سندھ پاکستان کا سب سے اہم، قدیم اور تاریخی اہمیت کا حامل خطہ ہے۔ سندھ کی ثقافت اور یہاں کے تاریخی مقامات سندھ کی تہذیب و تمدن کا حصہ ہیں۔ سندھ کا تاریخی شہر ٹھٹھہ بھی وادی سندھ میں نمایاں مقام رکھتا ہے۔ اس کی ایک قدیم تاریخ ہے اور اس شہر کو باب الاسلام کا لقب بھی حاصل ہے۔ سندھ کی قدیم تاریخ کی بہت سی علامات اور نشانیاں اس شہر میں ملتی ہیں، ٹھٹھہ کے شہر خموشاں اور دیگر گورستانوں میں سندھ کےبڑے بڑے علماء، شاعر، درویش اور حکم راں مدفون ہیں۔ اگرچہ سندھ کے بعض مؤرخین نے یہ بات لکھی ہے کہ ٹھٹھہ شہر کی بنیاد جام نظام الدین نندا نے رکھی تھی ، لیکن تاریخی حوالوں سے پتہ چلتا ہے کہ ٹھٹھہ اس سے بہت پہلے سے آباد تھا۔ ہمیں ٹھٹھہ کا نام جام نظام الدین نندا سے پہلے محمد شاہ تغلق کے زمانے 751ھ (1350ء) میں بھی ملتا ہے اس سے قیاس ہوتا ہے کہ ٹھٹھہ آباد تو پہلے ہو چکا تھا غالباً جام نظام الدین نندا نے اپنی حکومت کے زمانے میں اسی شہر کی ازسرنو تعمیر و توسیع کی ہوگی جس کے باعث جام نظام الدین نندا کو ٹھٹھہ شہر کے معمار و بانی کا نام دیا گیا۔
ٹھٹھہ سندھی میں(ثثو)، کینجھر جھیل (جو پاکستان میں فراہمی آب کا سب سے بڑا ڈخیرہ ہے) کے نزدیک واقع ہے۔ یہ کراچی کے مشرق میں تقریباً 98 کلومیٹر یا 60 میل کی دوری پرہے۔ اس کے اطراف میں بنجر ،چٹانی اور کوہستانی علاقہ اور دلدلی زمین بھی ہے۔ ضلع ٹھٹھہ سندھ کے انتہائی جنوبی حصے میں واقع ہے۔ پاکستان کا سب سے بڑا دریا، دریائے سندھ ماضی کا اباسین دریا اسی شہر کے قریب سے گزرتا ہوا بحیرئہ عرب میں جا کرگرتا ہے۔ٹھٹھہ کی تاریخ کو عظمت اس وقت ملی جب سندھ کے سمہ خاندان نے اسے اپنا دارالحکومت بنایا۔ اس خاندان کو برہمن راجہ، داہر نے بہت دبا کر رکھا تھا، اس لیے انہوں نے اس کے ساتھ لڑائی میں محمد بن قاسم کا ساتھ دیا۔ سمہ خاندان کے علاوہ، اس شہر کو سومروں، ارغون، ترخان اور مغلوں نے اپنا پایۂ تخت بنایا۔ 17ویں سمہ حاکم جام نظام الدین دوم عرف جام نندو نے اپنا مرکز دیبل (بھنبھور) سے ٹھٹھہ منتقل کرلیا۔ مکلی میں سب سے پہلا مقبرہ اسی کا ہے ، جس کی تعمیر منفردانداز میں کی گئی ہے۔
سندھی ، ہندو اور راجستھان فن تعمیر کا دلکش شاہکار ہے جو دیکھنے والوں پر سحر طاری کردیتا ہے۔ چودھویں صدی عیسوی میں یہ شہرانتہائی اہمیت کا حامل رہا ہے۔ اُس وقت یہ نہ صرف اسلامی علوم وفنون کا مرکز تھا بلکہ سندھ کا دارالخلافہ بھی تھا، جو 95 سال تک رہا۔ دہلی کے سلطان محمد تغلق کا انتقال بھی اسی شہر میں ہوا۔ چودھویں صدی سے لے کر 1739ء تک یہاں سمہ، ارغون، ترخان اور مغل حکمرانوں کی حکومت قائم رہی۔ تاہم 1739ء کی جنگ کرنال میں ایران کے بادشاہ نادر شاہ جب مغل بادشاہ ، محمد شاہ کو شکست دے کر ہندوستان پر قبضہ کیا تو اس کی حکومت ٹھٹھہ پر بھی قائم ہوگئی جس کے بعد سے اس شہر کو بالکل نظرانداز کر دیا گیا۔ ٹھٹھہ اسلامی فن تعمیر کی تاریخی وراثت سے مالا مال ہے، جو سولہویں اور سترہویں صدی میں بنائے گئے شاہ کارمیں شمار ہوتی ہیں۔
