اسلام آباد (احمد نورانی) 23؍ جنوری 2012ء کو پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے پارلیمنٹ کے ایوانِ بالا میں متفقہ قرارداد پیش کیے جانے سے لے کر پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی بھی فوجی آمر کے خلاف غداری کے مقدمہ کے حوالے سے سامنے آنے والے بڑے واقعات سپریم کورٹ کے احکامات کے بعد پیش آئے۔ کہانی کا آغاز 31؍ جولائی 2009ء سے شروع ہوتا ہے جب سپریم کورٹ کے 14؍ رکنی بینچ نے تاریخی فیصلہ سناتے ہوئے جنرل پرویز مشرف کے 3؍ نومبر 2007ء کے اقدام کو غیر آئینی اور آئین منسوخ کرنے کے مترادف قرار دیا۔ تاہم، اس فیصلے میں ملک کے چوتھے فوجی آمر کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6؍ کے تحت اور سنگین غداری (سزا) ایکٹ 1973ء کے تحت مقدمہ چلانے کی ہدایت نہیں کی گئی۔ اگرچہ آئین کا آرٹیکل 6؍ اور سنگین غداری ایکٹ 1973ء موجود تھے اور یہ قوانین ذوالفقار علی بھٹو کی زیر قیادت پیپلز پارٹی کی حکومت نے بنائے تھے لیکن غداری کا مقدمہ چلانے کا طریقہ کار واضح نہیں تھا۔ ذوالفقار بھٹو کے تحت پارلیمنٹ نے فوجداری قانون ترمیمی (اسپیشل کورٹ) ایکٹ 1976 کی منظوری دی جس میں تفصیل سے پورا طریقہ کار درج ہے۔ تاہم، یہ واضح نہیں تھا کہ حکومت کی جانب سے کون شخص یہ شکایت درج کرے گا کہ غداری کا ارتکاب ہوا ہے۔ ایک مرتبہ پھر پیپلز پارٹی کی حکومت (بینظیر بھٹو کا دوسرا دور) میں ایس آر او کے ذریعے یہ واضح کیا گیا کہ اس کیس میں شکایات وفاقی سیکریٹری داخلہ کی جانب سے جمع کرائی جائے گی۔ چونکہ ماضی میں تینوں میں سے کسی بھی آمر کیخلاف غداری کا مقدمہ نہیں چلایا گیا تھا اسلئے سینیٹ پاکستان نے آگے بڑھتے ہوئے 23؍ جنوری 2012ء کو تاریخی قرارداد منظور کی جس میں پاکستان آمد کے موقع پر ملک کے چوتھے آمر جنرل پرویز مشرف کو گرفتار کرنے کا مطالبہ کیا گیا اور 3 نومبر 2007 کے اقدام پر ان کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی کا مطالبہ کیا۔ اس قرارداد کے نتیجے میں سپریم کورٹ میں کئی درخواستیں دائر کی گئیں جس میں استدعا کی گئی کہ وفاقی حکومت کو پرویز مشرف کا ٹرائل شروع کرنے کی ہدایت کی جائے۔ تاہم، اپنی گرفتاری کے خوف سے پرویز مشرف پیپلز پارٹی کی حکومت ختم ہونے پر 24؍ مارچ 2013ء کو پاکستان آئے۔ سپریم کورٹ پہلے ہی اپنے سابقہ احکامات پر عملدرآمد کے کیس کی سماعت کر رہی تھی، عدالت نے یہ نئی درخواستیں بھی سماعت کیلئے منظور کیں اور وفاق اور جنرل مشرف کو نوٹس جاری کیے۔ تاہم، نگران حکومت نے عدالت کو آگاہ کیا کہ محدود مینڈیٹ کی وجہ وہ ٹرائل شروع نہیں کر سکتی اور اس کے پاس صرف عام انتخابات کرانے کا اختیار ہے۔ نگران حکومت نے سپریم کورٹ کو تجویز پیش کی کہ غداری کا مقدمہ چلانے کا معاملہ 11 مئی 2013ء کے بعد سامنے آنے والی نئی حکومت کیلئے چھوڑ دیا جائے۔ سپریم کورٹ نے 8؍ اپریل 2013ء کو وفاقی ھکومت کو ہدایت دی کہ پرویز مشرف کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالا جائے۔ نگران وفاقی حکومت نے 9؍ اپریل 2013ء کو سپریم کورٹ کو آگاہ کیا کہ جنرل مشرف کا نام پہلے ہی ای سی ایل میں شامل ہے۔ اس سے مسلم لیگ (ن) کے کچھ رہنمائوں کا جھوٹ ثابت ہو جاتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے پرویز مشرف کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالا۔ سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے 8 اپریل کے اپنے حکم نامہ میں کچھ درخواستوں کے اہم حصے پیش کیے جس میں 31؍ جولائی 2009ء کے فیصلے کے کچھ پیراگراف بھی شامل تھے۔ ان میں سے کچھ یہ ہیں: 56۔ مسلح افواج کا ہر رکن آئین کے تیسرے شیڈول کے حلف کے تحت پاکستان کے ساتھ وفادار ہے اور اس کا آئین بالادست رکھے گا، کسی بھی طرح کی سیاسی سرگرمیوں میں شامل نہیں ہوگا ۔۔۔۔ ہم فاضل وکیل کی دلیل سے متفق ہیں کہ جنرل پرویز مشرف اپنے اس حلف پر قائم رہنے میں ناکام رہے۔ آئین ہر وقت اور ہر حالت میں نافذ رہنے کیلئے تشکیل دیا گیا تھا۔ آرٹیکل 6؍ کے ذریعے ایک طے شدہ میکنزم تشکیل دیا گیا جس میں آئین کو کسی بھی شخص کے ذریعے منسوخ ہونے سے بچانے کا طریقہ کار وضح رکھا گیا، اسے ختم کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی کوئی اسے کسی بھی طریقے سے معطل کر سکتا ہے۔ 85۔ مذکورہ بالا مباحثے کی روشنی میں جنرل پرویز مشرف کے اقدامات (ایمرجنسی کا نفاذ، پی سی او وغیرہ) غیر قانونی، بدنیتی پر مبنی، غیر قانونی اور کالعدم قرار دیئے جاتے ہیں۔ 100۔ آئین کو معطل یا منسوخ کیا جانا یا پھر ایسی کسی اتھارٹی کے ذریعے اس میں ترمیم کرنا جس کا ذکر آئین میں موجود نہیں، آئین کو منسوخ کرنے یا اسے نقصان پہنچانے کے مترادف ہے۔ یہ بات قابل غور ہے کہ آرٹیکل 6 اور 237 آئین کو اپنی خواہش و مرضی پر فوج کی کمان سنبھالنے والے جرنیل کی جانب سے یکے بعد دیگرے منسوخ و معطل کرنے اور مارشل لاء نافذ کیے جانے کے بعد ہی اس میں شامل کیے گئے تھے۔ 8؍ اپریل 2013؍ کے حکم میں سینیٹ کی تاریخی قرارداد کا بھی ذکر شامل ہے اور اس کا حوالہ پیش کیا گیا ہے جس کے مطابق سینیٹ پاکستان نے مطالبہ کیا تھا کہ جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کو پاکستان آمد کے موقع پر فوراً گرفتار کیا جائے اور وفاقی حکومت ان کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت مقدمہ قائم کرے۔ عدالت نے فیصلے کے اختتام پر کہا تھا کہ سیکریٹری داخلہ اس بات کو بھی یقینی بنائیں کہ اگر جنرل پرویز مشرف کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ پر نہیں ہے تو وہ فوری طور پر اس حکم کی تعمیل کرتے ہوئے ان کا نام لسٹ میں شامل کرائیں۔ وفاق اور اس کے ماتحت ادارے اس بات کو یقینی بنائیں کہ مدعا علیہ پاکستان کی حدود سے باہر نہ جا سکے تاوقتیکہ عدالت کا یہ حکم تبدیل نہیں ہوجاتا۔نگران حکومت کے غداری کے مقدمے سے پیش قدمی سے انکار کے بعد سپریم کورٹ نے دوران سماعت مسلم لیگ(ن) حکومت کے اٹارنی جنرل پر دبائو ڈالا کہ وہ غداری کے مقدمے کی سماعت شروع کرے کیوں کہ آئین کے آرٹیکل6 اور سنگین غداری ایکٹ 1973 کی روء سے یہ بنیادی آئینی ضرورت ہے۔ جبکہ مسلم لیگ(ن) کی حکومت ٹرائل شروع کرنے سےہچکچا رہی تھی، جس کی وجہ سے سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کو واضح الفاظ میں کہا کہ اگر وہ مقدمے کی کاروائی شروع نہیں کریں گے تو ان پرآرٹیکل 6 اور سنگین غداری ایکٹ کے تحت توہین عدالت کی کاروائی کی جاسکتی ہے۔یہ نواز شریف حکومت کا پہلا مہینہ تھا،جس میں انہیںسخت قانونی مسئلہ درپیش تھا۔ان سے کچھ ماہ پہلے ہی توہین عدالت کے جرم میں ایک وزیر اعظم کو اپنا عہدہ چھوڑنا پڑا تھا۔24 جون 2013 میں وزیراعظم نے قومی اسمبلی میں کہا کہ حکومت نے جنرل مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ چلانے کا فیصلہ کیا ہے، ساتھ ہی ایف آئی اے کو حکم دیا کہ وہ نومبر 2007 کے غیر آئینی عمل کی مکمل تحقیقات کرے۔دوسری طرف مقدمے میں جنرل مشرف کے قانونی ماہرین نےاپنی پوری توجہ اس بات پر مرکوز رکھی کہ کورٹ میں یہ ثابت کیا جائے کہ غداری کے مقدمے میںمشرف اکیلے نہیں تھے، بلکہ وہ ایک ٹیم کا حصہ تھے۔جس کی وجہ سے خاصی قانونی الجھنیں پیدا ہوئیں اور مقدمہ طول پکڑتا گیا۔ جس پر ایپکس کمیٹی نے 3 نومبر2007 کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعداس کا ذمہ دار جنرل مشرف کو ٹھہرایا۔ نوٹیفیکیشن کے الفاظ اس طرح تھے، ’’میں، جنرل پرویز مشرف، چیف آف آرمی اسٹاف‘‘ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ صرف مشرف کا حکم تھا۔مقدمے میں طوالت کے سبب اسے اسپیشل کورٹ سے نکال کربالا عدلیہ میں پیش کیا گیا۔جہاں ایپکس کورٹ نے 26 فروری ، 2016 کوایک اور تاریخ ساز فیصلہ سنایا اور واضح الفاظ میں کہا کہ آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت مقدمہ صرف مشرف کے خلاف ہی قائم کیا جائے۔صرف یہی نہیں پہلے سندھ ہائی کورٹ پھر سپریم کورٹ نے مشرف کا نام ای سی ایل سے خارج کیا، جب کہ حکومت سے جواز مانگا کہ آخر کیوں مشرف کا نام ای سی ایل میں شامل کیا جائے؟ جس پر حکومت نے ٹال مٹول سے کام لیا۔یہاں تک کہ 16 مارچ کو سپریم کورٹ نے اپنے آخری حکم میں حکومت سے استفسار بھی کیا کہ وہ فیصلہ کرے کہ سنگین غداری کے پیش نظر مشرف کو حراست میں رکھا جائے یا ان کی تحریک کو موخر کردیا جائے ، مگر وفاقی حکومت جو دو سال پہلے سےہی مشرف کو باہربھیجنا چاہتی تھی نے وقت ضائع کیے بغیرانہیں باہر جانے کے اجازت دے دی۔اعلیٰ عدلیہ کے تمام اچھے فیصلے اور جمہوری قوتوں کی محنت کی بدولت ماضی کے تمام غلط فیصلوںکا ازالہ کردیا ساتھ ہی ملک کی تباہ کن جمہوری صورت حال جو کہ ایک غیر آئینی عمل سے متاثر تھی کو بھی استحکام بخشا۔