• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایفیڈرین کیس، سیاسی طور پر نشانہ بنانے کی ایک بہترین مثال

اسلام آباد(فخر درانی)ایفیڈرین کیس،سیاسی طور پر نشانہ بنانے کی ایک بہترین مثال ہے۔جس میں 9فارماکمپنیوں کو یکساں الزامات کا سامناتھالیکن سزا صرف ایک کو ہوئی اور مرکزی ملزم کو کیس میں شامل ہی نہیں کیاگیا۔حنیف عباسی کی سزا کے 2ماہ بعد گلوبل فارما کو کلین چٹ دے دی گئی، حالاں کہ دونوں پر الزام یکساں نوعیت کے تھے۔ اے این ایف افسر پر گلوبل فارما سے بطور تحفہ گھر لینے کا الزام تھا ‘تاہم گلوبل فارما کمپنی کےمالک نے الزام مسترد کردیا۔حنیف عباسی ضمانت کیس میں لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے نے ٹرائل کورٹ کے فیصلے پر سوالات اٹھادیئے۔اے این ایف نے حنیف عباسی کیس کے شریک ملزم کو استغاثہ کے گواہ کے طور پر پیش کیا۔دریں اثناءاے این ایف ترجمان کی درخواست پر سوالنامہ بھیجا گیا ‘3روز گزرجانے کے باوجود جواب نہیں دیا۔تفصیلات کے مطابق،اگر اینٹی نارکوٹکس فورس کا ریکارڈ دیکھا جائے تو ایفیڈرین کوٹے سے متعلق کیسز بظاہر سیاسی نوعیت کے نظر آتے ہیں ۔مبینہ طور پر ایفیڈرین کوٹے کا غلط استعمال کرنے والی 9کمپنیوں میں سے صرف ایک کمپنی کو سزا بھگنی پڑی اور اس کمپنی کے مالک ن لیگ کے رہنما کو عمر قید کی سزا سنائی گئی۔جب کہ کچھ کمپنیوں کو مکمل چھوٹ دے دی گئی ۔جب کہ اس کیس سے متعلق مرکزی ملزم جنہیں 9500کلوگرام ایفیڈرین دی گئی تھی ۔اسے پی ٹی آئی حکومت میں اہم عہدہ دیا گیا ہے۔دی نیوز نے ایفیڈرین کیس سے متعلق ایک جامع تحقیق کی ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ کیا تمام ملزمان کو سزا ہوئی ہے اور یہ کیس اپنے منطقی انجام کو پہنچا ہے یا نہیں۔اینٹی نارکوٹیکس فورس(اے این ایف)کے دستاویزی ریکارڈ سے ثابت ہوتا ہے کہ حنیف عباسی واحد شخص ہیں جنہیں اس کیس میں عمر قید کی سزا ہوئی ہے۔باقی ماندہ کمپنیوں کو یا تو چھوڑ دیا گیا ہے یا کھلی چھوٹ دے دی گئی ہےیا پھر اس کیس میں شامل ہی نہیں کیا گیا حالاں کہ 9سال گزر چکے ہیں۔نیوٹروفارما سیوٹیکلز اور جینوم فارما جنہیں ان ہی الزامات کا سامنا تھا ان کمپنیوں کو 2014میں ہی اے این ایف عدالت نے رہا کردیا تھا۔جب کہ دو مزید کمپنیاں جنہوں نے 9500کلو ایفیڈرین حاصل کی تھی انہیں اب تک کیس میں شامل نہیں کیا گیا ہےحالاں کہ ان میں سے ایک ملزم نے نہ صرف کمپنی فروخت کردی ہے بلکہ وہ اکثر عمران خان کے اردگرد نظر بھی آتے ہیں۔ایک کمپنی جس کی حیرت انگیز طور پر حنیف عباسی کیس سے خاصی مماثلت ہے اسے حنیف عباسی کی سزا کے دو ماہ بعد ہی کھلی چھوٹ دے دی گئی۔ایفیڈرین کیس کا تفتیشی افسر ملک سے باہر جاچکا ہے اور اب اٹلی میں رہ رہا ہے۔جب کہ اے این ایف کا ایک سینئر افسر رمضان گل پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ اس نے ایک کمپنی کو کھلی چھوٹ دینے کے لیے تحفے کے طور پر ایک گھر لیا تھا۔الزامات درست ثابت ہونے پر اس افسر کو اے این ایف سے برطرف کردیا گیا تھا ۔