• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
روز آشنائی … تنویرزمان خان، لندن
امریکہ ایک ایسا ملک ہے، جہاں آبادی سے کہیں زیادہ اسلحہ عام لوگوں کے پاس ہے۔ گن رکھنے کو امریکہ میں آئینی حق کے طور پر تحفظ حاصل ہے۔ اسے کاغذی طور پر تو اپنے دفاع، شکار یا تفریحی استعمال کے لیے رکھا جاتا ہے لیکن اس گن کلچر کی وجہ سے وہاں کے گرجوں، اسکولوں، نائٹ کلبوں، شراب خانون اور میوزک ہال وغیرہ میں ہزاروں کی تعداد میں بے گناہ لوگ آپس کی گولیوں کا نشانہ بنتے ہیں۔ اگر کوئی حکومت یا صدر اس گن کلچر کو کمزور کرنے یا ختم کرنے کی طرف قدم بھی بڑھاتا ہے تو اسے ایسا کرنے نہیں دیا جاتا۔ یہ دراصل صرف اسلحہ انڈسٹری کے مالکان کی طرف سے ہی مزاحمت نہیں آتی بلکہ عام طور پر لوگ بھی اسے ختم کرنے کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ یہ اس طرح سے ہے جس طرح ہمارے پاکستان میں پٹھان یا بلوچ وغیرہ اسلحہ ساتھ رکھنے کو اپنے کلچر کے حوالے سے اپنی شان سمجھتے ہیں۔ اسی طرح امریکہ میں بھی گن کلچر کی ایک تاریخ ہے۔ جب پانچ سو سال قبل یورپ سے لوگ امریکہ کی سرزمین پر آباد ہونا شروع ہوئے تو گھنے جنگلات کی وجہ سے جنگلی جانوروں کی بھی بہتات تھی۔ جن سے محفوظ رہنے اور جانوروں کو خوراک کے لیے مارنے کے لیے اسلحے کا استعمال عام ہوا۔ مقامی آبادی تو تیر کمان سے خوراک اور اپنے تحفظ کا کام لیتی تھی، البتہ یورپ سے جانے والوں نے مقامی آبادی کو کنٹرول کرنے کے لیے بھی بندوق کا کھلا استعمال کیا۔ اسی مقامی آبادی کو غلام بنایا۔ اس کی ٹریڈ کی اور اپنی رہائشی منصوبہ بندی کے لیے مقامی آبادی کو گولیوں کا نشانہ بنایا۔ مقامی آبادی کے قبائل صفحہ ہستی سے مٹا دیے۔ ہسپانیوں نے تو جنوبی امریکہ میں اپنے اڈے بنانے کے لیے 80 لاکھ مقامی آبادی کا قتل عام کرلیا جو کہ اس وقت کی سب سے بڑی نسل کشی تھی۔ بعد میں انگریزوں نے اس ریکارڈ کو بھی شرمندہ کردیا تھا اور پانچ سال میں 3 کروڑ کی مقامی آبادی کا صفایا کردیا۔ اس وقت وہاں کل وقتی یا فل ٹائم پیشہ وارانہ فوج کا کوئی رجحان نہیں تھا۔ پرائیویٹ قاتلوں کے گروہ اس طرح کا کام کرتے تھے۔ بالکل ویسے ہی آج بھی امریکہ میں سیکورٹی کنٹریکٹرز موجود ہیں۔ جو پیسے کی خاطر دنیا بھر میں حکومت کا یا پرائیویٹ کام کرتے رہتے ہیں۔ بات کو سمجھنے کے لیے بلیک واٹر کی مثال دی جاسکتی ہے، جو آج دنیا بھر میں امریکی حکومت کے لیے جگہ، جگہ قتل عام حکومتوں کے دھڑن تختہ کرنے کا کام کرتے رہتے ہیں۔ آج دنیا میں امریکہ واحد ایسا ملک ہے جو ترقی یافتہ ترین ہونے کے باوجود ان ٹاپ کے بارہ ممالک میں شامل ہے جہاں اسلحے کے بے ٹوک استعمال کی وجہ سے شرح اموات بہت بلند ہے دیگر گیارہ ممالک غریب معیشت کے حامل ہیں۔ زیادہ تر کا تعلق بھی ویسٹ انڈیز یا جنوبی امریکہ سے ہے۔ امریکہ میں اسلحہ ساز کمپنیاں ہر سال لاکھوں کی تعداد میں چھوٹا خودکار اسلحہ (رائفل، پستول، چھوٹی مشین گن) بنا کر بیچتی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اوباما کے زمانے میں امریکہ کی اسلحہ ساز کمپنیوں نے اسلحے کی پیداوار میں بہت اضافہ کردیا جس کا سبب ان کا خوف تھا کہ شاید اوباما اسلحہ رکھنے پر پابندی کرنے جارہا ہے اور شہریوں سے اسلحہ واپس لے لے گا۔ کینیڈا میں بھی اسلحہ تو عام ہے لیکن وہاں قتل عام کی شرح بہت کم ہے بلکہ امریکہ سے دس گنا کم ہے۔ اس وقت امریکہ کے ہر ایک لاکھ افراد کے پاس ایک لاکھ پینتیس ہزار ہتھیار ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ اسلحے پر کسی قسم کی پابندی لگانے کے حق میں نہیں ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اگر اوباما اپنے اعلانات کے مطابق اسلحے پر پابندی عائد کردیتا تو آج وہاں قتل عام میں خاطر خواہ کمی واقع ہوچکی ہوتی۔ امریکہ کی ریاست نویڈا میں اسلحے کی خاصی کھلی خرید و فروخت ہوتی ہے۔ خطرناک رائفل یا پستول خریدنا ایسے ہی ہے جیسے آپ بازار سے جوتے یا سوٹ خرید لائیں جب کہ کیلی فورنیا میں اسلحہ خریدنے کے قوانین ذرا سخت ہیں۔ وہاں خریدار کی دماغی حالت پر میڈیکل رپورٹ اور گزشتہ مار دھاڑ کا پولیس ریکارڈ چیک کیا جاتا ہے۔ آپ حیران ہوں گے کہ امریکہ میں AR15 رائفل کی پچاس گولیوں کا ڈبہ صرف 20ڈالر میں مل جاتا ہے۔ ایسے میں سر پھرے اور مہم جو نوجوانوں کے ہاتھوں میں اسلحہ آجانا کوئی اچنبے کی بات نہیں۔ امریکہ کی خوشحال سوسائٹی میں فرسٹیشن بھی ہے اور مہم جو مزاج بھی۔ کسی کو مرتے دیکھنا، جسم کے کسی خاص حصے سے بہتا ہوا خون دیکھنا ایک مشغلے کا عمل ہے۔ کئی بیمار ذہن بہتا خون دیکھ کر ذہنی تسکین محسوس کرتے ہیں اور کبھی شدت جذبات میں اسلحہ اٹھا کر کسی بھی انسانی اجتماع کی جگہ میں جاگھستے ہیں اور لاشوں کے ڈھیر لگا دیتے ہیں۔ مزاج کا یہ عنصر بھی انہیں تاریخی طور پر اپنے جینز میں ملا ہے۔ جب مقامی آبادی کو غلام بنانے یا ختم کرنے کا سلسلہ جاری تھا تو یورپی بچے بھی اپنا نشانہ پکا کرنے کے لیے مقامی قبیلوں میں گھس جاتے تھے اور سر عام نہتے خاندانوں کے خاندان ختم کر دیتے تھے۔ انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں تھا۔ مقامی آبادی کو اسلحے تک رسائی اور حصول کی کوشش بھی قابل قتل جرم ہی تھی۔ اسی لیے مقامی نسلیں تقریباً ختم ہی کردی گئیں۔ آج بھی ایک طرف امریکی سامراجی معیشت اور اوپر سے امریکہ کی چھین کر کھانے کی تاریخ نے امریکیوں کے مزاج میں دوسرے ممالک میں جاکر دھونس دھاندلی اور اغوا و قتل عام کرانا معمول کا عمل ہے اور اپنے لیے اور دوسروں کے لیے انسانی حقوق کا معیار بھی دہرا ہے جسے ابھی بدلنے میں صدیاں نہیں تو کئی دہائیاں تو ضرور درکار ہیں۔
تازہ ترین