• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک جمہوریت پسند ہونے کے ناتے میں عوام کے اقتدار کے حق کو مانتا ہوں اور میر ی نظر میں عوام کا اقتدار صحیح معنوں میں تب ہی ہوتا ہے جب اُن کے منتخب نمائندے اُن کی اُمنگوں کی ترجمانی کرتے ہیں ۔ میں نے پاکستان میں جنرل ایوب خان سے لیکر جنرل پرویز مشرف تک با وردی صدور بھی دیکھے،ذوالفقار علی بھٹو جیسے عوامی رہنما سے لیکر شوکت عزیز جیسے ٹیکنو کریٹ بھی وزرات عظمیٰ کی کرسی پر براجمان دیکھے ہیں ۔ آج تک پاکستان میں آنے والا ہر حکمران ایک مضبوط وفاقی حکومت کا داعی رہا ہے ، شاید یہی وجہ تھی کہ مشرقی پاکستان کے جائز مطالبات بھی پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی نظر میں پاکستان کے نظریے سے غداری بن گئے ۔ مشرقی پاکستان کے سانحے کے بعد سے تو پاکستان میں گویہ صوبائی خودمختاری کا مطالبہ یا اختیارات کو نچلی سطح پر منتقل کرنے کا مطالبہ کرنا پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ سے دُشمنی مول لینے کے مترادف بن گیا ۔ میں بہت سے ایسے قوم پرست رہنماوٴں کو جانتا ہوں جنہوں نے اپنی ساری زندگیاں پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسیوں سے چھپا چھپی کھیلتے گزار دیں ۔ ان میں بہت سے ایسے ہیں جن کے بارے میں بار ہا کہا گیا وہ پاکستان کی سالمیت کیلئے خطرہ ہیں ، ان افراد کا جرم صرف اتنا تھا کہ وہ پاکستان میں مضبوط وفاق کی بجائے مضبوط وفاقی اکائیوں پر یقین رکھتے تھے۔
لیکن مجھے خوشی ہے کہ پاکستان کی موجودہ پارلیمنٹ کے دور میں ، صوبائی خود مختاری کو نہ صرف تسلیم کیا گیا بلکہ اٹھارویں ترمیم کی منظوری کے بعد وفاقی حکومت کی جانب سے دفاع ، خارجہ اور دیگر چند ایک وزارتوں کو چھوڑ کر تمام اختیارات صوبوں کو منتقل کرنے کے عمل کا بھی آغاز کر دیا گیا۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد جہاں پاکستان کی وفاقی اکائیوں میں اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی ہوئی وہیں کئی دہائیوں سے جاری نئے صوبوں کی بحث کو بھی ایک نئی جان مل گئی۔
پاکستان کے موجودہ آئین کے تحت اگر کسی بھی حصے میں کوئی نیا صوبہ بنانا مقصود ہے تو اس کے لیے سب سے پہلے قومی اسمبلی میں دوتہائی اکثریت سے اس صوبے کی تشکیل کے حق میں ایک قرار داد پاس کروانے کی ضرورت ہے ۔ اس کی منظوری کے بعد جس صوبے کی تقسیم مقصود ہے اُس صوبے کی صوبائی اسمبلی بھی دو تہائی اکثریت سے نئے صوبے کی تشکیل کی منظوری دے تب جاکر ایک نیا صوبہ بن سکتا ہے۔قومی اسمبلی اگر دوتہائی ووٹوں سے اس بہاولپور جنوبی پنجا ب صوبہ کی منظوری دے بھی دے لیکن اگر پنجاب اسمبلی اس کو منظور نہ کرے تو پیپلز پارٹی اور ان کے اتحادیوں کی ساری کوششیں بے فائدہ ثابت ہونگی البتہ پاکستان پیپلز پارٹی انتخابات میں اسکو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کر ے گی… اور کہے گی ہم تو سرائیکی علاقوں پر مشتمل صوبے کے حمایتی تھے لیکن مسلم لیگ نواز کے تعاون نہ کرنے کے بنا پر ایسا نہیں ہوا…( پاکستا ن مسلم لیگ نواز پنجاب اسمبلی میں گزشتہ سال بہاولپور جنوبی پنجاب کی قراداد منظور کرواچکی تھی)
