• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسلام آباد ایئرپورٹ سے جہاز اڑا تو ساتھ والی سیٹ پر بیٹھے ہوئے دانشور نے کہا ’’عمران خان حکومت سے کرپشن کنٹرول نہیں ہو رہی‘‘۔

میں بولا ’’برائی نیکی سے زیادہ طاقتور ہوتی ہے۔ درندوں کیلئے انسانی گوشت حرام ہے مگر چھٹتا نہیں یہ منہ کو کافر لگا ہوا‘‘۔

اُس نے کہا ’’ممکن ہے نواز شریف اور آصف علی زرداری سے اپنے دورِ اقتدار میں کچھ غلطیاں ہوئی ہوں مگر ان کی نیت خراب نہیں تھی۔ تمہیں تو معلوم ہے۔ دونوں شخصیات سے میرے قریبی مراسم رہے ہیں‘‘۔

میں بولا ’’نیتیں پہچاننے والے چلے گئے۔ عمران خان کو تو فیصلے اعمال دیکھ کر کرنا ہیں‘‘۔

اُس نےکہا ’’حکومتیں چلانا ’’جنون‘‘ کا کام نہیں۔ تجربہ اور جوانی ایک کرسی پر نہیں بیٹھ سکتے‘‘۔

میں بولا ’’جوانی کا ہے ایماں بجلیوں پر مسکرا دینا۔ جوانی کا ہے مذہب آگ پانی میں لگا دینا‘‘۔

اُس نےکہا ’’تم پی ٹی آئی والے اشرافیہ کی دولت پر نظر رکھے ہوئے ہو۔ خیال رکھنا اشرافیہ میں بڑے بڑے ناگ پڑے ہیں، حکومت کو ہی ختم کرا دیں گے‘‘۔

میں بولا ’’چلیں میں پی ٹی آئی کا سہی۔ یہ بھی تسلیم کہ اشرافیہ وہ مافیا ہے جس کا آسانی سے کوئی ممبر نہیں بن سکتا مگر میں اتنا جانتا ہوں، سپیروں کے رازق سانپ ہی ہوتے ہیں‘‘۔

اُس نےکہا ’’تم کہتے ہو جب سے پاکستان بنا ہے حکمراں اسے لوٹ ہی رہے ہیں۔ کیا تمہیں یہ پاکستان لٹا پُٹا نظر آتا ہے۔ یہ موٹر ویز، یہ بڑی بڑی گاڑیاں، یہ بلند و بالا کاروباری پلازے، یہ دولت کی ریل پیل، کیا لٹے ہوئے ملک ایسے ہوتے ہیں؟‘‘

میں بولا:پاکستان کی مثال چاول کے اُس دانے کی ہے جس پر کندہ ہوتا ہے ’’مجھے ہزاروں صدیوں سے اربوں لوگوں نے کھایا مگر کوئی ختم نہیں کر سکا‘‘۔

اُس نے کہا ’’یہ نیب کی کارروائیاں وقتی ہیں۔ کچھ بھی نہیں ہوگا۔ سب نیب زدگان عدالتوں سے رہا ہو جائیں گے۔ امیروں کے ستارے گردش میں نہیں آیا کرتے‘‘۔

میں بولا ’’بیشک اپنی عمر میں تم نے تبدیلیاں آتی ہوئی نہیں دیکھیں مگر آتی ہوئی تبدیلیوں کے بارے میں پڑھا تو ضرور ہوگا۔ ڈرو اُس دن سے جب تپائی جائیں گی اہلِ زر کی پیٹھیں کروٹیں اور پیشانیاں کہ پس چکھو مزا دولت کو سینت سینت کر رکھنے کا‘‘۔

اُس نے کہا ’’یہ علامتی گفتگو چھوڑو۔ وزیراعظم کے بعد پاکستان میں دوسرا اہم ترین عہدہ وزیراعلی ٰپنجاب کا ہے تم یہ بتائو کہ تمہارے عثمان بزدار نے اب تک کیا کارنامہ سر انجام دیا ہے؟‘‘