جب کہ اس کیس کے ایک اہم کردار کو ملزم کی کمپنی میں شراکت دار بنادیا گیا تھا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ایفیڈرین کو اب بھی ان 85کنٹرول اشیا میں شامل نہیں کیا گیا ہے جو ممنوعہ ڈرگ میں شامل ہیں اور اسے رکھنے کی صورت میں سزائے موت یا عمر قید کی سزا ہوسکتی ہے۔تاہم اس فہرست میں نہ ہونے کے باوجود اے این ایف عدالت نے گوگل سے مدد لیتے ہوئے اسے ایک کنٹرول شے ایمفیٹامینسے متعلق قرار دے دیا کیوں کہ اسے ایفیڈرین سے بنایا جاتا ہے۔گوگل سے کی گئی اس تحقیق کی بنیاد پر جج نے حنیف عباسی کو عمر قید کی سزا سنادی۔حنیف عباسی کی درخواست ضمانت پر لاہور ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے استغاثہ کی ٹیم سے سوال کیا تھا کہ کیا ایفیڈرین کو نارکوٹک سبسٹینس ایکٹ 1997میں شامل کیا گیا ہےتو استغاثہ کا جواب نفی میں تھا۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں اس جرم پر سزائے موت بھی ہوسکتی تھی جو کہ مذکورہ ایکٹ کی فہرست میں بھی شامل نہیں ہے۔اے این ایف ریکارد کے مطابق،10اکتوبر،2011میں ایفیڈرین کا اصل کیس دو فارما سیوٹیکل کمپنیوں کے خلاف رجسٹر کیا گیا تھا یعنی برلیکس انٹرنیشنل لیب اور داناز فارماسیوٹیکل پرائیویٹ لمیٹڈ۔ایف آئی آر میں دونوں کمپنیوں پر الزام ہے کہ انہوں نے وزارت صحت سے ایفیڈرین برآمد کرنے کا این او سی لیا لیکن انہوں نے اسے مقامی مینوفیکچررز اور نامعلوم افراد کو فروخت کیا۔ان دونوں کمپنیوں کے مالکان برلیکس کے افتخار احمد خان بابر اور داناز کے انصار فاروق چوہدری کو گرفتار کرلیا گیا۔اے این ایف حکام نے عدالت کو بتایا کہ انصار محمود چوہدری نے ایفیڈرین کا برآمدی کوٹہ اسمگلروں کو فروخت کیا ۔یہ کوٹہ عراق اور افغانستان برآمد کرنے کے لیے بھیجا گیا تھا۔9سال گزر جانے کے باوجود مذکورہ دونوں افراد کواے این ایف نے شامل نہیں کیا ہے۔انصار چوہدری اب سرور فائونڈیشن میں ہیپاٹائٹس کنٹرول پروگرام کے مقامی سربراہ ہیں ۔وزیر اعظم عمران خان نے انہیں ہیپاٹائٹس سے تحفظ اور کنٹرول پروگرام کی انتظامی کمیٹی کا ممبر تعینات کیا۔دی نیوز نے اس ضمن میں جب انصار چوہدری سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ انہیں اب تک اس کیس میں شامل نہیں کیا گیا ہےاور چوں کہ کیس عدالت میں ہے اس لیے وہ اس پر بات نہیں کرسکتے۔تاہم ، ان کا کہنا تھا کہ لاہور ہائی کورٹ نے حنیف عباسی ضمانت کیس میں اپنے حالیہ فیصلے میں اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ایفیڈرین کنٹرول اشیا میں شامل نہیں ہے۔جس کے بعد ٹرائل کورٹ بھی اس بات کا مدنظر رکھتے ہوئے تمام ملزمان کو بری کردے گی۔ان کا کہنا تھا کہ وہ داناز فارما کافی عرصے قبل ہی فروخت کرچکے ہیں اور اب ان کا کمپنی معاملات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔وزارت صحت نے 99فارماسیوٹیکل کمپنیوں کو ایفییڈرین کوٹہ الاٹ کیا تھا ۔اس میں ابرلیکس کو 6500 اور داناز فارماسیوٹیکلز کو 2500کلو کوٹہ الاٹ کیا گیا تھا۔28کمپنیاں 500کلو یا زائد پہلی مرتبہ حاصل کررہی تھیں ۔تاہم ایف آئی آر صرف 9کمپنیوں کے خلا ف رجسٹر کی گئی۔31دسمبر 2010میں اے این ایف نے جینوم فارماسیوٹیکل پرائیویٹ لمیٹڈ اور نیوٹرو فارما پرائیویٹ لمیٹڈ لاہور کے خلاف ایف آئی آر درج کی ۔