پاکستان میں نئے صوبوں کی تشکیل کن بنیادوں پر کی جائے گی؟…کیا نئے صوبوں کی تشکیل لسانی اور زبان کی بنیاد پر کی جائے گی…؟ یا پھر ان کی تقسیم انتظامی بنیادوں پر کی جائے گی…؟ پاکستان میں لسانی بنیاد پر کی جانے والے تقسیم کار کے حوالے سے پاکستانی اسٹیبلیشمنٹ کی مخالفت ہمیشہ بہت واضح رہی ہے ، ان کی نظر میں اس طرح کی تقسیم سے پاکستان کی سا لمیت خطرے میں پڑ جائے گی ، اس خدشے کااظہار مختلف دانشوروں نے اپنی تحریروں میں بھی کیا ہے کہ اگر لسانی بنیادوں پر فیصلے کیے گیے تو پاکستان میں بننے والے نئے صوبوں سے پاکستان میں بلقانائزیشن کے عمل کاآغاز ہوجائے گا۔
ہمارے خطے میں نئے صوبوں کی تشکیل کا عمل بھارت میں دیکھنے کو ملتا ہے ، بھارت کے حصے میں آنے والے علاقے نہ صرف مختلف شاہی ریاستوں بلکہ برٹش انڈیا کے ایسے علاقوں پر مبنی تھے جن کی اندرونی تقسیم تاج برطانیہ کی منشا کے مطابق کی گئی تھی۔ آزادی کے بعد ۱۹۴۷ء میں جب پہلی مرتبہ ان علاقوں کی ازسر نو تشکیل کی گئی تو اس میں سب سے زیادہ زور زبان کی بنیاد پر علاقوں کو تقسیم کرنے پر دیا گیا۔بھارت کے پہلے آئین کے معرض وجود میں آنے کے بعد ۱۹۵۶ میں ایک مرتبہ پھر بھارت میں نئے صوبوں کے قیا م کا آغاز ہوا ، اس سلسلے میں فضل علی کمیشن تشکیل دیا گیا جس نے دوسال کی محنت کے بعد اپنی سفارشات حکومت کو دیں، اسی کمیشن کی سفارشات کے نتیجے میں بھارت کو نئے سرے سے ۱۴ صوبوں اور تین یونین ٹیر یٹر یز میں تقسیم کردیا گیا۔ مگر لسانی بنیادوں پر صوبوں کی ڈیمانڈ پھر بھی موجود رہی، یہی وجہ ہے کہ آج بھارت میں ۲۷ صوبے موجود ہیں۔ ان میں سے بیشتر کے قیام اور تقسیم کی وجہ لسانی بنیادیں ہی بنیں۔ بھارتی صوبہ پنجا ب کی مثال ہی لے لیں ، ۱۹۵۶ء میں پیش کی جانے والی سفارشات میں پنجاب ایک ایسا صوبہ بنائے جانے کا مطالبہ کیا گیا جس کی زبان پنجابی ہوگی لیکن اس وقت کی حکومت نے اس مطالبے کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ۔ پھر ۱۹۶۶ء میں آخر کار حکومت نے سکھوں کے مطالبے کے سامنے سرخم کرتے ہوئے پنجاب کو دو نئے صوبوں پنجاب اور ہریانہ میں تقسیم کر دیا۔ ہریانہ میں آنے والے علاقوں کی اکژیت ہندی بولنے والوں پر مشتمل ہے جبکہ موجودہ پنجاب میں پنجابی بولنے والے سکھ آباد ہیں ۔
بھارت میں نئے صوبوں کو بنانے کے لیے نہ صرف سیاسی طور پر اتفاق رائے دیکھنے میںآ تا ہے بلکہ ان صوبوں کو بناتے وقت اُنکو انتظامی طور پر چلانے کے لیے طریقہ کار پر بھی کافی سوچ بچار سے کام لیا جاتا ہے۔ پنجاب اور ہریانہ کو تقسیم کردیا گیا لیکن ان دونوں کے لیے ایک ہی شہر چندی گڑھ کو دارلخلافہ کے طور پر چنا گیا ۔ اس سے ایک نئے انتظامی ڈھانچے پر ہونے والے اخراجات میں کافی حد تک کمی دیکھنے میں آئی ۔ بھارت میں نئے صوبے بنانے کے بعد اُن صوبوں میں ترقی کی رفتار کافی تیز ہوگئی ، ہوسکتا ہے پاکستان میں بھی اختیارات کو نچلی سطح پر لے جانے سے انتظامی مشکلات سے چھٹکار حاصل کیا جاسکے لیکن کیا پاکستان میں نئے صوبوں کے بننے سے وہاں کی سیاسی اور انتظامی طاقت عوام کے ہاتھوں میں جائے گی ؟…یا وہاں کی اشرافیہ کے بھانجے، بھتیجے ، بیٹے، گورنر ،وزیر اعلیٰ، چیف سیکر یٹری، آئی جی کے عہدوں پر فائز ہوکر اپنی طاقت میں اضافہ کریں گے؟… حقیقت یہ ہے کہ عوام کے مسائل کا حل مقامی حکومتوں کے پاس ہے اور اُن کے روز مرہ کے کاموں کے لیے صوبائی حکومت کی مداخلت بلا جواز ہے ۔ میں نہیں سمجھتا کہ نئے صوبے بنانے سے بنیادی حقوق سے محروم عوام کے مسائل حل ہونگے ۔عوام کو حقوق اسی وقت ملیں گے جب ملک بھر میں مقامی حکومتوں کے نظام کو عملی شکل میں نافذ کردیا جائے گا ۔
تازہ ترین