SMS: #NRC (space) message & send to 8001
پاکستان میں اسپورٹس کے تمام شعبوں میں انفرادی طور پر اہل کمال پائے جاتے ہیں۔ مگر ان کو اس اعلیٰ مقام پر ایستادہ کرنے میں کسی بھی سطح پر حکومت فیڈریشن یا بورڈ کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔ کرکٹ کی بے انتہا سرپرستی، ٹی وی کوریج، اشتہار اور بے تحاشہ دولت کی وجہ سے میڈیا، عوام اور حکومت ہاکی، فٹبال، باکسنگ سے سوتیلی ماں کا سا سلوک کرتےہیں۔ خاص طور پر فٹبال کے ساتھ جو رویہ پاکستان فٹبال فیڈریشن نے اپنا رکھا ہے اس کی وجہ سےفٹبال کے میدان ویران ہیں ۔ متوازی تناظیم کے قیام، حکومتی کی بے اعتنائی کی وجہ سے فیڈریشن تمام عرصہ اندرونی سیاست اور کھینچاتانی میں مصروف اپنے اصلی مقصد یعنی فٹبال کے فروغ کی طرف توجہ دینے سے معذور ہے۔ سارا زور فیفا میں نمائندگی اور ایشین اور انٹرنیشنل سطح پر اپنی لابی مضبوط بنانے میں صرف ہو رہا ہے۔ اس کے نتیجے میں فٹ بال کے لئے کھلاڑیوں میں جو جذبہ، جنون اور تڑپ انہیں اعلیٰ معیار و مقام کے لئے متحرک رکھتا ہے، مفقود ہے۔ کسی بھی کھلاڑی کے لئے اپنی جسمانی ساخت کو ڈھالنے اور جواہر کو نمایاں کرنے اور صلاحیتوں کو منوانے کے لئے صرف دس سال کا عرصہ ہوتا ہے، لیکن جس قسم کے حالات سے فٹبال کا کھلاڑی دوچار رہتا ہے وہ اسے نرسری یا پلیٹ فارم مہیا کرنے کی بجائے گم کردہ راہوں کا مسافر بنا دیتا ہے۔ پاکستان فٹ بال فیڈریشن کے مسلسل تنازع کی وجہ سے فٹبال کو بہت نقصان ہوا ہے۔ ان کی اندرونی کشمکش کی وجہ سے بہترین توانائی اور صلاحیتیں رکھنے کے باوجود ہمارے جوان کئی انٹرنیشنل مقابلوں میں حصہ نہیں لے سکتے۔ اس طرح وہ بہت چھوٹے میدانوں میں اپنی توانائیاں ضائع کر دیتے ہیں۔ فیڈریشن کے باہم دولخت ہو جانے کے بعد پاکستان عالمی رینکنگ میں 187 نمبر پر جا پہنچا ہے لیکن فیڈریشن کے اعلیٰ عہدوں پر پچھلے دو عشروں میں وہی اعزاز یافتہ چند چہرے براجمان ہیں جن کی وجہ سے فٹبال اس تنزلی کا شکار ہے لیکن کوئی محتسب ادارہ ایسا نہیں جو ان سے سوال کر سکے کہ آپ اپنی نا اہلی کا اعتراف کرکے فیڈریشن کیوں نہیں چھوڑ دیتے۔ ان کے مخالفین جو اختلاف کرتے ہیں۔ وہ اس لئے نہیں کہ ان کو ٖفٹبال سے ہمدردی ہے بلکہ ان کو صرف عہدوں اور اس سے منسلک مفادات سے دلچسپی ہے۔ انہیں ہر دور میں اُوپر رہنے کا فن آتا ہے۔ فٹ بال بنیادی طور پر نہایت غریب پرور کھیل ہے۔ اس سے وابستہ کھلاڑی عام طور پر پاکستان کے پس ماندہ علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں لیکن ان کی صلاحیتوں کو صرف ان کی ذاتی کوششوں کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر تسلیم کیا جارہا ہے۔ پاکستان کے سب سے مہنگے فٹبال کھلاڑی کلیم اللہ آئندہ فٹ بال سیزن امریکن کلب Tulsa Roughnek کی جانب سے عمدہ کارکردگی کے لئے پُرعزم ہیں۔ دس ملین روپے حاصل کرنے والے شہرت یافتہ کھلاڑی خان ریسرچ لیباریٹری کے گرائونڈ پر ٹریننگ سے بین الاقوامی سطح پر متعارف ہوئے ہیں۔ ان کے علاوہ پاکستانی جوان نبی اسلام، ذیشان رحمان، سعداللہ خان، محمد عادل حسین بشیر ڈنمارک، مالدیپ، ملائیشیا اور کرغستان کے پرائیویٹ کلبز سے منسلک ہیں۔ ہمارے پڑوسی ممالک میں ترکی اور ایران انٹرنیشنل رینکنگ میں 20اور 44ویں پوزیشن پر فائز ہیں۔ ان کی اسلامی اور ایشین شناخت ان کے لئے کوئی رکاوٹ کی وجہ نہیں بلکہ اعزاز ہے۔ پہلے کرکٹ صرف دولت مشترکہ کے ممالک میں کھیلی جاتی تھی مگر اب انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کی مستقل بین الاقوامی سطح پر سرپرستی کی وجہ سے تمام انٹرنیشنل ٹورنامنٹ میں پاکستان نژاد کھلاڑی کثیر تعداد میں ان ممالک کی نمائندگی کرتے ہیں۔ غریب الدیار پاکستانی ان ممالک مثلاً برطانیہ، فرانس، ہالینڈ، جرمنی اور ناروے میں بھی جہاں فٹبال قومی سطح پر بہت مقبول اور مالی آسودگی کا سبب ہے۔ کرکٹ کو ترجیح دیتے ہیں جبکہ اسکول اور علاقائی سطح پر فٹ بال کو ترجیح دیا جانا چاہئے تھا۔ مگر کرکٹ کا جنون جادو کی طرح سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ دنیا کے غریب ترین طبقے کے کھیل فٹ بال کی امیر ترین تنظیم FIFA کے انتخابات کے نتیجے میں یورپین فٹبال ایسوسی ایشن کے حمایت یافتہ فرانسیسی گیانو انفانٹینو FIFA کے صدر منتخب ہوئے ہیں۔ انہیں مجموعی طور پر 115 ووٹ ملے۔ ان کے قریب ترین حریف شیخ سلیمان بن ابراہیم الخلیفہ 88ووٹوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہے۔ گیانو نے صدارت کے عہدے کی مدت کو محدود، خواتین کی نمائندگی کو فروغ اور عہدیداروں کی تنخواہ کو منظر عام پر لانے کی منظوری دے دی ہے۔ سیپ بلاٹر کی صدارت میں FIFA کرپشن کی دلدل میں دھنس چکی تھی جس کی وجہ سے انہیں صدارت سے استعفیٰ دینا پڑا تھا۔ شاید ہی کوئی عہدیدار ہو جس پر کوئی نہ کوئی الزام ثابت نہ کیا گیا ہو۔ سوال یہ ہے کہ اگر روس اور قطر کی جگہ برطانیہ اور امریکہ کو 2018ء اور 2022ء کی ورلڈ کپ کی میزبانی مل جاتی تو کیا FBI زیورخ میں ایسا ہی کمانڈو ایکشن کرتی۔ FIFA کے 209 ممالک میں اب اصلاحات اور شفافیت کا مطالبہ زور پکڑ گیا ہے۔ کیا اس کے دائرہ کار میں پاکستان فٹبال فیڈریشن میں بھی کوئی تبدیلی آسکے گی۔ خاص طور پر صدارتی عہدے کی مدت میں کوئی کمی لائی جاسکے گی؟