٹرمپ اگرچہ بلند بانگ دعوئوں کیساتھ برسرِاقتدار آئے مگر آج حقائق انہیں بھی بہت کچھ سکھا رہے ہیں۔ پاکستان، افغانستان اور ایران کے اس پورے خطے کو وسعت نگاہی سے ملاحظہ کرتے ہوئے عالمی طاقتوں بشمول بھارت کی شمولیت سے نہ صرف دہشت گردی کے افریت پر قابو پایا جانا ضروری ہے بلکہ سی پیک جیسے منصوبے میں سب کی شمولیت قبول کرتے ہوئے اس خطے کو اقتصادی طور پر اوپراٹھنا ہوگا۔ آج کی دنیا میں کوئی بھی ملک تنہا ترقی نہیں کر سکتا، ترقی خطوں کیساتھ جڑی ہوئی ہے۔ اگر پورا خطہ اقتصادی طور پر اوپر اٹھتا ہے تو پھر دہشت گردی اسی ریشو سے نیچے جائیگی اور تحفظ کی اس فضا میں کسی کو نیو کلیئر شیلٹر کی ضرورت محسوس نہیں ہوگی۔

تازہ ترین