• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اپوزیشن نے موجودہ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرا دی ہے اور نئے چیئرمین سینیٹ کے لئے سینئر سیاستدان حاصل بزنجو کو متفقہ طور پر نامزد کردیا ہے۔ نام کے انتخاب سے ہی واضح ہو گیا کہ اپوزیشن چیئرمین سینیٹ کو بدلنے میں کتنی سنجیدہ ہے اگر واقعی حاصل بزنجو چیئرمین سینیٹ بن رہے ہوتے تو اُسی وقت بن جاتے جب صادق سنجرانی کو بنایا گیا مگر تب پیپلز پارٹی اور نواز لیگ دونوں ہی حاصل بزنجو کے نام کو لیکر بالکل بھی سنجیدہ نہیں ہوئیں اب جبکہ اپنی مرضی کا چیئرمین سینیٹ لانا مشکل ہوگیا ہے تو حاصل بزنجو کا نام دے دیا گیا، صرف اس لیے کہ دونوں بڑی جماعتوں کے پاس طاقتور حلقوں سے ڈیل کرنے کے لئے یہ آخری بڑا کارڈ رہ گیا ہے جس کو دونوں ہی جماعتیں اپنے اپنے حق میں استمعال کرنا چاہتی ہیں اور حاصل بزنجو جیسا نام جس نے ہر دور میں چند مخصوص عناصر کی مخالفت کی منتخب کیا تاکہ ڈیل ہو سکے۔ دونوں بڑی جماعتیں چیئرمین سینیٹ کے معاملے پر ایسی ڈیل کرنا چاہتی ہیں جس کا تعلق کسی کیس یا گرفتاری سے بچنا نہیں ہے بلکہ مریم نواز شریف اور بلاول بھٹو دونوں ہی اس بات پر متفق ہیں کہ اگر اسمبلی کے اندر تبدیلی لاکر پی ٹی آئی کی صفوں میں سے ہی کسی کو وزیراعظم بنا دیا جائے تو حکومت کو پانچ سال مکمل کرنے میں تنگ نہیں کریں گے تاہم پی ٹی آئی کی صفوں میں یہ نام کم از کم شاہ محمود قریشی کا نہیں ہو سکتا۔ کچھ ذرائع کہتے ہیں کہ عمر ایوب خان کو مبینہ طور پر وزارت عظمیٰ کے لئے تیار کیا جا رہا ہے اور میڈیا میں انہیں ایک بہترین وزیر کے طور پر پیش کرنا شروع کر دیا گیا ہے۔ مریم نواز اور بلاول بھٹو دونوں کو غالباً بتا دیا گیا ہے یا انہیں سمجھ آگئی ہے کہ اب پرانے لیڈروں کو ساتھ لیکر سیاسی میدان میں فتح کے جھنڈے گاڑنا مشکل ہے لہٰذا دونوں ہی نے نئی اور نوجوان قیادت تیار کرنا شروع کر دی ہے۔ اس سلسلے میں مریم نواز اپنی ٹیم تقریباً تیار کر چکی ہیں اور یہ ٹیم مریم نواز کی سیاسی سرگرمیوں کو کمال مہارت سے عوام کے سامنے لا رہی ہے۔ اُدھر بلاول بھٹو زرداری بھی سندھ میں نوجوان قیادت پر مشتمل ٹیم بنا چکے ہیں گو کہ مراد علی شاہ ایک انتہائی ذہین اور کامیاب وزیراعلیٰ ہیں مگر نیب کی تلوار اُن کے سر پہ لٹک رہی ہے وہ قصوروار ہیں یا نہیں اس سے قطع نظر سندھ میں انہیں پیپلز پارٹی کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے، اسی لئے بلاول بھٹو نے دوستوں کو بتا دیا ہے کہ مراد علی شاہ ہر حال میں میرا وزیراعلیٰ رہے گا۔ دوسری طرف بلاول بھٹو زرداری نے سندھ کیلئے مستقبل کا وزیراعلیٰ بھی ڈھونڈ لیا ہے اور اپنی ساری توجہ اس نوجوان پر مرکوز کر دی ہے اور بذات خود این اے 205کے ضمنی انتخاب میں نوجوان محمد بخش مہر جو کہ پی پی کے ٹکٹ پر وفات پانے والے وفاقی وزیر علی محمد مہر کے فرزند کے مقابلے میں انتخاب لڑ رہے ہیں، کی حمایت کے لئے انتخاب سے قبل ہی سکھر پہنچ گئے ہیں۔ محمد بخش مہر گو کہ قومی اسمبلی کا انتخاب لڑ رہے ہیں مگر بلاول بھٹو کی اس ضمنی انتخاب میں بہت زیادہ ذاتی دلچسپی بتا رہی ہے کہ وہ محمد بخش کو مستقبل میں سندھ کے وزیراعلیٰ کے طور پر تیار کر رہے ہیں۔ دوسری طرف بلاول بھٹو نے اس ضمنی انتخاب میں محمد بخش کی انتخابی مہم کا سربراہ ناصر شاہ کو نامزد کیا ہے جو کہ ناصر شاہ کے لئے ایک بہت بڑا امتحان بن کر سامنے آیا ہے کیونکہ ناصر شاہ کا مہر خاندان سے پرانا رشتہ ہے، اگر پیپلز پارٹی یہ انتخاب جیت جاتی ہے تو ناصر شاہ کی پارٹی میں حیثیت مزید جاندار ہو جائے گی مگر مہر خاندان میں ناصر شاہ کے دوست اُن سے روٹھ جائیں گے اور اگر پیپلز پارٹی ہار جاتی ہے تو قیادت ناصر شاہ سے روٹھ سکتی ہے۔ دوسری طرف سندھ میں یہ چہ میگوئیاں بھی زور پکڑ رہی ہیں کہ اگر این اے 205کا انتخاب پیپلز پارٹی جیت گئی تو ممکن ہے کہ فوری طور پر گورنر راج کا نفاذ کر دیا جائے اور سندھ میں پیپلز پارٹی کے بڑھتے قدم روک دیئے جائیں کیونکہ اس حلقے کا نتیجہ سندھ کی سیاست میں انتہائی اہم کردار ادا کرے گا۔ پیپلز پارٹی کا مقابلہ صرف ایک مخالف امیدوار سے نہیں بلکہ اس کے پیچھے موجود پوری پی ٹی آئی سے ہے اور بہت ممکن ہے جب تک یہ تحریر چھپے پی پی کے تیر کے نشان پر لڑنے والے امیدوار محمد بخش مہر کے کاغذات نامزدگی کی قسمت کا فیصلہ سندھ ہائیکورٹ کر دے۔ یاد رہے کہ محمد بخش 2018کے انتخابات میں کاغذات مسترد ہونے کی وجہ سے صوبائی انتخابات سے باہر ہو گئے تھے۔ پی ٹی آئی کی پوری کوشش ہے کہ وہ سندھ کی سیاست مکمل طور پر اپنے ہاتھ میں لے اور گورنر راج یا سندھ حکومت حاصل کرنے کے دوسرے کسی آپشن کے لئے وہ ایسے وقت کا انتظار کر رہی ہے جب پیپلز پارٹی بہت کمزور دکھائی دے اور یہ موقع یا تو وزیراعلیٰ سندھ کی گرفتاری کا ہو سکتا ہے یا گھوٹکی کے ضمنی انتخاب میں ناکامی کا۔ گورنر راج کے لئے پی ٹی آئی متحدہ قومی موومنٹ کو ابھی تک مکمل طور پر تیار نہیں کر پائی ہے کیونکہ بظاہر تو متحدہ قومی موومنٹ مرکزی حکومت کی اتحادی ہے مگر دل سے خوش نہیں ہے کیونکہ پارٹنر شپ اُن کو انتخابات میں اپنی 12قومی اسمبلی کی سیٹیں قربان کرکے ملی جس پر وہ بالکل بھی خوش نہیں ہیں اور اُن سے زیادہ اُن کا ووٹر اندر سے یا تو ناخوش ہے یا بہت ناراض اس وجہ سے رفتہ رفتہ متحدہ اپنا ووٹ بینک کھورہی ہے اور اگر یہی حال رہا کہ بغیر اختیارات والی وزارت بغیر کارکردگی والا مئیر اور بغیر اختیارات والے ارکان اسمبلی رہے تو متحدہ کے اس ووٹ بینک کا وہی حال ہو گا جو کراچی پر برسوں راج کرنے والی جماعت اسلامی کا ہوا ۔ متحدہ کے لیے صرف یہ ہی جاننا کافی ہے کہ پیپلز پارٹی اور نواز شریف کی نورا کشتی نے پی پی کے پنجابی ووٹر کو پی پی سے بدظن کیا اور پنجاب میں پی پی کا تقریباً وجود ہی ختم ہوگیا اور و ہی سب کچھ اب متحدہ اور پی ٹی آئی کے درمیان ہورہا ہے۔ لہذا متحدہ قومی موومنٹ سب کچھ چھوڑ کر سب سے پہلے اپنے ووٹ بینک پرتوجہ دے اور اگر اس ووٹ بینک کو روکنا ہے تو فوری طور پر کراچی کے لیے بڑے فیصلے کرنا ہوں گے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین