• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ٹاپ کی اپوزیشن قیادت گرفتار جو آزاد ہیں ان پر مقدمات،تجزیہ کار

کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیو کے پروگرام ”آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے ن لیگ کے رہنما احسن اقبال نے کہا ہےکہ ملک کو خانہ جنگی کی طرف دھکیل رہے ہیں گرفتار کرنا چاہتے ہیں تو کرلیں ،ہمیں اپنے موقف سے نہیں ہٹا سکتے،سنیئرتجزیہ کار حامدمیر نے کہا کہ اپوزیشن تو خود چاہتی ہے کہ اس کے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو گرفتار کیا جائے، میزبان شاہزیب خانزادہ نے تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ٹاپ کی اپوزیشن قیادت گرفتار جو آزاد ہیں ان پر مقدمات ہیں،ایک اور اپوزیشن کے اہم رہنما اورایک اور سابق وزیراعظم کو گرفتار کرلیا گیا جبکہ نیب اپوزیشن کے ایک اور رہنما کی گرفتاری کیلئے چھاپے مار رہا ہے۔جس رفتار سے گرفتاریاں ہورہی ہیں ایسا لگ رہا ہے کہ جلد ہی پوری اپوزیشن کی مین اسٹریم قیادت جیل میں ہوگی۔شاہد خاقان عباسی کی گرفتاری کے حوالے سے دلچسپ بات یہ ہے کہ نیب نے انہیں پندرہ جولائی کو نوٹس جاری کیا، اٹھارہ جولائی کو پیش ہونے کو کہا مگر ان کا وارنٹ گرفتاری سولہ جولائی کو ہی سائن کرلیا گیا تھا یعنی اگر شاہد خاقان عباسی جمعرات کو پیش ہوتے تو انہیں پیشی کے بعد گرفتار کرلیا جاتا مگر وہ پیش نہیں ہوئے تو پھر انہیں اسلام آباد سے لاہور جاتے ہوئے جو وہ شہباز شریف کے ساتھ چار بجے پریس کانفرنس کرنے کیلئے جارہے تھے گرفتار کرلیا گیا۔ بقول ن لیگ اور شاہد خاقان عباسی پہلے ہی یہ کہہ چکے تھے کہ نیب نے انہیں گرفتار کرنا ہے تو کرلے وہ تیار ہیں وہ ضمانت بھی نہیں کرائیں گے۔ یہ بات شاہد خاقان عباسی نے بار بار کی اورجمعرات کو انہیں گرفتار کرلیا گیا۔ ن لیگ کے رہنما احسن اقبال نے کہا کہ ہم راستے میں ویسے ہی ڈسکس کرتے آرہے تھے کیونکہ میرے لئے بھی طلبی ہوچکی ، وہ بھی پیشیاں بھگت رہے ہیں تو میں نے بھی ان سے یہ پوچھا تھا کہ کیا آپ کوکوئی باقاعدہ complaint دی گئی ہے کہ آپ کے خلاف یہ چارجز ہیں تو انہوں نے کہا کہ نہیں دیئے گئے، انہوں نے کہا کہ مجھے جو سوالات دیئے گئے ہیں میں نے نیب کو خط لکھ کر کہا ہے کہ آپ مجھے specific charge بتائیں کہ میرے خلاف آپ کو کیا شکایت ہے تاکہ ہم اس کا جواب دے سکیں، اب آپ سوالات پوچھتے ہیں ہم ان کا جواب دیں گے،جب تک ہمیں یہ نہ پتا ہو کہ شکایت کیا ہے تو ہم کیسے آپ کو صحیح جواب دے سکتے ہیں، اس طرح کی ہم بات کرتے آئے لیکن جب ٹھوکھر پر پہنچے تو آگے ایک بہت بڑا پولیس کا اور رینجرز کا دستہ موجود تھا جس نے گاڑی کو روکا اور اصرار کیا کہ وہ انہیں لے کر جانا چاہتے ہیں ہم نے انہیں کہا کہ آپ وارنٹ لیٹر دکھائیں کہ وارنٹ گرفتاری ان کا کدھر ہے تو وہ ان کے پاس نہیں تھا، پھر ایک کچا سا کاغذ جو فوٹو کاپی تھی اس پر ہی انہوں نے کچے ہاتھ سے لکھ کر کہ ہم آپ کو گرفتار کررہے ہیں وہ پکڑادیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ پاکستان کے اندر نازک مرحلہ ہے، ہم فاشزم کی طرف جارہے ہیں جہاں ایک پولیٹیکل ایجنڈے کے تحت اپوزیشن کی آوازیں دبائی جارہی ہیں اور خاص طور پر ان لوگوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے جن کی کارکردگی کو زمانہ مانتا ہے۔ شاہد خاقان عباسی نے کیا کرپشن کی ہے، اس نے یہ کرپشن کی ہے کہ وہ ایل این جی ٹرمینل جو دس سال سے کوئی نہیں لگا سکا تھا اس نے ایک سال میں لگا کر دکھادیا، اس نے یہ کرپشن کی ہے کہ پاکستا ن کی گیس شیڈنگ کے مسئلہ کو ختم کردیا تین برسوں کے اندر۔ اس نے یہ کرپشن کی ہے کہ پانچ ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کے کارخانے جو سستی بجلی دے رہے ہیں ان کیلئے گیس پائپ لائن ڈال کر پاکستان کو انرجی میں خودکفیل ہونے میں مدد کی۔جس جس نے پاکستان کی ترقی میں پانچ برسوں میں حصہ ڈالا ان سب کو آپ مجرم بنا کر پیش کررہے ہیں۔اب دیکھئے مفتاح اسماعیل اتنے اچھے کاروباری گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں، چاہے شاہد خاقان ہو، مفتاح ہو، ان کا دشمن بھی ایک پیسے کی مالی بدعنوانی کا الزام ان پر نہیں لگاسکتا لیکن یہ وہ سب لوگ ہیں جنہوں نے مفتاح اسماعیل صاحب نے بھی سوئی سدرن گیس کے بورڈ کے چیئرمین تھے، ایگزیکٹو رول پر بھی نہیں تھے تو اس حوالے سے کہ یہ آپ نے منصوبے کیوں لگائے، کیسے لگائے، بھئی یہ پاکستان کی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے لگائے، جب آپ اس پروفائل کے لوگوں کو ہراساں کریں گے، قواعد و ضوابط پر بے بنیاد کیس بنائیں گے تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ گریڈ سترہ کا افسر، گریڈ اٹھارہ کا افسر، گریڈ انیس کا افسر جس نے پہلے ہی فیصلہ لینا بند کیا ہوا ہے وہ پاکستان کے اندر اب کوئی انتظامی فیصلے پر بھی دستخط نہیں کرے گا ۔ہمیں اس کی کوئی پرواہ نہیں ہے، ہم کہہ چکے ہیں کہ یہ اگر ہمیں پکڑنا چاہتے ہیں تو پکڑیں لیکن یہ ہمیں ہمارے موقف سے نہیں ہٹاسکتے۔ احتجاج ہوگا اور وہ بہت خطرناک ہوگاکیونکہ پھر کارکن قیادت کے بغیر سڑکوں پر نکلیں گے اور جس دن یہ کارکن قیادت کے بغیر سڑکوں پر نکل آئے اس ملک کے اندر جو حشر ہوگا اس کا بھی ان کو اندازہ نہیں ہے کہ ہم ملک کو کس طرف لے کر جارہے ہیں۔ ابھی آپ نے دیکھا ہے کہ جو مہنگائی ابھی نو فیصد پر ہے اس نے اٹھارہ فیصد پر جانا ہے، مسلم لیگ ن کا کارکن ہی نہیں ہر شہری، ہر مزدور، ہر کاروباری، ہر تاجر، ہر شخص نکلے گا چونکہ یہاں پر لوگوں کیلئے روٹی کھانا ناممکن ہوجائے گا، ابھی آپ اگلے چار مہینے میں جب اس بجٹ کے اثرات نظر آئیں گے دیکھئے گا کہ ہر شخص مجبور ہوگا کہ اپنے حق کیلئے سڑک کے اوپر نکلے۔ کسی جماعت کی کال کی ضرورت نہیں ہوگی، یہ تو ملک کو ایک خانہ جنگی کی طرف دھکیل رہے ہیں،شاہزیب خانزادہ نے اپنے تجزیئے مزید کہا کہ اب بات کریں گے ایل این جی کیس کی، الزام کیا ہے اور اس کی حقیقت کیا ہے، یہ معاملہ شروع ہوا وزیر ریلوے شیخ رشید کی طرف سے۔ وہ ایل این جی کیس میں بڑی کرپشن کے مسلسل دعوے کرتے رہے، پھر جب شاہد خاقان عباسی وزیراعظم بنے تو شیخ رشید نے ایل این جی ڈیل میں مبینہ گڑبڑ پر شاہد خاقان عباسی کی نااہلی کی درخواست کی اور سپریم کورٹ سے کہا کہ شاہد خاقان عباسی نے ایل این جی ڈیل میں بڑی گڑبڑ کی ہے، وہ بددیانتی کے مرتکب قرار پائے ہیں انہیں نااہل قرار دیا جائے مگر بارہ فروری 2018ء کو سپریم کورٹ نے شیخ رشید کی درخواست مسترد کردی،البتہ چیف جسٹس نے اپنے حکم میں لکھا کہ درخواست گزار ایل این جی میں بے ضابطگیوں کے معاملہ میں نیب سے رجوع کرسکتا ہے۔ سپریم کورٹ کے حکم کے بعد شیخ رشید نے نیب کو درخواست دی اور پھر گزشتہ سال جولائی میں نیب نے باقاعدہ انکوائری کی منظوری دیدی۔ چودہ جون کو نیب نے انکوائری کو انویسٹی گیشن میں تبدیل کردیا، اس دوران نیب نے شاہد خاقان عباسی کو کئی بار طلب بھی کیا، انہیں سوالنامہ بھی دیا جس کا شاہد خاقان عباسی نے جواب بھی دیا اور پھر مئی 2019ء میں انہوں نے یہ سوالنامہ عوام کے سامنے رکھ دیا، شاہد خاقان عباسی نے نیب کے تمام سوالات کے جواب دیئے اور وہ پبلک کردیئے۔ سابق وزیراعظم کی جانب سے شیئر کی گئی دستاویزات کے مطابق کچھ سوال جواب ہم آپ کے سامنے رکھتے ہیں۔ اس کے مطابق نیب نے شاہد خاقان عباسی سے پوچھا کہ ایل این جی کی برآمد کیلئے قطر کا انتخاب کرنے کی وجوہات بتائیں؟ اور یہ بھی بتائیں کہ اس کا فیصلہ کس نے کیا، اس سے اب تک کیا فوائد حاصل کیے گئے ہیں جو دوسری صورت میں حاصل نہیں کیے جاسکتے تھے؟ شاہد خاقان عباسی نے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے لکھا کہ قطر دنیا میں ایل این جی پیدا کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے اور قطر وہ واحد ملک ہے جو فری والیومز میں ایل این جی پیدا کرتا ہے خاص طور پر اس مقدار میں جتنی پاکستان کو ضرورت تھی، پاکستان گورنمنٹ ٹو گورنمنٹ بنیاد پر قطر سے ایل این جی حاصل کرنے کیلئے 2005ء سے کوشش کررہا تھا لیکن ان اقدامات کو سنجیدگی سے نہیں کیا گیا تھا کیونکہ پاکستان کے پاس ایل این جی کی regasification کی سہولیات موجود ہی نہیں تھیں، جہاں تک آپ کے سوال کا تعلق ہے کہ ایل این جی قطر سے درآمد کرنے کا فیصلہ کس نے کیا تھا تو اس کا جواب یہ ہے کہ گورنمنٹ ٹو گورنمنٹ بنیاد پر قطر سے ایل این جی حاصل کرنے کا فیصلہ 2013ء میں اقتصادی رابطہ کمیٹی نے کیا جس کیلئے پی این سی یعنی Price negotiation committee تشکیل دی گئی، ایل این جی خرید و فروخت کے طویل مدتی معاہدے کے لئے وسیع مذاکرات کی ضرورت ہوتی ہے جو پیپرا رولز کے مطابق صرف گورنمنٹ ٹو گورنمنٹ پروکیورمنٹ عمل کے ذریعہ ہی ہوسکتی ہے، شاہد خاقان عباسی کے جواب کے مطابق پوری دنیا میں ایل این جی کی خرید و فروخت کیلئے طویل مدتی معاہدے ٹینڈرنگ اور آکشن کے ذریعہ کرنے کی مثال موجود نہیں ہے جبکہ 2017ء میں پاکستان واحد ملک تھا جس نے مختلف کمپنیوں کے ساتھ ٹینڈرنگ کے عمل کے ذریعہ یہ طویل مدتی معاہدے کیے۔ اس کے بعد نیب نے سوال پوچھا کہ ایل این جی کی فوری خرید یا اوپن آپشن کے بجائے گورنمنٹ ٹو گورنمنٹ معاہدے کا فیصلہ کس نے کیا اور اس سے ایسے کیا فائدے حاصل کیے گئے جو بصورت دیگر حاصل نہیں کیے جاسکتے تھے؟ جس کا جواب دیتے ہوئے شاہد خاقان عباسی نے جواب دیتے ہوئے لکھا کہ گورنمنٹ ٹو گورنمنٹ بنیاد پر کسی ملک یا ادارے سے ایل این جی یا گیس کا معاہدہ کرنے کا فیصلہ اقتصادی رابطہ کمیٹی کے پاس ہوتا ہے اور اس وقت ایل این جی حاصل کرنے کیلئے گورنمنٹ ٹو گورنمنٹ معاہدے کے علاوہ اور کوئی انتخاب موجود نہیں تھا، پوری دنیا میں خریدو فروخت کا طویل مدتی معاہدہ آکشن پراسس کے ذریعہ نہیں کیا جاتا اور فوری خریداری صرف قلیل مدت کے لئے کی جاسکتی ہے اور اس میں جو ایل این جی ملتی ہے اس کا والیوم بھی کم ہوتا ہے اور اس کی وقت پر دستیابی کی گارنٹی بھی نہیں ہوتی ہے اور اس کی قیمت بھی مستحکم نہیں رہتی ہے اس لئے لانگ ٹرم کانٹریکٹ کرنا پڑا۔ ساتھ میں انہوں نے کہا کہ جیسا کہ میں نے کہا کہ قطر ایل این جی پیدا کرنے والا وہ واحد ملک ہے جو ایک مہینے میں کم سے کم ایل این جی کے چار کارگو سپلائی کرسکتا ہے۔ 2013ء میں ایل این جی حاصل کرنے کے لئے پاکستان کے پاس قطر کے علاوہ کوئی اور قابل اعتماد آپشن موجود نہیں تھا جس کے بعد نیب نے شاہد خاقان عباسی سے سوال پوچھا کہ قطر سے ایل این جی درآمد کرنے کے لئے گورنمنٹ ٹو گورنمنٹ معاہدہ کی طرف جایا جارہا تھا تو اس میں پیپرا کے قواعد و ضوابط کی پابندی کی گئی؟ جس کا شاہد خاقان عباسی نے جواب دیا کہ پیپرا کے تمام قواعد و ضوابط کی پابندی کی گئی تھی۔ نیب نے شاہد خاقان عباسی سے مزید پوچھا کہ کیا آپ نے ایل این جی کی قیمتوں سے متعلق خود کو دیگر ذرائع سے مطمئن کیا؟ جس کا انہوں نے جواب دیا کہ قیمتوں سے متعلق دیگر ذرائع کو دیکھنے کے لئے تمام اہم اقدامات کیے گئے میں مطمئن ہوں کہ قطر سے جو معاہدہ کیا گیا اس نے پاکستان کو اس کی اہم طویل مدتی ایل این جی کی ضروریات کو محفوظ سپلائی کے ساتھ مہیا کیا ، جو قیمت قطرکی کمپنی نے ہمیں دی اس قیمت کو دوسری کمپنی کے سامنے بھی رکھا گیا مگر اس نے منع کردیا جو اس بات کا ثبوت ہے کہ قطر کے ساتھ جس قیمت پر معاہدہ ہوا وہ مارکیٹ میں دوسروں سے بہتر تھا۔
تازہ ترین