تاہم،15مئی،2014کو خصوصی عدالت کے جج محمد اختر بہادر نے جینوم فارما کو یہ کہتے ہوئے بری کردیا کہ استغاثہ یہ ثابت کرنے میں ناکام ہوچکا ہے کہ فارما کمپنی نے ایفیڈرین اسمگلروں کو فروخت کیا۔اسی روز خصوصی عدالت کے جج محمد اختر نے نیوٹرو فارما کو بھی یہ کہہ کر بری کردیا کہ کہ استغاثہ یہ ثابت کرنے میں ناکام ہوچکا ہے کہ فارما کمپنی نے ایفیڈرین اسمگلروں کو فروخت کیا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اے این ایف نے عدالت کے فیصلے کو ہائی کورٹ میں چیلنج نہیں کیا۔اے این ایف نے حنیف عباسی کی گریز فارما کے خلاف 21جولائی2012کو ایف آئی آر درج کی تھی۔ایف آئی آر حنیف عباسی اور ان کی شراکت دار رضیہ بختاور کے خلاف درج کی گئی ، جن کے کمپنی میں 50فیصد شیئرز تھے۔تاہم بعد میں اے این ایف نے رضیہ بختاور کا نام ملزمان کی فہرست سے نکال دیااور انہیں حنیف عباسی کے خلاف بطور استغاثہ گواہ کے طور پر پیش کیا۔بعد ازاں اے این ایف عدالت نے اپنے فیصلے میں یہ بھی کہا کہ وہ2010اور 2011میں گریز فارما کی شراکت دار رہیں اور اسے ختم کرنے سے متعلق فائل میں کچھ بھی نہیں ہےلیکن اس کے باوجود صرف حنیف عباسی کو سزا دی گئی۔لاہور ہائی کورٹ نے 11اپریل 2019میں انہیں ضمانت دی اور اپنے مختصر فیصلے میں کچھ اہم سوالات کھڑے کیے ۔لاہور ہائی کورٹ کے دورکنی بینچ نے استغاثہ ٹیم سے سوال کیا کہ کیا حکومت پاکستا ن نے ایفیڈرین کو کنٹرول آف نارکوٹکس سبسٹنس ایکٹ1997 کے شیڈول میں شامل کیا ہے یا نہیں۔یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ ٹرائل کورٹ نے حنیف عباسی کو 137کلو ایفیڈرین رکھنے پر عمر قید کی سزا سنائی تھی ۔جب کہ ایفیڈرین کنٹرول اشیا کی فہرست میں اب بھی شامل نہیں ہے۔دی نیوز نے زاہد بختاوری سے بھی رابطہ کیا جو کہ حنیف عباسی کی کمپنی کے 50فیصد کے شراکت دار تھےاور ان سے یہ جاننا چاہا کہ وہ کس طرح استغاثہ کے گواہ بنے تو ان کا کہنا تھا کہ وہ مصروف ہیں اور اس نمائندے سے بات نہیں کرسکتے اور بار بار فون کرنے کے باوجود انہوں نے فون نہیں اٹھایا۔گلوبل فارما کے خلاف کیس 10اکتوبر 2011میں کیس رجسٹرڈ کیا گیا تھا اور اس کمپنی کے مالکان خواجہ اسد یعقوب اور خواجہ ساجد یعقوب کے خلاف چالان 30جولائی 2013کو عدالت میں جمع کرایا گیا تھا۔جس کے مطابق گلوبل فارما نے اپنی مصنوعات اتحاد کارگو سروس کے ذریعے ستمبر اور اکتوبر 2010میں کراچی بھجوائی ۔حالاں کہ اتحاد کارگو 2009میں بند ہوگئی تھی۔گلوبل فارما کے ڈسٹری بیوٹر عرفات ٹریڈرز تھے۔تاہم بعد ازاں عرفات ٹریڈرز حنیف عباسی کیس میں استغاثہ کے گواہ بن گئے۔اسی طرح گلوبل فارما کے جنرل مینیجر پروڈکشن محمد شعیب نے دوران تحقیقات اے این ایف کو بتایا کہ وہ گلوبوڈرائن ٹیب کی پروڈکشن کی نگرانی نہیں کررہے تھے اور وہ ڈائریکٹر ٹیکنیکل ندیم پنجتن کو رپورٹ کرتے تھے۔جب کہ ندیم پنجتن کا کہنا تھا کہ تمام ٹیبلٹس محمد شعیب کی نگرانی میں تیار کی جاتی تھیں۔اے این ایف حکام کا ماننا تھا کہ کمپنی عہدیداران کے بیانات میں تضاد ہے۔باوثوق ذرائع نے دی نیوز کو بتایا کہ گلوبل فارما نے اے این ایف کے اعلیٰ عہدیدار رمضان گل کو ایک گھر تحفے میں دیا تھا ۔