میں بولا ’’تمہارا خیال ہے کہ تم نے میری کسی نازک رگ پر انگلی رکھ دی ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ عثمان بزدار جیسا بھی وزیراعلیٰ ہے مگر یہ طے ہے کہ وہ شہباز شریف سے کئی گنا بہتر ہے۔ اس نے غربیوں کے لئے کام کئے ہیں۔ پناہ گاہیں بنائی ہیں۔ جہاں بے گھروں کو چھت بھی مسیر آتی ہے اور کھانا بھی۔ حکومت پنجاب اس سال ساڑھے تین کروڑ غریبوں کو صحت کارڈ فراہم کر رہی ہے۔ ہر کارڈ میں سالانہ سات لاکھ بیس ہزار روپے کی لاگت کی علاج معالجے کی سہولت ہو گی۔ یتیموں کی کفالت اور بیوائوں کی معاونت کے لئے دو ارب روپے مختص کئے ہیں۔ بزرگوں کی دیکھ بھال کے لئے تین ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ دہشت گردی کا نشانہ بننے والوں کے خاندانوں کے لئے تین سو ملین بجٹ میں رکھے ہیں۔ پنجاب میں سالانہ بارہ لاکھ نوکریوں کی فراہمی کا منصوبہ بنایا ہے۔ تمام سرکاری ریسٹ ہائوس عوام کے لئے کھول دئیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی بے شمار کام کئے ہیں۔ بجٹ کا زیادہ تر صحت، تعلیم اور صاف پانی کےلئے مختص کیا ہے‘‘۔

اُس نے کہا ’’کل تک تو تم کہتے تھے کہ عمران خان کو چاہئے کہ اسے فوری طور پر تبدیل کر دے‘‘۔

میں بولا ’’ہاں کہتا تھا۔ اُس وقت تک دراصل عثمان بزدار کی کارکردگی میرے سامنے نہیں آئی تھی‘‘۔

اُس نے کہا ’’تو اب کیسے سامنے آئی‘‘۔

میں بولا ’’جب سے راجہ جہانگیر انور انفارمیشن سیکرٹری بنے ہیں اور صمصام بخاری انفارمیشن منسٹر، حقائق بہت بہتر انداز میں سامنے آنے لگے ہیں۔ اُن سے پہلے تو مردہ بھیسوں کی باڑے میں کوئی بین بجائی جا رہی تھی‘‘۔

اُس نے کہا ’’مہنگائی کی روک تھام میں یہ حکومت ناکام ہو چکی ہے‘‘۔

میں بولا ’’تسلیم مگر یہ حکومت تمہیں ناکامی سے مانوس نہیں نظر آئے گی۔ اُس سے برسر پیکار دکھائی دے گی‘‘۔

اُس نے کہا ’’پانی کا مسئلہ بھی بہتری کی طرف نہیں جارہا‘‘۔

میں بولا ’’پانی کے مسئلہ پر سب سے زیادہ توجہ دے جارہی ہے، عثمان بزدار نے دو نئی نہریں نکالنے کا پروجیکٹ شروع کر دیا ہے۔ ایک نہر جہلم اور خوشاب کے اضلاع میں ایک لاکھ ساٹھ ہزار ایکٹر زمین کو سیراب کرے گی اور دوسری گریٹر تھل کینال چوبارہ برانچ جس سے تقریباً تین لاکھ ایکٹر زمین سیراب ہو گی‘‘۔

اُس نے کہا ’’میں پینے والے پانی کی بات کر رہا تھا‘‘۔

میں بولا ’’صاف پانی کی فراہمی کے لئے شہروں کے لئے آٹھ ارب روپے اور دیہات کے لئے آٹھ ارب دس کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں‘‘۔

اُس نے کہا ’’وہ جو بچے اسکولوں سے باہر ہیں اُن کے لئے بھی کچھ کیا گیا؟‘‘۔

میں بولا ’’کیوں نہیں۔ چھ لاکھ بچیوں میں ماہانہ وظائف کے لئے چھ ارب اور بچوں کے لئے اس سے بھی کہیں زیادہ رقم مختص کی گئی ہے، صرف بھٹہ مزدوروں کے بچوں کی اسکولوں میں حاضری یقینی بنانے کے لئے ایک خطیر رقم خرچ کی جا رہی ہے‘‘۔

اُس نے کہا ’’کیا اب بچوں سے قالین بافی کا کام نہیں لیا جائے گا؟‘‘۔

میں بولا ’’ہاں اب تمہیں وہ قیمتی قالین کہیں سے نہیں ملیں گے جس پر چسپاں ہوتا تھا: اِن کی قیمت اس لئے زیادہ ہے کہ انہیں بارہ سال سے کم عمر کے بچوں نے بُنا ہے‘‘۔

جہاز لاہور ایئرپورٹ پر لینڈ کر چکا تھا۔ ہم جدا ہونے لگے تو اس نے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا ’’عمران خان سے ملاقات کے لئے ٹائم تو لے دو یار‘‘۔

میں نے ہنس کر کہا ’’تم پہلے عثمان بزدار سے تو مل لو پھر عمران خان سے بھی مل لینا‘‘۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین