• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہاں حکمرانی کا حق صرف انہی کے پاس ہے جنہوں نے خود یا جن کے اجداد نے وقت کے ایک ایک لمحہ سے مال و زر کشید کیا ہے ۔صحیح طریقے سے یا غلط طریقے سے ۔یہی ملک کی بربادی کا سبب سے بڑا ہے کہ پاکستان میں سرمایہ دار یا جاگیر دار خود حکومت کرتے ہیں دنیا کے باقی جمہوری ممالک میں سرمایہ داریا بڑے بڑے جاگیر دار سیاسی پارٹیوں کی پشت پناہی کرتے ہیں مگرخودحکومت نہیں کرتے۔اس سلسلے دو سو بائیس عیسوی میں بہلول کے ساتھ ہونے والی اپنی گفتگو درج کرتا ہوں ۔
”صحرا کی دھوپ میں دھلی ہوئی ہواکا ایک ریت سے بھرا ہوا جھونکا میرے چہرے سے ٹکرایا۔اور بہلول کہنے لگا”اس ہوا کے بارے میں بابا کہا کرتے تھے۔ یہ ازل سے سفر میں رہنے والی بے شکل بلا کبھی کبھی صحرا میں پاگل اونٹنی کی طرح کاٹنے لگتی ہے یہ نظر آئے تو ناگ دیوتا کے ہاتھ سے چہرہ ڈھانپ لیا کرو“ میں نے سوالیہ انداز میں پوچھا۔”ناگ دیوتاکا ہاتھ؟ “۔بہلول میری طرف دیکھ کر بولا۔” تمہیں تو ہر بات بتانی پڑتی ہے۔۔یہ جو ہم بل دے کر سر پر چارد کی کنڈلی مارلیتے ہیں یہ ناگ دیوتا کی علامت ہے ۔ ناگ دیوتا کا ہاتھ۔۔پگڑی کے پلوکو کہا جاتا ہے۔۔۔“اور میں نے بھی بہلول کی طرح پگڑی کے پلو کو چہرے کا نقاب بنا لیا۔کچھ دیر ہم خاموشی کے ساتھ چلتے رہے۔اچانک میری نظر پہاڑ کی طرف اٹھی تو ایک سلیٹ کی طرح سیدھی چٹان پر کچھ تصویریں بنی ہوئی تھی ۔میں نے بہلول کو ان کی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کی تو کہنے لگا۔” میں تم سے پہلے پڑھ چکا ہوں“ ۔
میں نے حیرانگی سے پوچھا۔ ”کیا یہ کچھ لکھا ہوا ہے “۔کہنے لگا ”تم بولتے بہت ہو ۔۔ہاں یہ قطبی ستارے کی شان میں لکھا ہوا ایک دراوڑی گیت ہے“۔ میں نے کہا۔ ۔”سناؤ گے نہیں “۔اور بہلول گیت پڑھنا شروع کردیا
ابھے پاسے بکھداے ہن دے لیکھ دا تارہ
گندھیاے جیدے لشکاراں زردار دا گارا
(شمال کی طرف سے ہنوں کے مقدر کا ستارہ روشن ہوتا ہے
جس کی شعاعوں میں زردارکے بت کا گارا گوندھا گیا ہے)
میں نے گیت کے بول سن کر حیرت سے کہا ۔”یہ تو سرائیکی زبان ہے“بہلول کہنے لگا۔”سرائیکی ۔یہ بھی کسی زبان کا نام ہے۔یہ ہنی زبان ہے ۔ہنوں کی زبان “۔میں نے حیرت سے پوچھا”یہ ہن کون تھے“۔بہلول بڑی بے رحمی سے بولا ۔”جتنے جاہل تم ہو اتنا جاہل تو ہمارے قبیلے کا بال کاٹنے والا بھی نہیں “۔مجھے ایسے لگا کہ آج بہلول گفتگو کرنے کے موڈ نہیں ہے سو میں نے بھی خاموشی پہن لی مگر ابھی ایک کوس ہی نہیں چلے تھے کہ اس نے مجھ سے کہا۔” میرا خیال ہے تم زیادہ دیر میرے ساتھ نہیں چل سکو گے ۔تم دوسراپاؤں ابد پر رکھنا چاہتے ہواور میں ازل کو سمجھنے کیلئے برسوں سے پہلے قدم پر رکا ہوا ہوں۔تمہارے نزدیک فلسفہ ء صبر قاتلوں کی منطق ہے اور میں انتظارکی صدیوں بھری وحشت کا مسافر ہوں۔تم ایک چھلانگ میں معرفت کی اعلیٰ ترین منزل پر پہنچنے کا خواب دیکھتے ہو اور میں اپنی فکری پرواز میں معرفتِ اعلیٰ کا پابند ہوں میرے لئے اس حقیقت تک پہنچنے کے بہت سے مدارج ہیں جن سے میں نے گزرنا ہے۔ دیکھو آندھیوں اور طوفانوں کی عمر بہت تھوڑی ہوتی ہے“۔میں نے اس کی بات کو نظرانداز کرتے ہوئے کہا”بہلول تمہارا تعلق گاؤں سے ہے اور تم یہ بھی کہتے ہو کہ تم پہلی باردھن کوٹ جیسے بڑے شہر میں آئے ہو ۔تو پھریہ اتنی عقل مندی کی باتیں کہاں سے سیکھی ہیں“ ۔بہلول ہنس پڑا اور بولا۔” علم صرف شہروں میں لفظوں کو چبانے والے گیدڑوں کا ورثہ تونہیں۔میرے ساتھ درختوں کے پتے باتیں کرتے ہیں لہلہاتی فصلیں مجھے کہانیاں سناتی ہیں۔ان چھوئے جنگل مجھے اپنے خواب دکھاتے ہیں ۔ میری پرندوں کی گفتگو رہتی ہے۔ہوائیں مجھے لوریاں دیتی ہیں۔ سندھ کے پانی مجھ سے سر گوشیاں کرتے ہیں۔پہاڑ آگے بڑھ بڑھ کے میرے پاؤں چومتے ہیں ۔ دشت میری آنکھ کی وسعت سے سہمے رہتے ہیں۔ راتوں کو ستارے مجھ سے ہمکلام ہوتے ہیں“۔
بہلول کے منہ سے اتنی بڑی باتیں سن کر میں نے کہا۔”تو پھرلہوارجیسے شہر میں لفظوں کو چبانے والے گیدڑ وں سے کیا لینے جارہے ہو۔“۔بہلول کی پیشانی شکنوں سے بھر گئی اور بولا ”تمہیں کہا ناکہ ماروائی اصل تک پہنچنے کے لئے جو مدارج میں نے طے کرنے ہیں ان کیلئے کسی رہنما کی ضرورت پڑتی ہے میں نے سنا ہے کہ لہوار میں چندر وید نام کا ایک آدمی ہے جو اس سلسلے میں میری مدد کر سکتا ہے“۔ میں نے پوچھا ”تم ماورائی اصل تک کیوں پہنچنا چاہتے ہو “ بہلول بولا ”وہاں پہنچ کر میں اپنے گارے کو بدل سکتا ہوں اس گارے میں تبدیل کر سکتا ہوں جس سے زر دار بنائے جاتے ہیں ۔میں بادشاہ بننا چاہتا ہوں اور بادشاہ بننے کیلئے ضروری ہے زردار ہونا مگروہ گارا صرف ان مخصوص قسم کے لوگوں کو عطا ہوتا ہے جن پر روحِ کل کا خصوصی انعام تخلیق ہونے سے پہلے ہوجاتا ہے۔“
یہ وہ صدیوں پرانے خیالات ہیں جنہیں انسان نے بڑی مشکل سے تبدیل کیاہے وگرنہ ساری دنیا میں بادشاہ ظلِ الہی ہی ہوتے تھے مگر مجھے افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ پاکستان میں تین چار خاندان جوکھرب پتی ہیں وہی جمہوریت کے نام پرمسلسل طلِ الہی بنے ہوئے ہیں ۔اگرہمیں اپنے وطن میں سچ مچ جمہوریت لانی ہے تو پھر وہ گارا بدلنا ہوگا جس سے حکمران بنائے جاتے ہیں۔
تازہ ترین