ٹھٹھہ کی تاریخ تقریباً دو ہزار سال سے زائد پرانی ہے، قدیم دور کیباقیات اب بھی کہیں کہیں نظر آتی ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سکندر اعظم یہاں اپنی فوج کے ساتھ طویل مسافت کے دوران تازہ دَم ہونے کے لیے اقامت پذیر ہوا تھا جس کے آثار ایک جزیرہ میں اب بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔ ٹھٹھہ کی باقیات میں یہاں مقبرے، مزارات، مساجد وغیرہ شامل ہیں۔ مغلیہ عہد میں ٹھٹھہ ایک ترقّی یافتہ اورہنستا بستا شہر اور مصروف بندرگاہ تھا لیکن برطانوی راج کے دوران کراچی کے ابھرتے ہوئے تشخص نے اسے شدید متاثر کیا اور بالآخر کراچی میں بندرگاہ کی تعمیر کے بعد یہ شہر اپنی اہمیت مکمل طور سےکھو بیٹھا۔
ضلع ٹھٹھہ کی کیٹی بندر، شاہ بندر اور دیبل جیسی بڑی بندرگاہیں کاروباری مراکزکے طور پر اہمیت کی حامل رہی ہیں۔ اس کے علاوہ یورپ اور ایشیا کے ممالک کا تمام کاروبار بھی یہیں سے ہوتا تھا۔ ایک زمانے میں یہاں سینکڑوں درس گاہیں تھیں۔ اورنگزیب عالمگیر کے عہد میں سندھ کا دورہ کرنے والے ایک انگریز سیّاح نے اعتراف کیا کہ اس نے ٹھٹھہ میں 400 کے لگ بھگ ایسے مدارس دیکھے جن میں دینی و دُنیاوی علوم کی تعلیم دی جاتی تھی۔ لیکن بعض روایت کے مطابق یہاں 1200 مدرسے اور 400 یونیورسٹیاں قائم تھیں۔ یہاں دُنیا کے مختلف ممالک سے علم کےپیاسے آ کر دینی اور دنیاوی تعلیم حاصل کرتے تھے۔ سندھی زبان کے عربی رسم الخط کی بنیاد بھی ٹھٹھہ کے مشہور عالم دین مخدوم ابوالحسن نے رکھی تھی جس کے بعد انگریز سرکار کی جانب سے سندھ میں سندھی زبان کو قومی زبان کا درجہ دے دیا گیا تھا۔
دُنیا کا سب سے عظیم اور قدیم قبرستان مکلی بھی ٹھٹھہ کے قریب واقع ہے۔ یہ قبرستان جس میں لاکھوں قبور ہیں، تقریباً آٹھ مربع کلومیٹر کے رقبے پر محیط ہے۔ یہاں کئی بادشاہ، ملکہ، علماء، فلسفی اور جرنیل اَبدی نیند سورہے ہیں۔ یہاں کی قبروں کی خاص بات اُن کے دیدہ زیب خدوخال اور نقش و نگار ہیں جو نہ صرف صاحب قبر کےعہد، عظمت اور شان و شوکت کی نشان دہی کرتے ہیں بلکہ اُس وقت کی تہذیب، ثقافت اور ہنرمندی کا بھی منہ بولتا ثبوت ہیں۔ یہاں موجود قبریں تاریخی اعتبار سے دو اَدوار میں تقسیم کی جاتی ہیں۔ پہلا سمہ بادشاہوں کا دور (1520ء ۔ 1352ء) تک رہا اور دُوسرا دور ترخان بادشاہوں کا جو (1592ء ۔ 1556ء) تک رہا۔ ان عمارتوں کے ڈھانچے نہایت عمدہ اور ان کی تعمیر میں استعمال ہونے والا مٹیریل بہت ہی اعلیٰ معیار کا ہے۔
ان قبروں پر کی گئی نقّاشی اور کشیدہ کاری کا کام اپنی مثال آپ ہے۔ یہ قبرستان تاریخ کا وہ ورثہ ہے جو قوموں کے مٹنے کے بعد بھی اُن کی عظمت و ہنر کا پتہ دیتا ہے۔ ٹھٹھہ کے گورنر، مرزا عیسیٰ خان ترخان کے مقبرے کی عمارت سندھ دھرتی کی رنگین اور پُرآشوب تاریخ کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ٹھٹھہ کے گورنر کی یاد میں تعمیر کی جانے والی یہ عمارت انتہائی دلکش ہے۔ مکلی میں مرزا عیسیٰ خان ترخان کا مقبرہ عظمت، وسعت اوربلندی میں منفرد ہے۔ مقبرے کے احاطے میں ان کے خاندان کے دیگر افراد کی قبریں بھی موجود ہیں۔ مرزا عیسیٰ خان ترخان کو 1627ء میں سندھ کے شہر ٹھٹھہ کا گورنر مقرر کیا گیا۔ ان کا انتقال 1664ء میں ہوا تھا۔ مقبرے کی تعمیر 1627ء میں مرزا عیسیٰ خان ترخان نے خود شروع کرائی تھی جو 18 برس میں مکمل ہوئی ہے۔ بے شمار ستونوں پر کھڑے اس مقبرے کا گنبد سفید رنگ کا ہے۔ ٹھٹھہ میں ترک النسل ترخان خاندان نے ایک طویل عرصے تک حکومت کی۔ اس خاندان کا تعلق 1526ء میں جنوبی ایشیا میں قدم رکھنے والے ظہیرالدین بابر سے تھا۔