بعد میں دوران تفتیش رمضان گل کے خلاف الزام درست ثابت ہوااور اے این ایف نے انہیں نوکری سے نکال دیا۔دی نیوز نے گلوبل فارما کے سی ای او خواجہ اسد سے رابطہ کیا تو خواجہ اسد کا کہنا تھا کہ یہ الزامات درست نہیں ہیں اور انہیں اس بات کا علم نہیں ہے کہ اے این ایف نے رمضان گل کو نوکری سے کیوں نکالا۔ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے ڈی جی اے این ایف کو متعدد درخواستیں جمع کرائی تھیں تاکہ ان کی کمپنی کے خلاف کارروائی روکی جائے۔تاہم انہوں نے کبھی ان کی درخواستوں پر جواب نہیں دیا۔ان کا کہنا تھا کہ اے این ایف کی جانب سے کوئی جواب نہ ملنے پر میں نے عدالت سے رجوع کیا اور ایک درخواست جمع کرائی کہ اے این ایف انکوائری روکے اور ان کی بات سنے۔جس کے بعد عدالت نے اے این ایف کو میرے بات سننے کا حکم دیا ۔دوران تحقیقات اے این ایف کو پتہ چلا کہ میری کمپنی کے خلاف لگائے گئے الزامات غلط تھےاور یہی وجہ تھی کہ انہوں نے گزشتہ برس دوسرا چالان جمع کرایا اور میری کمپنی کو کلین چٹ دے دی۔ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے کسی کو کوئی رشوت نہیں دی اور اے این ایف نے دوسرا چالان میرٹ پر جمع کرایا۔دی نیوز نے اے این ایف ترجمان سے بھی 6جولائی،2019کو رابطہ کیا ۔ترجمان نے اس نمائندے کو کہا کہ وہ تمام سوالات تحریری صورت میں فراہم کرے ۔جس پر اے این ایف ترجمان کو واٹس ایپ کے ذریعے 7جولائی2019کو یہ سوالات بھیجے گئے۔1۔ داناز فارما اور برلیکس انٹرنیشنل ، جنہیں 9500کلو ایفیڈرین دی گئی اس کے خلاف کیس کی کیا حالت ہے؟2۔کیا ان دونوں کمپنیوں کو شامل کیا گیا تھا یا نہیں ؟اگر نہیں تو اس تاخیر کی وجوہات کیا تھیں؟3۔کیا اے این ایف نے ان فارما کمپنیوں کو منسلک کیا تھا اور کیس کا فیصلہ ہونے تک ان کمپنیوں کی فروخت پر پابندی لگائی تھی ۔اگر ان کمپنیوں کو منسلک نہیں کیا گیا تھا تو دیگر کمپنیوں کو کیوں منسلک کیا گیا اور ان کے اکائونٹس کیوں منجمد کیے گئے؟۔4۔کیا یہ سچ ہے کہ داناز فارما کو فروخت کردیا گیا تھا؟اگر ہاں تو اے این ایف نے ملزم مالک کے خلاف کیا اقدام کیا، جس نے فیصلہ ہونے سے قبل ہی کمپنی فروخت کردی؟۔5۔اے این ایف نے8سال بعد گلوبل فارما کے خلاف نیا چالان ایفیڈرین کیس سے متعلق عدالت میں جمع کرایا اور مذکورہ کمپنی کو کلین چٹ دی ؟کمپنی کو کلین چٹ کیوں دی گئی؟6۔اگر کمپنی بے قصور تھی تو اس کا مطلب ہے کہ پچھلے اے این ایف کے اعلیٰ حکام غلط تھے جنہوں نے اس کمپنی پر الزامات عائد کیے؟اگر ایسا ہے تو ان اے این ایف حکام کے خلاف کیا کارروائی کی گئی؟7۔کیا یہ درست ہے کہ سابق اے این ایف عہدیدار رمضان گل پر گھر بطور تحفہ لینے کا الزام ہےجو بعد ازاں درست ثابت ہوا اور انہیں نوکری سے نکال دیا گیا؟۔8۔سابق انسپکٹر شکیل کے خلاف الزامات کی نوعیت کیا ہے؟ان کے خلاف انکوائری کا کیا نتیجہ نکلا؟۔9۔انسپکٹر شکیل فی الوقت اٹلی میں رہائش پذیر ہیں ، کیا اے این ایف نے حکومت پاکستان کے ذریعے اٹلی کی حکومت سے ان کے بے دخلی کے حوالے سے بات کی ہے؟اے این ایف ترجمان نے تین روز گزر جانے اور متعدد مرتبہ فون کرنے کی کوشش کے باوجود ان سوالات کا جواب نہیں دیا۔

تازہ ترین