• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کہتے ہیں کہ ایک بہت بڑے مولانا کی لوحِ مزارپر کسی شوخ نے لکھ دیا تھا’’یہ وہ شہید ہیں جنہوں نے وزیراعظم بننے کی جنگ آخری سانس تک جاری رکھی‘‘ ۔ مجھے یاد ہے وہ مولانا جب اتفاق ہال میں تقریر کرنے آئےتھے تو ان سے پہلے ملک کے ایک بڑے سرمایہ دارنے حبیب جالب کا کلام بھی گا کر سنایا تھا۔ مولانا سے یاد آیا ۔مولانا فضل الرحمان نے فرمایا ہے’’اگر نیب کا کوئی نوٹس مجھےملاتو اس کے ٹکڑے کردیئے جائیں گے۔‘‘کسی زمانے میں آصف علی زرداری نے بھی کہا تھا۔ ’’ہمیں تنگ کیا گیا تو اینٹ سے اینٹ بجادیں گے‘‘۔ نیب والوں پر اس قدر غصہ کیوں کیا جارہا ہے۔وہ تو صرف تیزی سے امیر ہونے والے لوگوں کے اثاثہ جات چیک کررہےہیں۔سیاست دانوں کے، بیوروکریٹس کے،صحافیوں کے ، مولویوں کے ، پیروں کے، ججوں کے ،جنرلوں کے۔ اگر نیب یہ تحقیق کررہی ہے کہ فوجی شہدا کی زمین مولانا فضل الرحمن کو کیسے الاٹ ہوگئی تو اس میں غلط کیا ہے ۔بے شک فوجی جنرلوں سے مولانا کےبہت مراسم رہے بھی ہیں اور اب بھی ہیں۔ جنرلوں کے ساتھ مراسم کا کیا ہے ۔وہ ایک مکان بنانے والی کمپنی بھی اپنے گاہکوں کو بتاتی رہتی ہے کہ ہمارے پاس بہت سےریٹائرڈ جنرل کام کرتے ہیں۔یہ انکوائری دو ہزار نو میں شروع ہوئی تھی کہ فوجی شہدا کے اہل خانہ کو جو زمین الاٹ ہونا تھی وہ مولانا فضل الرحمن کو کیسے الاٹ ہوگئی۔ پھر یہ انکوائری کہیں گم ہو گئی ۔دوہزار پندرہ میں دوبارہ شروع ہوئی تو اس میں سے مولانا کا نام نکال دیا گیا ۔سنا ہے پھر اس کیس میں مولانا کانام شامل کردیا گیا ہے۔

میرا خیال ہے اپوزیشن کی حکومت مخالف تحریک کی سربراہی کے سبب مولانا کا لب و لہجہ زیادہ تلخ ہو گیا ہے۔ کسی نے مولانا پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ چیونٹی نے کہا تھاکہ جب میں اورہاتھی پل سے گزرتے ہیں تو پل لرزنےلگتا ہے۔ میں قطعاً ایسا نہیں سمجھتا ان پر کرپشن کے الزامات بھی نیب کو سوچ سمجھ کر لگانے چاہئیں ۔مولانا حرام حلال کا بڑا خیال رکھتے ہیں ۔حرام گوشت نہیں کھاتے ،حرام مال کیسے کھا سکتے ہیں ۔ویسے زمین تو ساری اللہ کی ہے اور سب انسانوں کے لئے برابر ہے۔ وہ کیسے حرام ہو سکتی ہے ۔پھر وہ کھائی تھوڑی جاسکتی ہے۔

اس وقت اپوزیشن کےلئے سب سے بڑا مسئلہ نیب کے مقدمات سے نجات کا ہے ۔چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی سے کہا گیا کہ جس روزوہ قائم مقام صدر بنیں تو یہ تمام مقدمات ختم کردیں خاص طور پرنواز شریف کی سزاختم کردیں ۔انہوں نے انکار کیا تو تحریک عدم اعتماد لائی گئی ۔میرے خیال میں اگر حاصل بزنجو چیئرمین سینٹ بن بھی گئے تو وہ بھی اپوزیشن کی یہ بات نہیں مانیں گے ۔ویسے ان کے چیئرمین سینٹ بننے کے امکانات بہت کم ہیں ۔میری نون لیگ کے کئی سینیٹرز سے گفتگو ہوئی ہے ۔ان کے خیال میں حاصل بزنجو کے نظریات مسلم لیگ کے نظریہ سے بالکل متضاد ہیں وہ کیسے انہیں ووٹ دے سکتے ہیں ۔یعنی اصل قصہ سینٹ کی چیئرمینی کا نہیں ،نیب کے مقدمات سے نجات کاہے ۔مجموعی طورپر اپوزیشن دبائو میں ہے ۔کرپشن کے معاملات میں زیادہ تر لیڈر شپ کا نام آ رہا ہے ۔بے شک اس وقت نواز شریف کی رہائی کا امکان پیدا ہو چکا ہے مگر لگتا نہیں کہ کسی پلی بارگین کے بغیر وہ زیادہ دیر جیل سے باہر گزار سکیں ۔کچھ لوگوں کا تو یہ بھی خیال ہے کہ بے چارہ جج ڈیل کی قربان گاہ پر ذبح کردیاگیا ہےمگر بیچارے نواز شریف پر جو الزامات جج نے لگائے ہیں ۔ان کا مقدمہ بھی اُن پر درج ہونا ہے ۔وکلا کے خیال میں جج کی نوکری ختم ہوسکتی ہے مگر اس کے فیصلے ختم نہیں ہوسکتے۔

ان دنوں بلاول بھٹو بھی بیچارہ لگ رہا ہے اس کی بھی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا کہ وہ اپنے باپ کو نیب کی قید سے کیسے چھڑائے ۔سنا ہے وہ اُس دن سے خاصا پریشان ہے جب اس کے ایک کزن نے اسے مشورہ دیا کہ وہ اپنے نام کے ساتھ ماں کا نام لکھنا چھوڑدے۔ اسے ہماری معاشرت میں اچھا نہیں سمجھا جاتا۔میرا خیال ہے یہ کوئی بری بات نہیں ۔ہاں زمانہ ِ جاہلیت میں عرب جب کسی کوگالی دیتے تھےتو اسے ماں کے نام سے پکارتے تھے۔

بہر حال ان دنوں مسئلہ حرام حلال ہے ۔خاص طور پر سیاست دانوں کے پاس جو مال و زر موجود ہے اس پر بحث جاری ہے کہ کیا یہ حلال ہے ۔سیاست دان کہتے ہیں نیب کی مثال تواُس آدمی کی ہے۔جس نے لندن میں شراب پی رکھی تھی ۔ گوری بھی اُس کی بغل میں تھی اور دیر سے حلال کھانا تلاش کررہا تھا۔

عمران خان یہ موقع گنوانا نہیں چاہتے ۔بیچاری اپوزیشن چال چلنے سے پہلے اس کا احوال بیان کر چکی ہے۔ اگرچہ مولانا فضل الرحمن نے ملین مارچ کا اعلان کیا ہے ۔لگتا ہے انہیں معلوم نہیں کہ ایک ملین میں کتنے صفر ہوتے ہیں۔یہ بھی ممکن ہے کہ انہیں نیب والے اِس احتجاج سے پہلے ہی اپنی تحویل میں لے لیں کیونکہ نیب بھی تو جان چکی ہے کہ یہ تمام احتجاج صرف نیب سے محفوظ رہنے کےلئے کئے جارہے ہیں ۔یہ بات مولانا فضل الرحمن بھی جانتے ہیں کہ نواز شریف اور آصف زرداری کے پاس اگر عوامی طاقت ہوتی تو اس وقت ڈی چوک لوگوں سے بھرا ہوتا۔ پرانی شطرنج کے بکس پر لکھا ہوا یہ جملہ کسی بادشاہ کو بھولنا نہیں چاہیے کہ ’’شطرنج کا ہر بادشاہ چاہے جیتے چاہے ہارے آخر میں اکیلا رہ جاتا ہے‘‘یہ بھی ایک سلگتا ہوا سوال ہے کہ نون لیگ اور پیپلز پارٹی کے پاس قومی اسمبلی میںاتنی زیادہ سیٹیں موجود ہیں۔ پیپلز پارٹی کے پاس صوبہ سندھ کی حکومت بھی ہے اس کے باوجود بھی اپنے مقصد کےلئے عوام کو باہر آنے کی کال کیوں نہیں دے رہے ۔صرف اِس لئے کہ انہیں یقین نہیں ہے کہ ان کے کہنے پر لوگ حکومت کے خلاف احتجاج کےلئے باہر نکلیں گے ۔ابھی مریم نواز نے منڈی بہائوالدین میں اور بلاول بھٹو نے ڈیرہ اسماعیل خان میں جلسہ کرکے دیکھا ہے ۔دونوں کو اندازہ ہوا ہے کہ ابھی عوام حکومت کی مخالفت پر آمادہ نہیں ۔ابھی وہ عمران خان کو وقت دینا چاہتے ہیں انہیں توقع ہے کہ عمران خان ضرور ملک کے حالات بہتر کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے ۔ کیونکہ عمران خان کا مسئلہ نہ دولت ہے ، نہ خاندان اور اولاد ہے ،نہ شہرت ہے۔اس کی زندگی کا صرف اورصرف ایک ہی مقصد ہے کہ کسی طرح پاکستان کو ایک ترقی یافتہ ملک میں بدل دیا جائے ۔

تازہ ترین