ٹھٹھہ کے نوادرات میں جامع مسجد (جسے شاہجہانی مسجد اور بادشاہی مسجد بھی کہا جاتا ہے) جو مغل بادشاہ شاہ جہاں نے 1647-49ء کے درمیان تعمیر کرائی تھی۔ اس مسجد میں 93 گنبد ہیں اور اسے اس انداز میں تعمیر کیا گیا ہے کہ اس میں امام کی آواز بغیر کسی مواصلاتی نظام کے پوری مسجد میں گونجتی ہے۔ جامع مسجد کی کاشی کاری اسے دیگر عمارات سے ممتاز کرتی ہے۔ اگرچہ زمانے کے سرد و گرم نے اسے خاصا نقصان پہنچایا مگر آج بھی یہ فن تعمیر کا ایک حسین شاہکار ہے۔ ٹھٹھہ کا ذکر کینجھر جھیل کے بغیر اَدھورا ہے۔ کینجھر جھیل کراچی سے 122 کلومیٹر اور ٹھٹھہ سے 18 کلومیٹر کے فاصلے پرواقع ہے، یہ میٹھے پانی کی پاکستان میں دُوسری بڑی جھیل ہے جس سےکراچی اور ٹھٹھہ کو پینے کا پانی فراہم کیا جاتا ہے۔ یہاں سردیوں کے موسم میں دُنیا بھر سے پرندے آتے ہیں اور افزائش نسل کرتے ہیں۔ کینجھر جھیل ایک اہم تفریحی مقام بھی ہے جہاں کراچی، حیدرآباد، ٹھٹھہ و دیگر مقامات سے لوگ گروپوں کی صورت میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ پکنک منانے کے لیے آتے ہیں۔ اسے عام طور پر کلری جھیل بھی کہا جاتاہے۔
ٹھٹھہ مفلوک الحال نہیں بلکہ معدنی دولت و دیگر قدرتی سائل سے مالا مال ہونے کے باعث شاہکار شہرہے۔ اس شہر کی بہتری کے لیے سچائی، نیک نیتی اور سنجیدگی سے توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔ سندھ کی ثقافت اَجرک، لونگھی، سوسی، سندھی ٹوپی اور گج بھی یہاں کے کاروبار میں شامل تھے۔ متعدد معروف عالم دین ٹھٹھہ ہی میں پیدا ہوئے اور آج بھی بہت سے بزرگانِ دین یہاں ہی مدفن ہیں۔ ٹھٹھہ علم و اَدب کے ساتھ عظیم بزرگ ہستیوں اور باکمال افرادکا شہر ہے،جن میں جام نظام الدین سموں عر ف جام نندو، مخدوم محمد ہاشم ٹھٹھوی، شاہ مراد شیرازی، عبداللہ شاہ اصحابی، شاہ گوہر گنج، شاہ مسکین، شاہ کمال، ابراہیم شاہ و دیگر شامل ہیں۔ عیسیٰ خان کے مقبرے کے علاوہ یہاں مرزا جانی بیگ، مرزا تغرل بیگ اور دیوان شرفاء خان کے مقابر بھی نہایت مشہور ہیں۔ اگر ذرا غور کیا جائے تو ٹھٹھہ کی تاریخ قدم قدم پر کروٹیں بدلتی رہی ہے، کبھی مسکرائی، کبھی آنسوئوں کی بارش، لیکن پھر بھی یہاں زندگی کے بہت سے مختلف رنگ دیکھنے کو ملتے ہیں اور ماضی کے جھروکوں میں جھانکیں تو سوچوں کا سمندر میں خیالات کا تسلسل رہتا ہے۔ کبھی سیاست کی خونی داستانیں، حاکموں کا ہر وقت غرور و تکبّر اور اَنا کی جنگ زندگی کا حصہ تھیں۔
جنگیں وحشت، بربریت کی داستانیں اور ان کے بدلے میں ہزاروں معصوموں کی لاشیں… مگر اس کا دُوسرا مثبت پہلو بھی تھا یہ شہر علم و اَدب کا گہوارہ بھی رہا۔ اساتذہ، منصف، شاعر، موسیقار اور سنگتراش بھی تھے، جن کی کاوشیں آج بھی زندہ و جاوداں ہیں اور ہمیں ماضی کی یاد دلاتی ہیں۔ دریائے سندھ، جس کے کنارے یہ شہر آباد ہوا تھا، اس نے اسے حسن و جمال اورشناخت دی۔ جس ٹھٹھہ کا مقابلہ پیرس سے کیا جاتا تھا، وہ ٹھٹھہ وقت کے ظالم قدموں کے نیچے روند دیا گیا۔ اب حقیقت یہ ہے کہ ٹھٹھہ کی یہ ساری خوبصورتیاں اور عظمتیں صرف تاریخ کے صفحات پر داستانوں کی شکل میں رہ گئی ہیں۔ موجودہ ٹھٹھہ گزرے ہوئے زمانے کے بالکل برعکس ہے،جو خوبصورتی کا دُوسرا نام تھا۔